دامن میں جس کے ایک بھی تار وفا نہیں بنتِ زہرہ

211

(دوسری قسط)
صوفیہ کبھی کبھی دست بردار ہونے کا سوچتی، لیکن اولاد کی خواہش کو جڑ سے اکھاڑنے کا حوصلہ اس میں ہوتا ہی نہ تھا۔ واقعی یہاں آکر ہر عورت ہار جاتی ہے۔ ’’کوئی سمجھوتا نہیں اس سلسلے میں‘‘۔ اس لیے کہ عورت ہی کا نہیں بلکہ مرد کا خواب بھی اپنا بچہ ہوتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ایک خدا کی چاہت ہے اور ایک ابنِ آدم کی چاہت۔۔۔ اور ہوتا وہی ہے جو خدا کی چاہت ہے۔
’’مبارک ہو مسز کمال، آپ کے گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہونے والا ہے، نئے مہمان کی آمد کنفرم ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے پوزیٹو کی رپورٹ اُس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ مگر وہ جیسے یکدم چونکی۔ کمال کا خوف تھا چہرے پہ، یا کہ کمال سے خوف، ایک ہی بات تھی ناں۔
’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ وہ۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘ بمشکل اس کے منہ سے یہ بے ربط الفاظ نکلے۔
’’گھبرائیں نہیں فرسٹ ٹائم ایسی ہی گھبراہٹ ہوتی ہے، مگر یہ سمجھ لیں کہ یہ زندگی کا ایک نارمل مرحلہ ہے۔ بھئی! کتنے لوگ برسوں تڑپتے ہیں اس آرزو میں۔‘‘ ڈاکٹر نے اس کی گھبراہٹ کو نوآموزی پر محمول کرتے ہوئے عام سے انداز میں تسلی دی۔
’’یہ میں فوڈ سپلیمنٹ دے رہی ہوں، خوراک تھوڑا اچھی لو اور کچھ پرہیز بھی لکھ دیے ہیں، ہر مہینے باقاعدگی سے چیک اَپ کرائیں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور دیانت کا مظاہرہ کیا۔
’’نیکسٹ۔۔۔‘‘ اس نے اگلی خاتون کو آواز دی جو اس مرحلے کے اختتام پر دکھائی دے رہی تھی۔ کیا روپ تھا مادریت کا۔
دنیا کی نظر میں اس کو جینے کا جواز مل گیا تھا۔ خدا کی نظر میں وہ قابلِ رحم اور کسی مقبول دعا کا آغاز تھی، اور اس کی اپنی نظر میں سب کچھ دہرا تھا۔۔۔ خوشی اپنائیت کی، محبت کی، کسی آنے والے سے جس کا سب کچھ اس کا اپنا تھا۔ اپنا پن، جس کو پانے کے لیے تن من دھن کی قربانی دی جاسکتی ہے پھر بھی سودا مہنگا نہیں ہوتا۔ ہاں تخلیق کے کرب اورآنے والے وقت کا خوف پہلی بار ہر لڑکی کو ہوتا ہے۔ مگر کمال کو اس بات کی اطلاع دینے کی دہشت اس سے بہت بڑھ کر تھی۔ خوش خبری جس کے منتظر سسرال والے تھے مگر اس کا جیون ساتھی، ہونے والے بچے کا باپ۔۔۔ اس کو ایک زنجیر سمجھتا تھا۔
ملکوں، شہروں اور علاقوں کی حدود ہوتی ہیں جو ایک سسٹم کہلاتی ہیں۔ اسی طرح گھروں اور انسانوں کی بھی حدود ہوتی ہیں، مگر کوئی بھی ان کو زنجیر کہہ کر توڑنے یا کاٹنے کی بات نہیں کرتا کہ یہ ایک بندھن ہے، اور یہیں سے رنگِ وفا کھلتا ہے۔ مگر نفرت آمیز دنیا کی رنگینیوں میں کھو جانے سے وفا کا ہر رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ انہی حدود کو حقوق و فرائض کہا گیا ہے۔
وہ ڈر رہی تھی کہ کمال کو کیسے یہ سب بتائے۔ نہ بتائے تو آخر کیا کیا نہ بتائے! چھپانے والی بات تو نہیں تھی۔ کم از کم کمال سے تو بالکل نہیں۔ مگر جان کی امان مانگتے، دلائل سے قائل کرتے یہ اطلاع دے ہی دی۔ کمال کے چہرے پر عجب رنگ تھا رعونت اور جھلّاہٹ کا ’’ہوں، تمہاری چھپی ہوئی چاہت پوری ہوگئی آخر۔‘‘ وہ تنتنایا۔
’’نہیں۔۔۔ خدا کی چاہت، اس کا حکم۔ ابھی تو ابتدا ہے، آیئے خدا کے شکر کے ساتھ اس کو ویلکم کرتے ہیں۔ اللہ بہتر کرے گا۔ دیکھیں، جھیلنا تو مجھ کو ہی ہے ناں، بس ایک اس کو ہوجانے دیں پھر پانچ سال تک کی پلاننگ کرلیں گے۔‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گررہے تھے جن میں خواب تھے اور عرض ہی عرض۔
’’چلو کیا یاد کرو گی مان لیا، مگر ایک شرط ہے، بچے وچے کا خرچا، ڈاکٹروں کے چکر، سارا کچھ تمہارے گھر والے کریں گے۔‘‘ پہلی بار باپ بننے والے شخص نے کمینگی سے کہا۔
