(اسلام میں عورت کا مقام (ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

500

8 مارچ کو دنیا بھر میں عورتوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ مغرب میں انسانی حقوق کے علَم بردار اس دن کو بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں، مگر دنیا بھر کے تمام مذاہب میں اسلام وہ واحد مذہب ہے جو مساوات کا علَم بردار ہے۔ اس کی تعلیمات، احکام وقوانین، اخلاق، تمدن، سیاست، مذہب، عزت و حرمت، تقدس و پاکیزگی میں مرد اور عورت دونوں یکساں اجر و ثواب کے مستحق ہیں، خصوصاً عورت کی حرمت و تقدس کا خیال جتنا اسلام میں رکھا گیا ہے دنیا کے کسی مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو آبگینہ کہہ کر اس کی عزت و احترام اور نزاکتِ حسن کی تشریح فرما دی ہے۔
قرآن و احادیث کی روشنی میں عورتوں کے حقوق متعین کردیے گئے ہیں اور انہیں مردوں سے متصل ایک اہم درجہ دے کر گویا مکمل انسانیت قرار دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث مبارکہ ہے کہ ’’مرد اپنے اہل کا راعی ہے اور اس سے ان کے متعلق سوال جواب کیا جائے گا، اور عورت شوہر کے گھر کی راعی ہے، اُس سے اس کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘
ابن ماجہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم کو عورتوں پر بجز مخصوص حقوق کے کوئی دسترس حاصل نہیں، لیکن ہاں جب وہ کوئی گناہ کریں۔‘‘ اسی بنا پر عورت کو اسلام میں بے پناہ قدر و منزلت حاصل ہے۔ اسلام سے پہلے دورِ جاہلیت میں عربوں کے ہاں عورت کی سخت ناقدری تھی، یہاں تک کہ خود صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ کا یہ قول ہے کہ ’’مکہ میں ہم لوگ عورتوں کو بالکل ہیچ سمجھتے تھے، مدینہ میں نسبتاً ان کی قدر تھی، لیکن جب اسلام آیا اور خدا نے ان کے متعلق آیات نازل کیں تو ہم کو ان کی قدرومنزلت معلوم ہوئی۔‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی معاشرے میں عورت کی حیثیت ناقابلِ بیان ہے اور وہ ایک کمزور اور مردوں کے ہاتھوں ستائی ہوئی ایک تباہ حال مخلوق ہے۔ اس کی حیثیت ڈیکوریشن پیس سے زیادہ نہیں۔ بازار میں بکنے والی کمتر سی جنس ہے۔ ’’ترقی ترقی‘‘ کے کھیل میں سب سے زیادہ نقصان عورت کا ہورہا ہے۔ ترقی اور آزادی سے زندگی گزارنے کے جھانسے میں آکر وہ مردوں کا ہاتھ بٹانے، اپنے کمزور سانچے اور نسوانی کمزوریوں کے باوجود دہری ذمے داریاں نبھا رہی ہے، اور اس کام میں وہ جن مسائل سے نبرد آزما ہے وہی جانتی ہے۔ مغرب زدہ طبقے نے پاکستانی عورت کو بھی یہ کہہ کر گھروں سے باہر لاکھڑا کیا ہے کہ پاکستان میں 57 فیصد آبادی عورتوں کی ہے، اگر یہ آبادی گھر میں بے کار بیٹھی رہی تو 43 فیصد مرد اس کو کیسے کما کر کھلائیں گے، اور اس طرح معاشرے کا توازن بگڑنے کا خطرہ ہے۔ یہی مغرب زدہ طبقہ روشن خیالی اور ترقی پسندی کا نام دے کر عورت کو دھوکا دیتا ہے۔ مگر اسلامی معاشرے میں عورت ایک اہم رکن اور خاندان کی عمارت کا پائیدار ستون ہے۔ اسلام اسے گھر کی ملکہ قرار دیتا ہے جس سے مستحکم گھر کی تعمیر ہوتی ہے۔ عورت اگر سچی، کھری، دیانت دار، پُرخلوص اور شوہر کے مال و اسباب اور اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہے تو اس کے لیے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت نے عورت کو معاشی طور پر مضبوط اور خودمختار بنادیا ہے۔ وہ وراثت میں ملنے والی دولت کی کلی مالک ہے۔ اپنے سرمائے کو جیسے چاہے خرچ کرے۔ وہ شوہر کی، باپ کی، بھائی کی، بہن کی وراثت میں شریک ہے۔ مغرب کے دیمک زدہ مفلوج معاشرے کو مسلمان عورت کی یہ حرمت، عزت و وقار کسی طرح نہیں بھاتا۔
