(کہانی ہالینڈ کی (سلطان ایس بی کے

244

ایک آدمی دولت کمانے کی خواہش پوری کرنے کے لیے ہالینڈ گیا۔ وہ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم پہنچا۔ اس شہر میں اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے اس نے ایک بہت عالی شان عمارت دیکھی۔ بہت دیر تک عمارت کو دیکھتا اور سوچتا رہا کہ یہ کس شخص کا مکان ہے، کون خوش قسمت شخص اس میں رہتا ہوگا، وہ کتنا مال دار ہوگا؟
ایک آدمی قریب سے گزر رہا تھا۔ مسافر نے اس شخص سے پوچھا: ’’بھائی، یہ کس کا مکان ہے؟‘‘
اس آدمی نے کہا: ’’کے نی ٹو ورس ٹن۔‘‘
ہالینڈ کی زبان میں اس کا مطلب ہے۔۔۔’’میں آپ کی بات نہیں سمجھا‘‘۔ لیکن چوں کہ مسافر یہ زبان نہیں جانتا تھا، اس لیے اُس نے سمجھا کہ یہ آدمی مکان کے مالک کا نام کے نی ٹو ورس ٹن بتا رہا ہے۔
اس آدمی کی یہ خواہش اب اور بھی بڑھ گئی کہ وہ چھوٹی موٹی نوکری یا محنت مزدوری کرنے کے بجائے کوئی بڑا کام کرے، خوب کمائے اور بہت ساری دولت اکٹھی کرے۔ اس فکر میں اس نے اور زیادہ کوششیں شروع کردیں۔ ایک دن وہ سمندر کے کنارے پہنچا۔ اس نے دیکھا ایک بہت بڑا جہاز گودی پر لگا ہوا ہے اور ہزاروں مزدور سامان اتار رہے ہیں۔ مسافرنے ایک آدمی سے پوچھا: ’’بھائی، یہ جہاز کس کا ہے؟‘‘
اس آدمی نے جواب دیا :’’کے نی ٹو ورس ٹن۔‘‘
مسافر پھر یہی سمجھا کہ یہ جہاز کے مالک کا نام ہے۔
وہ دل میں سوچنے لگا کہ کے نی ٹو ورس ٹن کتنا بڑا رئیس ہے، جو چیز دیکھو، اسی کی ہے۔
کچھ دن بعد مسافر نے دیکھا کہ ایک جنازہ جارہا ہے۔ ہزاروں آدمی اس جنازے میں شریک ہیں۔ مسافر سمجھ گیا کہ کوئی بڑا آدمی مرا ہے۔ اس نے سوچا اس آدمی کا نام معلوم کرنا چاہیے۔ جب اس نے کسی سے پوچھا تو وہی جواب ملا: کے نی ٹو ورس ٹن۔
مسافر کو بڑا رنج ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ کوئی آدمی کتنا ہی بڑا ہو، کتنی ہی دولت اور جائداد کا مالک ہو، موت سے نہیں بچ سکتا۔ تو پھر مال و دولت اکٹھا کرنے سے کیا حاصل؟ اب اس آدمی کو دیکھو، سارا مال و متاع دوسروں کے لیے چھوڑ کر رخصت ہوگیا۔ میں خوامخواہ دولت کمانے کی فکر میں ملکوں ملکوں گھوم رہا ہوں۔ مال دار بننے کی خواہش نے مجھے پریشان کررکھا ہے۔ نہیں، اب میں لالچ نہیں کروں گا۔ جو بھی کام کروں گا، محنت سے کروں گا اور بس اتنا کماؤں گا کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکوں اور عزت سے رہ سکوں۔
محنت اور ایمان داری سے کما کر کھانے ہی میں زندگی سکون اور مزے سے بسر ہوتی ہے۔
nn
کیلا زود ہضم ہے اور جسم کو طاقت ور بناتا ہے، اس لیے اسے بہترین پھل کہا گیا ہے۔ کیلا توانائی، حیاتین اور معدنی اجزا کے خزانے سے بھرا ہے۔ ننھے منے بچوں کے لیے تو یہ بہت اہم ہے۔ مغربی ممالک میں لو گ عموماً چتری دار کیلا پسند نہیں کرتے، لیکن مشرق میں مرغوب ہے۔ چتری دار کیلا خوب پک جاتا ہے تو اس کا زیادہ نشاستہ شکر میں تبدیل ہوکر اسے مزے دار اور زود ہضم بنادیتا ہے۔
جو بچے عام غذا ہضم کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں، ان کا معدہ کیلا بہ آسانی ہضم کرلیتا ہے۔ کیلا کھانے سے معدے میں تیزابیت بھی کم ہوجاتی ہے۔ کیلا ایسے خلیوں کی نشو و نما میں مدد دیتا ہے، جو معدے کی اندرونی جھلی کو تیزاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ قے دست کے شکار بچوں کو کیلا مسل کر اُبلے ہوئے چاول میں ملاکر کھلایا جاسکتا ہے۔ اس طرح، لاغر جسم کی کم زوری دور کی جاسکتی ہے۔
کیلا کھانے والے بچوں کی نشوونما دوسرے بچوں کے مقابلے میں تیزی سے ہوتی ہے۔
nn
کیلا کھائیں صحٹ بنائیں

حصہ