(پنجاب اور مذہبی انتہاء پسندی(سلیم صافی

245

تنقید کرنے میں جتنا فراخدل اور غیر محتاط ہوں، تحسین اور ستائش کے معاملے میں اتنا ہی بخیل واقع ہوا ہوں۔ لیکن مذہبی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں سے متعلق جو تحقیقی کام گزشتہ سالوں میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے کیا ہے، اسے خراج تحسین پیش کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس کی تحقیق کے مطابق قیام پاکستان کے وقت یعنی 1947ء میں یہاں صرف چھ مذہبی سیاسی جماعتیں یعنی جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، تحریک احرار، خاکسار تحریک، جمعیت اہل حدیث اور شیعہ پولیٹکل پارٹی کام کررہی تھیں۔
جنرل ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضے یعنی 1977ء تک یہ تعداد تیس تک پہنچ گئی تھی۔ یعنی پورے تیس سالوں میں ان میں صرف چوبیس تنظیموں کا اضافہ ہوا تھا، لیکن ان کے دور میں مذہبی تنظیموں کے قیام کا عمل اس قدر تیز ہوگیا کہ یہ تعداد سینکڑوں سے تجاوز کرگئی اور 2002ء میں جب گنتی کی گئی تو پتا چلا کہ رجسٹرڈ تنظیمیں دو سو انتالیس سے زیادہ ہیں جن میں صرف اکیس انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ ہزاروں چھوٹے گروپ اس کے علاوہ ہیں۔ ان میں ایک سو اڑتالیس خالص فرقہ وارانہ تنظیمیں ہیں۔ چوبیس جہادی تنظیمیں ہیں۔ بارہ تنظیمیں خلافت کا قیام اپنا مقصد بتاتی ہیں۔ یہ تو پورے ملک کے اعدادوشمار ہیں۔
صوبوں کی سطح پر باقی ملک ایک طرف اور صرف پنجاب ایک طرف۔ کیونکہ سب سے زیادہ تنظیمیں پنجاب میں ہیں اور یہاں پر ایک سو سات مذہبی تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر ہیں۔ صرف لاہور شہر میں اکہتر مذہبی تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر ہیں۔ ملتان میں اٹھارہ تنظیموں کے ہیڈکوارٹر ہیں، اور اس لحاظ سے وہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر سمجھا جاتا ہے۔ کشمیر میں اڑتالیس، جبکہ خیبر پختون خوا میں تینتالیس تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر ہیں۔ اسی طرح مسلکی اور فقہی بنیادوں پر تقسیم کی جائے تو پورے پاکستان میں دیوبندی مسلک کی آٹھ سیاسی، پانچ غیرسیاسی، سولہ فرقہ وارانہ، انیس عسکری اور پانچ تعلیمی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ بریلوی مسلک کی آٹھ سیاسی، گیارہ غیرسیاسی، گیارہ فرقہ وارانہ، چار عسکری اور پانچ تعلیمی تنظیمیں پاکستان بھر میں کام کررہی ہیں۔
اہلِ حدیث مسلک کی تین سیاسی، دو غیرسیاسی، چھ فرقہ وارانہ، پانچ عسکری اور دو تعلیمی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ شیعہ مسلک کی تین سیاسی، تین غیر سیاسی، بارہ فرقہ وارانہ، ایک عسکری اور ایک تعلیمی تنظیم چل رہی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر تین سیاسی، چار عسکری اور گیارہ تعلیمی تنظیمیں ملک میں سرگرم عمل ہیں لیکن اس کی سوچ کی حامل کوئی فرقہ وارانہ تنظیم نہیں۔ اب یہ مسلکی تنوع بھی سب سے زیادہ پنجاب میں ہے اور بیشتر تنظیموں کے ہیڈکوارٹر بھی پنجاب میں ہیں۔ تمام مسالک کے بیشتر اکابرین بھی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں، اور زیادہ تر لٹریچر بھی یہیں تخلیق ہوتا ہے۔ مثلاً لشکر جھنگوی کے بانی اور قائدین بھی پنجاب کے رہنے والے تھے، اور جیشِ محمد کے بھی۔ لشکر طیبہ بھی پنجاب سے اٹھی ہے اور جیشِ محمد بھی۔
