(اب جو شامت ائی(محمد عمر احمد خان

251

گیدڑ کی جب شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے، ہماری جو شامت آئی تو ہم نے قلمی دوست بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ پہلے بذریعہ خط کتابت، پھر ٹیلی فون اور پھر یہ قلمی دوست ہمارے ہی محلّے میں رہائش پذیر ہوگئے، اور پھر تو واقعی ہماری شامت آگئی۔ اب یہ ہوتا کہ ہم کہانی لکھ رہے ہوتے یا کوئی دوسرا کام کررہے ہوتے، ہمارے دوست آدھمکتے، چناں چہ سارے کام چھوڑ کر ان سے ملنا پڑتا۔ ہمارے یہ دوست موٹے بھی بہت ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کھاتے بہت ہیں، ان کا پسندیدہ مشغلہ ہر وقت کھانا ہے۔ ایک مرتبہ ہم دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، موصوف آگئے۔ ہم نے ’’تکلفاً‘‘ پوچھا، وہ ’’رسماً‘‘ بیٹھ گئے اور پھر وہ ہاتھ دکھائے کہ گھر والوں کے لیے کھانا ہی نہیں بچا، ہنڈیا تک چاٹ گئے۔ یہ دیکھ کر گھر والے حیران رہ گئے اور دادی اماں نے تو ان کی بھیانک سی ڈکار سُن کر سر پیٹ لیا۔ ان کے جانے کے بعد ہم سے بولیں:
’’اے نگوڑ مارے، دوست پالا ہے تُو نے یا جُراسک پارک کا کوئی ڈائنو سار!‘‘ جب کہ چھوٹی بہن نے تو باقاعدہ ایک نظم لکھ ڈالی اور وہ اگلے ہی مہینے بچوں کے ایک رسالے میں چھپ بھی گئی، جس کے ابتدائی بول کچھ یوں تھے :
مٹکا ہے یا ان کا پیٹ
جو کچھ پائے، جائے لپیٹ
جب ہماری کہانیاں دھڑا دھڑچھپنے لگیں تو ایک دن ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے:
’’ہماری بھی کہانی چھپوا دو، سُنا ہے جسارت کے ایڈیٹر تمہارے رشتے دار ہیں‘‘۔
ہم نے طنزیہ کہا:
’’ایسی تو کوئی بات نہیں، وہ تو ہمارے پکے دشمن ہیں‘‘۔
کہنے لگے:
’’تمہیں کیا پتا، ہماری تو دس کہانیوں میں سے ایک بھی نہیں چھاپی اور تمہاری ہر ہفتے چھاپ دیتے ہیں، لوگ کہتے ہیں تم ان کے بھانجے ہو‘‘۔
ہم نے کہا:
’’کسی نے افواہ اُڑائی ہوگی، ایسا کچھ نہیں!‘‘
کہنے لگے:
’’تمہیں میری کہانی چھپوانی ہی ہوگی‘‘۔
’’اچھا دکھاؤ، کیسی لکھی ہے کہانی!‘‘
انہوں نے ایک میلا کچیلا کاغذ، جس پر سالن کے چھینٹوں کے جابہ جا داغ دھبے نمایاں تھے، ہماری طرف بڑھادیا۔
’’اس میں کہانی کہاں ہے؟‘‘ (کیوں کہ سارے ہی الفاظ سالن میں ڈوبے ہوئے تھے، بلکہ یہ کہنا چاہیے، اُبھرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھے)
جب لاکھ کوشش کے باوجود کہانی ہم سے پڑھی نہ گئی اور ہم نے معذرت کی تو ناراض ہوکر چلے گئے۔ ان کے جانے پر دادی جان اور چھوٹی بہن نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ چھوٹی بہن بارہا چائے، پراٹھا بنانے کی زحمت سے اور دادی جان اس منظر کو دیکھنے سے بچ گئیں۔۔۔