’’میرے گھر والے تو اب آپ ہی ہیں، ہاں وہ لوگ بھی تعاون کریں گے، مگر بچہ تو ہم دونوں کا ہے ناں، اس سے آپ کا نام چلے گا ناں۔۔۔‘‘ پہلی بار ماں بننے والی نے فطری خوف سے زیادہ خوف سے التجا کی۔ اس کے کمزور وجود نے، ایک زندہ خواب نے توانائی کی رو دوڑا دی تھی۔
ساس اور دیگر لوگوں نے بھی خوشی کا تھوڑا اظہار تو کیا مگر تاکید کردی کہ ہمارے یہاں پہلا بچہ میکے میں ہوتا ہے، اور میکے سے سسرال میں بہت ساری سوغاتیں خاندان بھر کے لیے الگ بھجوائی جاتی ہیں۔ مگر کسی نے اس کی صحت، دیکھ بھال اور آنے والے بچے کی نشوونما کے بارے میں کچھ کہنا ضروری نہ سمجھا۔
۔۔۔*۔۔۔
’’بڑا الٹا رواج ہے کہ بچہ اپنے ننھیال میں ہو۔۔۔ ہمارے یہاں تو یہ مرد کی بے غیرتی سمجھی جاتی ہے۔ اولاد تو باپ کی ذمے داری ہے۔ نسل باپ دادا ہی سے چلتی ہے۔ ہاں اخلاقی طور پر اِدھر سے تعاون ہوجائے گا بس، ہماری ذمے داری نہیں۔‘‘ صوفیہ کے والد اس کی والدہ کی بات کا جواب دے رہے تھے۔
’’دیکھیں مانتی ہوں آپ کی بات ٹھیک ہے، مگر بیٹی کا معاملہ ہے، ابھی شروع ہے۔ ان کی مان لیں، بچی کا کھونٹا مضبوط ہوجائے گا، پھر آگے اتنا مسئلہ نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔‘‘ اس کی امی جانتی تھیں کمال اور اس کے گھر والے بہت سخت لوگ ہیں، کچھ بھی کرسکتے ہیں، اور وہ ہر صورت میں صوفیہ کو سُکھی دیکھنا چاہتی تھیں۔
’’ابھی یہ ذمے داری سر لے لیں پھر کمال کو اور چھوٹ مل جائے گی، وہ تو ویسے ہی بہت غیر ذمے دار ہے، آگے آثار اچھے نہیں لگ رہے۔۔۔ وہ اور لاتعلق ہوجائے گا۔‘‘ صوفیہ کے والد بے لچک انداز سے صحیح بات کہہ رہے تھے۔
یوں وہ جان جو ابھی اس دنیا میں آئی نہیں، بے طرح ٹھکرائی گئی۔ ایک تنازع تھا جس کی بنیاد پر یہ ’’گڈ نیوز‘‘ تھی۔۔۔ واہ رے آزاد پنچھی (مگر پنچھی بھی اپنی نسل کا محافظ ہوتا ہے)۔
اُدھر کمال کی ماں روایتی سے بڑھ کر روایتی ساس تھیں۔۔۔ جہیز میں گلاب پاش سے لے کر فریج کی کمی کا طعنہ بڑے دکھ بھرے انداز میں دیتیں۔ اب خوش خبری پر تو کچھ نرمی کرنا تھی، مگر یہاں بھی اپنے زمانے سے موازنے چلتے رہتے ’’ہم نے تو چلتے پھرتے یہ دن گزارے، آخر تک ایسا ہی گزرا۔‘‘
’’ارے ایسی بھی کیا نخرے بازیاں، انوکھا بچہ لا رہی ہے؟‘‘
’’ایسے ناز و نعم اٹھوانے ہیں تو جاؤ ماں کے گھر۔‘‘ کمال بے زاری اور لاتعلقی کے انداز رکھتا، جیسے نعمت نہیں مصیبت ملنے والی ہے۔ بہار کا ایک جھونکا آنے پر کیا خزاں رسیدہ رویّے روا رکھے جارہے تھے۔
’’صوفیہ فرش پر بارش کا کتنا پانی جمع ہے، اس کو وائپ کرو، ایسا بھی کیا پرہیز، دو کاموں کے لیے تو ماسی رکھ دی ہے۔‘‘ ساس نے درشتی سے کہا۔ کمال ماں کے آگے چپ تھا۔
’’جی اچھا۔۔۔‘‘ وہ چاروناچار اٹھی، مگر زیادہ کچھ نہ کرسکی۔ ’’کمال پلیز میری طبیعت ایسی نہیں ہے، کچھ نہیں ہورہا مجھ سے۔‘‘ نڈھال سی حالت میں ابکائی محسوس ہورہی تھی۔ وہ معذرت خواہ تھی نہ جانے کس ’’جرم‘‘ پر۔
’’ایسا بھی کیا مسئلہ، ساری دنیا کی عورتیں ایسی حالت میں گھر اور باہر دونوں جگہ کام کرتی ہیں۔۔۔ جاؤ ہٹو تم۔۔۔‘‘ کمال نے اس کے ہاتھ سے وائپر لے کر چلانا شروع کیا جیسے وہ کوئی بڑا احسان کررہا ہو۔
وہ ذہنی اذیت سے مزید ہلکان ہوکر رونے لگی۔ چکرا کر پھسل گئی، پھر عطا کی خوش خبری کو خطا بنا دیا گیا۔ درد کی ایک لہر اٹھی، اس کی چیخ نکل گئی۔ حالت مزید خراب ہوئی، بستر پر پڑگئی۔ دیہات کے لوگوں کو بھی سمجھایا جاتا ہے کہ ایسی حالت میں فوری ہسپتال لے جانا چاہیے ورنہ خطرہ ہے، مگریہ بھی تو ایک دردِ سر تھا کہ کون ہسپتال لے جائے؟ میکے والے، جن کو کچھ پتا نہ تھا، یا سسرال والے جو احساس سے عاری تھے۔
(جاری ہے)

حصہ