مجاہدینِ افغانستان کے استاد کہلانے والے یا پھر خاموش مجاہد کے القابات حاصل کرنے والے جنرل (ر) اختر عبدالرحمان کا تعلق لاہور سے ہے اور ان کے صاحبزادے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ہیں۔ اپنے آپ کو طالبان کے استاد کہلانے والے جنرل (ر) حمیدگل مرحوم اور کرنل (ر) امام مرحوم کا تعلق بھی پنجاب سے تھا۔ طالبان کے حق میں ہزاروں صفحات سیاہ کرنے والے بیشتر دانشور بھی پنجاب ہی میں مقیم ہیں۔ جنہیں ہم عسکری تناظر میں طالبان کہتے ہیں، اور جو بنیادی طور پر قبائلی علاقوں کے طالبان کی نظریہ سازی اور تربیت کا بھی کام کرتے رہے، پنجابی طالبان کہلاتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی تحقیق کے مطابق اس پنجابی طالبان کے تئیس گروپ پنجاب سے متعلق یا پھر یہاں سرگرم عمل ہیں جن میں لشکر ظل، قاری ظفر گروپ، بنگالی گروپ، گنڈاپور گروپ، مولوی رفیق گروپ، گل حسن گروپ، قاری یاسین گروپ، مولوی کریم گروپ، قاری شکیل گروپ، قاری سیف اللہ گروپ، لشکر جھنگوی (ملک اسحاق گروپ)، قاری احسان گروپ، عصمت اللہ معاویہ گروپ، بدر منصور گروپ، امجد فاروقی گروپ، عثمان کرد گروپ، کلیم اللہ گروپ، عبدالجبار گروپ، نور خان گروپ، فدایانِ اسلام، قاری امام گروپ، مطیع الرحمان گروپ اور باباجی گروپ شامل ہیں۔
اب تماشا یہ ہے کہ پچھلے سولہ سالوں کے دوران قبائلی علاقوں میں تو آپریشن ہوئے، خیبر پختون خوا میں ہوئے، بلوچستان میں ہوئے، سندھ میں ہوئے لیکن کوئی آپریشن نہیں ہوا تو صرف پنجاب میں نہیں ہوا۔ اس کے برعکس آپریشن المیزان ہوا تو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ہوا۔ آپریشن راہِ حق ہوا تو سوات میں ہوا۔ آپریشن شیردل ہوا تو باجوڑ ایجنسی میں ہوا۔ آپریشن زلزلہ ہوا تو جنوبی وزیرستان میں ہوا۔ آپریشن صراطِ مستقیم ہوا تو باڑہ خیبر ایجنسی میں ہوا۔ آپریشن راہِ نجات ہوا تو سوات میں ہوا۔ آپریشن بلیک تھنڈر اسٹرام ہوا تو دیر، شانگلہ اور بونیر میں ہوا۔ یہاں تو اتنے آپریشن ہوئے کہ نام بھی کم پڑ گئے۔ مثلاً باڑہ خیبر ایجنسی میں پہلے آپریشن صراطِ مستقیم کے تحت آپریشن درغلم (آگیا) ہوا، پھر اسی سال یعنی 2008ء میں آپریشن بیادرغلم (میں پھر آگیا) اور پھر آپریشن خوخ بہ دے شم (میں تمہیں دیکھ لوں گا) ہوا۔ اسی باڑہ میں پھر ایک سال بعد یعنی 2009ء میں آپریشن خیبر ون، خیبر ٹو اور خیبر تھری بھی ہوئے۔ پھر آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا گیا جس کا کچھ حوالوں سے دائرہ ملک بھر تک پھیلایا گیا، لیکن بنیادی طور پر وہ آپریشن شمالی وزیرستان میں ہوا۔
اس دوران بلوچستان میں ایف سی کے ذریعے آپریشن ہوئے اور سندھ میں بھی رینجرز کے ذریعے آپریشن جاری ہے، لیکن کوئی آپریشن نہیں ہوا تو پنجاب میں نہیں ہوا۔ مذہبی انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کے گڑھ پنجاب میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہوا، لیکن ضربِ عضب کی کامیابی کے ڈھنڈورے پیٹ کر ہمیں بتایا جارہا تھا کہ مسئلہ حل ہوگیا یا حل ہونے کو ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عمل ہونے کی صورت میں زیادہ رسک پنجاب میں لینا پڑے گا۔ گزشتہ دو ہفتوں میں لاہور اور ملک کے دیگر خطوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد اب ملک بھر میں آپریشن ردالفساد شروع کردیا گیا تو اس کے تحت پہلی مرتبہ پنجاب میں بھی رینجرز کو طلب کرنے کی زحمت گوارا کی گئی، لیکن یہاں اختیار وہ نہیں دیا گیا جو سندھ میں رینجرز یا پھر پختون خوا اور بلوچستان میں ایف سی کو حاصل ہے۔ جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اس کی رو سے ڈرائیونگ سیٹ پر پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس بیٹھی ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے صوبے میں مذکورہ بڑے پیمانے پر موجود مذہبی فرقہ واریت اور شدت پسندی کو کیا ان نیم دلانہ اقدامات کے ذریعے صاف کیا جاسکتا ہے؟ جب ہم انہیں وزیراعظم وسطی پنجاب پکارتے ہیں تو وہ برا مناتے ہیں اور ہم جیسوں پر پنجاب دشمنی کے الزامات لگاتے ہیں، لیکن بجٹ، سرکاری عہدے، سی پیک اور دیگر مدات تو چھوڑیں جب وہ دہشت گردی اور آپریشنز وغیرہ کے معاملے میں بھی پنجاب اور دیگر صوبوں میں فرق روا رکھ رہے ہوں تو ہم کس طرح انہیں وزیراعظم پنجاب نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان پکاریں۔

حصہ