ہمارے ان قلمی دوست کی ایک عادت بڑی خراب ہے۔ ہم جب ان کے گھر جاتے ہیں تو وہ ہماری بالکل بھی خاطر تواضع نہیں کرتے، جب کہ ہم ان کے لیے مرے جاتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے، جب بھی ان کے گھر گئے، انہوں نے ہمیں باہر ہی سے ریس کروائی۔ ایک بار کسی ضروری کام سے ان کے گھرگئے۔ گھنٹی خراب تھی۔ دروازہ کھٹکھٹاکھٹکھٹا کر ہمارے ہاتھوں میں درد ہوگیا۔ خاصی دیر بعد دروازہ کھلا، تو ان کی چھوٹی بہن باہر نکلی۔
’’بھیا جی کو باہر بھیجو۔‘‘ ہم نے کہا۔
وہ بولی: ’’بھب۔۔۔بھب ۔۔۔بھائی جان تو گھر پر نن۔۔۔نن۔۔۔نہیں ہیں!‘‘
’’تو اس میں ہکلانے کی کیا بات ہے؟‘‘
اچانک ہماری نگاہ اوپری منزل کی طرف گئی، دیکھا تو موصوف جھانک رہے تھے۔۔۔ہمیں اوپر نظریں دوڑاتا دیکھ کر فوراً اندر ہوگئے۔ ہم نے چلتے ہوئے ان کی بہن سے کہا:
’’سنو، جب آپ کے بھائی جان آئیں تو ان سے کہنا، اپنا بُھوسے والا سر بھی ساتھ لے جایا کریں، کھڑکی میں نہ چھوڑ جایا کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ چیونٹیاں کھا جائیں!!‘‘
nn

احسن لاشاری
چیونٹی
کتنی محنتی ہے یہ ننھی سی چیونٹی
روزانہ ڈھونڈتی ہے دن رات کا کھانا
چلتی قطار میں یہ سیدھی ننھی
اور بناتی زمین میں یہ آشیانہ
محنت کرتی روزانہ یہ چیونٹی
نہ سوتی نہ چھوڑتی یہ کام ہمیشہ
ہم بھی سیکھیں اس سے یہی
کہ محنت کا کام ہمیشہ ہے نرالا
کتنی محنتی ہے یہ ننھی سی چیونٹی
روزانہ ڈھونڈتی ہے دن رات کا کھانا
مسکرائیے!
*چھٹی ہوتے ہی ایک لڑکا اسکول سے گھر پہنچا اور اپنی ماں سے کہنے لگا:
امی امی، میری جماعت کے لڑکے بہت گندے ہیں۔ آج ایک لڑکا دوڑتا ہوا گر گیا تو سب ہنسنے لگے، مگر میں نہیں ہنسا۔
ماں نے کہا: شاباش، اچھے بچے اسی طرح کرتے ہیں۔ مگر بیٹے، یہ بتاؤ گرا کون تھا؟ لڑکے نے منہ بسورتے ہوئے کہا: میں ہی تو گرا تھا امی۔
(اریبہ راشد)
***
*پاگل خانے کے باغ میں دو پاگل ٹہل رہے تھے۔ اچانک ان کی نظر آم کے درخت پر پڑی۔ ان میں سے ایک نے کہا:
کاش، ہم بھی آم ہوتے اور درخت پر لٹک رہے ہوتے۔
چناں چہ دونوں درخت پر چڑھ گئے اور اس کی شاخ سے الٹا لٹک گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک پاگل زمین پر گر پڑا۔ دوسرے پاگل نے سوچا کہ وہ اٹھ کردوبارہ شاخ کو آپکڑے گا، لیکن جب بہت دیر تک وہ نہ اٹھا تو اس نے پوچھا:
کیا تھک گئے ہو؟
دوسرے پاگل نے جواب دیا: نہیں، پک کر گرگیا ہوں۔
(یاسر شارب )
***
*کرایہ دار مالک مکان سے بولا:
جناب آپ کے اس مکان میں چوبیس گھنٹے چوہوں کی لڑائی رہتی ہے۔
مالکِ مکان نے غضب ناک ہوکر جواب دیا:
تو کیا 4000 روپے میں آپ کو ہاتھی کی لڑائی دکھاؤں!