اسلام نے عورت کو بہ حالتِ مجبوری باہر نکلنے اور نوکری کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس طرح کہ وہ دوسروں کی ہوس ناک نظروں سے مکمل طور پر محفوظ رہے۔ ساتر لباس اور پُروقار حلیے کے ساتھ وہ مردوں کے ساتھ بھی کام کرسکتی ہے، مگر لہجے کو کرخت اور سخت بناکر۔۔۔ کیوں کہ یہ قرآن کا حکم ہے۔ پردے اور حجاب کے ساتھ وہ ہر پیشے کو اختیار کرسکتی ہے۔ وکیل، ڈاکٹر، صنعت کار، سیاست دان۔۔۔ اسلام کی رو سے عورت وہ مضبوط حصار ہے جس کے دامن میں ولی، پیغمبر اور نبی پرورش پاتے رہے۔ وہ ایک باکردار باعزت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہے جس کی تربیت سے ولی بنتے ہیں۔ عورت کی عزت میں جب بھی کمی کرنے کی کوشش کی گئی معاشرے میں تباہی پھیل گئی۔ شرم و حیا مسلمان عورت کا اصل زیور ہے۔ اس کا اصل روپ سادگی، متانت، قناعت اور توکل ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم خواتین نے زندگی کے ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں خواہ وہ میدانِ جنگ ہو یا میدان سیاست، تبلیغ کا موقع ہو یا تعلیمی میدان، فقہ ہو یا حدیث، تفسیر ہو یا درسِ قرآن، دست کاری ہو یا کاشت کاری، صنعت کا میدان ہو یا تجارت۔۔۔ ہر میدان میں دیانت داری، ذمے داری، خلوص اور نیک نیتی سے اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غزوات میں مسلمان صحابیات انتہائی جوش و خروش اور عزم و استقلال سے شریک ہوتی تھیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں، مشک بھر بھر کے پانی لاتیں، اور بعض اوقات تو جنگ میں بھی شریک ہوتیں۔ غزوۂ احد میں جب کافروں نے مسلمانوں پر عام حملہ کردیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف چند جاں نثار رہ گئے تھے تو حضرت اُم عمارہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر تیر اور تلوار سے کفار کے حملے کو روکا۔ ابن قیم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا تو اُمِ عمارہؓ نے اس حملے کو روکا جس سے ان کے کندھے میں بہت گہرا زخم آیا۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ میں بھی انہوں نے پامردی سے حصہ لیا۔ اس جنگ میں ان کو بارہ زخم لگے اور ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا۔ غزوہ خندق میں حضرت صفیہؓ نے یہودی کو خیمے کی لکڑی سے قتل کیا۔ غزوہ حنین میں اُمِ سلیمؓ خنجر لیے دشمن کی گھات میں تیار رہیں۔ جنگِ یرموک میں حضرت اسماءؓ بنتِ یزید نے خیمے کی چوب سے نو رومیوں کو قتل کیا۔ اسی جنگ میں حضرت اسماءؓ بنتِ ابوبکر، حضرت اُمِ ابانؓ، اُمِ حکیمؓ، خولہؓ، ہندؓ،ام المومنین حضرت جویریہؓ نے دلیری سے حصہ لیا۔ جنگ میں لڑنے کے علاوہ صحابیات میدانِ جنگ میں پانی پلاتیں، مقتولوں اور زخمیوں کو میدانِ جنگ سے باہر لے جاتیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں، خورونوش کا انتظام کرتیں، فوج کی ہمت بڑھاتیں۔ غزوۂ احد میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ اور اُمِ سلیطؓ مشک میں پانی بھر بھر کر زخمیوں کے لیے لاتی تھیں۔ اُمِ سلیمؓ زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ہمیشہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک رہتیں۔ صحیح بخاری میں ربیعؓ بنت معوذ کا ذکر ہے جنہوں نے غزوۂ احد میں شہداء اور مجروح سپاہیوں کو قتل گاہ سے اٹھاکر مدینہ پہنچایا تھا۔ سنن ابی داؤد میں اُم زیادؓ الشبیہ کے ساتھ اُن پانچ مسلمان عورتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے غزوہ خیبر میں مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ وہ تیر اٹھا کر لاتی تھیں۔ صحیح مسلم کے مطابق حضرت اُم عطیہؓ نے سات غزوات میں صحابہؓ کے لیے کھانا تیار کیا تھا۔ جنگِ یرموک میں وقتی طور پر مسلمانوں کے کمزور پڑ جانے پر ہندؓ اور خولہؓ نے پُرجوش اشعار پڑھ کر ان کو غیرت دلائی اور جوش و خروش پیدا کیا۔ اشاعتِ اسلام میں حضرت فاطمہؓ بنتِ خطّاب، حضرت اُمِ سلیمؓ، اُم شریکؓ، دوسیہؓ کا نام لیا جاتا ہے۔ سیاسی طور پر بھی مسلمان خواتین صحابیات نے بہت سی خدمات انجام دیں۔ حضرت عمرؓ خلیفہ دوم کے زمانے میں حضرت شفاؓ بنتِ عبداللہ بہت صائب الرائے صحابیہ تھیں۔ اکثر حضرت عمرؓ بعض معاملات میں ان سے مشورہ لیتے۔ بعض اوقات بازار کا انتظام بھی ان کے سپرد کیا۔
قرأت، تفسیر، حدیث، فقہ، فرائض میں بعض صحابیاتؓ صحابہ کرامؓ سے بھی زیادہ بلند درجے پر تھیں۔ حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت اُمِ سلمہؓ، اُمِ ورقہؓ قرآن کی حافظہ تھیں۔ تفسیر اور حدیث میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ بہت اہم مقام رکھتی ہیں۔ علم فرائض میں بھی آپ اُمِ المومنین سے بڑے بڑے صحابہؓ مسائل دریافت کرتے تھے۔ امہات المومنینؓ میں حضرت صفیہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت اُمِ حبیبہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت میمونہؓ، اُم شریکؓ، اُم عطیہؓ، فاطمہ زہرہؓ، اسما بنتِ ابوبکرؓ، لیلیٰ بنتِ قائفؓ، خولہ بنت ثویتؓ، اُم الدرداءؓ، اُمِ ایمنؓ فتوے دیتی تھیں۔ اُم سلمہؓ علم اسراء، خطابت میں اسماء بنتِ سکن اور خواب کی تعبیر بتانے میں حضرت اسماءؓ بنتِ عمس بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ طب اور جراحی میں رفیدہ اسلیمؓ، اُمِ مطاعؓ، اُم کبثہؓ، حمنہؓ بنتِ حجشؓ، معاذہ لیلیؓ کو مہارت حاصل حاصل تھی۔ رفیدہ کا خیمہ مسجد نبویؐ کے پاس تھا اور اس خیمے میں جراحی کا انتظام تھا۔ شاعری میں خنساء صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ صنعت و حرفت میں صحابیاتؓ خود کپڑا بُنتی تھیں جو ان کو اور ان کی اولاد کو کافی ہوتا تھا۔ مدینہ میں کاشت کار میں حضرت اسماءؓ بنتِ ابوبکر کاشت کاری کیا کرتی تھیں۔ شفاؓ بنتِ عبداللہ لکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔ تجارت کے پیشے میں اُمِ المومنین حضرت خدیجہؓ کی تجارت شام تک پھیلی ہوئی تھی۔ آپ ایک کامیاب تاجر تھیں۔ اُم المومنین حضرت سودہؓ کھالیں درست کرکے ان کو دباغت دیتی تھیں۔ اُم المومنین حضرت زینبؓ بھی دست کار تھیں، اپنے ہاتھ سے روزی کما کر مساکین میں تقسیم کردیتی تھیں اس لیے ان کو ’’اُم المساکین‘‘ کہا جاتا ہے۔
اسلام کی تاریخ ایسی لاکھوں باکمال اور باصفات ہنرمند خواتین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ہر شعبۂ زندگی میں اپنا کام باعزت طریقے سے کیا اور نام کمایا۔

حصہ