(آخری منصوبہ(محمد عادل منہاج

274

چھوٹے قد کا وہ آدمی ایک لمبی سی کار سے اترا۔ سامنے ایک عظیم الشان بلڈنگ تھی جس کی سب سے اونچی منزل کو دیکھنے کے لیے اگر سر اوپر اٹھایا جائے تو شاید آدمی پیچھے گر پڑے، مگر اس شخص کو بلڈنگ کی اونچائی سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ تو تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آٹومیٹک دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ لفٹ میں داخل ہوکر اس نے 85 ویں منزل کا بٹن دبایا اور سبک رفتار لفٹ تیزی سے اوپر چڑھنے لگی۔ 85 ویں منزل پر اترکر وہ راہداری میں آگے بڑھتا گیا اور کمرانمبر 420 کے دروازے پر رکا۔ اس نے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر کارڈ مشین میں لگایا تو دروازہ کھل گیا۔ اندر ایک لمبی چوڑی میز کے پیچھے بیٹھا ہوا چالاک قسم کا ادھیڑ عمر آدمی اسے دیکھ کر چونک اٹھا۔
’’اوہ، تم اس وقت‘‘۔۔۔اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی سر! میں نے ایک ایسا منصوبہ ترتیب دیا کہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور فوراً آپ کے پاس دوڑا چلا آیا‘‘۔ پستہ قد والا بولا۔
’’ایسی بھی کیا خاص بات ہے اس میں؟‘‘۔۔۔ چالاک شخص عام سے لہجے میں بولا۔
’’سر،آپ خود پڑھ کر دیکھ لیں۔ یہ برسوں پر محیط ایک ایسا منصوبہ ہے کہ اگر اس پر پوری طرح عمل ہوگیا تو پھر اس کے بعد ہمیں دنیا پر قبضہ کرنے کے لیے کچھ اور نہیں کرنا پڑے گا‘‘۔ پستہ قد والے نے کہا۔
’’تم تو بہت بڑھ چڑھ کر باتیں بنارہے ہو۔ لاؤ دکھاؤ ذرا اپنا منصوبہ۔‘‘
پستہ قد والے نے اپنے ہینڈ بیگ سے کاغذوں کا موٹا سا پلندہ نکالا اور اس کے حوالے کردیا۔ چالاک شخص نے سرسری انداز میں اسے پڑھنا شروع کیا، مگر چند صفحات پڑھنے کے بعد وہ چونکا اور پھر غور سے پڑھنے لگا۔ پستہ قد والا اُس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اب چالاک شخص کے چہرے پر جوش کے آثار نمودار ہوچکے تھے۔ وہ منصوبہ پڑھنے میں یوں مگن تھا کہ اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ پھر کئی گھنٹوں بعد اس نے وہ مسودہ میز پر رکھا۔ اس کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے۔
’’یو۔۔۔یو آر جینئس۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا منصوبہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔‘‘
’’تھینک یو سر۔ مجھے امید ہے کہ اس بار مجھے میری امیدوں سے بڑھ کر معاوضہ ملے گا۔‘‘
’’ہاں ہاں، یقینا۔۔۔ یوں بھی اس منصوبے کے بعد ہمیں مزید کوئی پروگرام بنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، مگر۔۔۔ تم جانتے ہو کہ اس منصوبے میں سب سے بڑی شرط رازداری ہے۔ ہمیں ساری دنیا کو بے وقوف بنانا ہوگا۔ اگر کسی کو ذرا بھی بھنک پڑ گئی کہ یہ ہمارا بنایا ہوا منصوبہ ہے تو ساری دنیا ہمارے خلاف ہوجائے گی۔‘‘
’’یہ تو ہے سر۔۔۔ ہمیں اس سارے معاملے کو راز میں رکھنا ہوگا۔ آخر کئی حکومتیں اس منصوبے کی لپیٹ میں آجائیں گی۔۔۔ اور۔۔۔ اور یہ عظیم بلڈنگ بھی تو اس منصوبے میں استعمال ہو گی‘‘۔ وہ مسکرایا۔
’’اس معاملے کو راز میں رکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کم سے کم لوگ اس سے واقف ہوں۔ اس لیے۔۔۔ اس منصوبے کی خاطر تمہیں بھی قربانی دینا ہوگی‘‘۔ اچانک چالاک شخص کا لہجہ بدل گیا۔
’’قربانی۔۔۔کیا مطلب، میں سمجھا نہیں‘‘۔۔۔ پستہ قد والا چونک اٹھا۔
’’تمہیں سب سے پہلے اپنی قربانی دینی ہوگی۔۔۔یوں بھی اس منصوبے کی تکمیل تک ہمیں بہت کچھ قربان کرنا ہوگا۔‘‘ اچانک چالاک شخص کا ہاتھ میز کے نیچے سے نکلا تو اس میں پستول دبا تھا۔
’’سس سس سر، یہ آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘ پستہ قد والا خوفزدہ لہجے میں بولا اور اچھل کر کرسی سے کھڑا ہوگیا۔ مگر پستول نے شعلہ اگلا اور پستہ قد والا اپنا سینہ پکڑے ہوئے گرتا چلا گیا۔ مرتے وقت اس کی آنکھوں میں خوف سے زیادہ حیرت تھی۔۔۔شدید حیرت۔ شاید آج تک اپنے کسی منصوبے کا اسے اس انداز میں معاوضہ نہیں ملا تھا۔
’’اب اس منصوبے سے پوری دنیا میں صرف میں واقف ہوں اور میرے سوا کوئی نہیں جان پائے گا کہ اب دنیا میں کیا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ ایک ایسا کھیل جس میں استعمال ہونے والے مہرے خود بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ وہ کیا کررہے ہیں؟‘ چالاک شخص کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ نمودار ہوگئی تھی،پھر اس نے فون کا ریسیور اٹھایا اور بولا: ’’صدر سے بات کراؤ۔‘‘
(جاری ہے)

حصہ