( سمیّہ کنول)
nn
کہانی: وینو وریت
ترجمہ: محمد شبیر احمد خان
جنگل کے قریب ہی ایک شہر تھا۔ ایک دن اس نے شہر دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہاں ہرگز نہ جانا، وہ ایک خطرناک جگہ ہے۔ وہاں ٹرمپ جیسے پاگل لوگ رہتے ہیں، جو لوگوں کو قید کرلیتے ہیں۔
لیکن چندر نے دوستوں کی ایک نہ سُنی اور شہر کو چل پڑا۔
جب وہ شہر میں داخل ہوا تو داخلی راستے پر ایک کتے کو کھڑا پایا۔ کتے کے قریب ایک خوب صورت پنجرا بھی تھا۔
کیا میں اسے اندر سے دیکھ سکتا ہوں؟ اس نے کتے سے پوچھا۔ کتے نے کہا: بہت شوق سے۔۔۔
جیسے ہی چندر نے پنجرے کے اندر قدم رکھا، پنجرے کا دروازہ باہر سے بند ہوگیا اور کتا زور زور سے بھونکنے لگا۔ اس کا شور سُن کر اس کا مالک آگیا۔ اور بندر کو دیکھ کر خوشی سے بولا: کیا شان دار بندر ہے، ہم اسے سرکس لے جائیں گے، اُمید ہے اس موٹے بندر کے اچھے خاصے پیسے مل جائیں گے۔
اور افسوس۔۔۔ یوں عقل سے کھوٹا، موٹا بندر کھاکر چقندر، بک بِکا کر ہوا سرکس میں قید۔۔۔آپ کا کبھی سرکس جانا ہو تو موٹے بندر کو مداری کے ہنٹر کے اشارے پر اُچھل کُود کرتا دیکھ سکتے ہیں!!
nn
خوشی ہے کہ پھولوں کی دُنیا کے ساتھیوں
نے مجھے پہچان لیا۔ دوستو میرا شمار پاکستان کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔ میرا پورا نام صاحبزادہ محمد شاہد خان آفریدی ہے۔ میں یکم مارچ 1980ء کو خیبر ایجنسی میں پیدا ہوا۔ 1996 کو صرف 16 برس کی عمر میں کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔ بھارت کے معروف کرکٹر اور کمنٹیٹر روی شاستری نے مجھے بوم بوم آفریدی کا خطاب دیا، جو اب میرے نام کے ساتھ جُڑگیا ہے۔
اپنی جارحانہ بلے بازی کی بدولت پوری دنیا میں پہچانا گیا اور اسی کی بدولت کئی ریکارڈ مثلًا سب سے زیادہ چھکوں کا ریکارڈ اور سب سے بہترین اسٹرائیک ریٹ کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ آج کل میں پشاور زلمی ٹیم اور ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ پی ایس ایل کا حصہ ہوں۔
مجھے بوجھنے والے بچوں کے نام:
عبداللہ، عبدالہادی، عبدالرافع، مجتبیٰ، امان، شہیر، دعا، ارتضیٰ، مرتضیٰ، مصطفی، اریبہ سعید، شیزا، ہادیہ، رضا، حمنہ سعید، وانیہ سعید، صائم بادشاہ، دانیہ رضوان، زیان، غضوان، شہربانو، شاہ رخ، شایان، کلثوم مشتاق، محمد رفیق، محمد بشیر، خیرالنسا، مہرالنسا، شہناز پروین، ضمیر احمد صدیقی
nn

حصہ