(ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت اور بدلتا عالمی منظر (پروفیسر خورشید احمد

239

باراک اوباما کا دور
ایک اور پہلو جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا انتخاب کسی خلا میں منعقد نہیں ہوا ہے۔ 2016ء کے انتخابی نتائج کو اس پس منظر سے کاٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا کہ ان سے پہلے باراک اوباما آٹھ سال امریکا کے صدر رہے۔ وہ بھی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ہی صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان سے قبل جارج بش کے آٹھ سال امریکا اور دنیا کے لیے ترقی معکوس کے سال تھے۔ صدر اوباما، کانگرس کے ان چند نمایاں ارکان میں سے تھے، جنھوں نے 2003ء سے عراق کی جنگ کی کھل کر مخالفت کی تھی اور اسے تباہی کا راستہ قرار دیا تھا۔ صدراوباما امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر تھے اور جن لوگوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ وہ دوسری باری نہیں لے سکیں گے، ان ’مستقبل بینوں‘ نے منہ کی کھائی۔ اس طرح 2016ء میں بھی اوباما بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے لیکن چند محاذوں پر انھیں بْری طرح ناکامی ہوئی۔

امریکا کے قومی ایجنڈے کے مطابق ان کے سامنے سب سے اہم محاذ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ تھا۔ اوباما جنگ ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ صدر بنے تھے، لیکن: نہ صرف یہ کہ وہ عراق میں جنگ ختم نہ کرا سکے بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ کی آگ انھی کے دور میں پھیلی۔ لیبیا اور شام جنگ کی لپیٹ میں آگئے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کارستانیوں کی وجہ سے تباہی کا یہ بازار گرم ہوا۔ یمن بھی اپنے انداز میں آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ یوکرائن میں بھی جنگ کے شعلے بلند ہوئے، خواہ اس کی بڑی ذمہ داری روس کی سیاسی انگڑائیوں پر تھی۔ افغانستان، امریکی کامیابیوں کے سارے دعوؤں کے باوجود، برابر جنگ کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور صدراوباما کو افواج کم کرنے کے بعد دوبارہ ان کی تعداد کو بڑھانا پڑا، اور اس کے باوجود افغانستان کے ایک چوتھائی حصے پر طالبان کی حکمرانی ہے اور عملاً ان کے اثرات مزید ۰۳ فی صد علاقے پر ہیں، حتیٰ کہ کابل بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ صدراوباما کے زمانے میں ڈرون حملے امریکی صدربش کے دور سے ۰۱گنا زیادہ ہوئے۔ صدراوباما کے اقتدار کے آخری سال (۶۱۰۲ء4 ) میں امریکا نے دنیا کے سات ممالک میں ۶۲ہزار ۱۷۱ بم گرائے، اور یہ تعداد صدر بش کے دور سے کہیں زیادہ تھے۔
یہی معاملہ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کا ہے۔ صدراوباما اسے ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ آئے تھے۔ وہ اپنی صدارت کے پہلے سال ہی میں یہ کارنامہ انجام دینا چاہتے تھے۔ لیکن آخری وقت تک ان کا کوئی بس نہ چلا اور آج بھی گوانتاناموبے کا تعذیب گھر امریکا کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ بنا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی پاس داری کے باب میں بھی صدر اوباما کا ریکارڈ مایوس کن رہا۔ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاں بدترین تعذیب اور مبغوض ترین حربوں کا استعمال جاری رہا۔ عام انسانوں کی نجی زندگی کی نگرانی بلکہ ایک طرح کی غلامی کا ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر نظام قائم کیا گیا۔ صدراوباما کو دنیا میں امن کے قیام کی خدمت کے سلسلے میں پیشگی نوبل انعام سے نوازا گیا، لیکن ان کے آٹھ سالہ دور میں نہ جنگ ختم ہوسکی اور نہ دہشت گردی، بلکہ اس کی تباہ کاریوں اور وسعتوں میں اضافہ ہی ہوا۔
دوسرا محاذ جس پر صدراوباما کو شدید ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، وہ نسل و رنگ کی بنیاد پر امریکا میں قتل و غارت اور ظلم و استحصال پر مکمل قابو پانے کا دعویٰ تھا۔ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ خود ان کے دورِ اقتدار میں صرف پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام نوجوانوں کے ظالمانہ قتل کے واقعات میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا اور ہرواقعے پر وہ آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔
صدراوباما کو بہت مشکل معاشی حالات کا مقابلہ کرناپڑا اور پوری کوشش کے باوجود، کچھ میدانوں میں جزوی کامیابی کے باوصف، وہ امریکا کے معاشی بحران پر قابو نہ پاسکے۔ مسلم دنیا سے بھی امریکا کے تعلقات کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور ۹۰۰۲ء4 میں قاہرہ کی تقریر اس ضمن میں ایک اہم آغاز تھا، مگر یہ آرزو بھی پوری نہ ہوسکی۔ بالآخر امریکا اور اسلامی دنیا میں بے اعتمادی اور بے زاری میں اضافہ ہی ہوا۔ ایران سے ایٹمی معاہدہ اور کیوبا سے تعلقات کی بحالی اہم مثبت کامیابیاں ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ذاتی شرافت اور باوقار اسلوب کے باوجود، امریکا اور عالمی سطح پر ان آٹھ برسوں کو ترقی اور کشادگی کے سال نہیں کہا جاسکتا۔
ٹرمپ کی آمد ، اوباما کا ردعمل
ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاہ فام صدراوباما کی یہ ناکامیاں ایک سفیدفام، دائیں بازو کے انتہاپسند صدر کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں اہم محرک ثابت ہوئیں۔ صدر ٹرمپ اور صدراوباما رنگ و نسل کے اعتبار سے ہی نہیں، نظریات، سیاسی ترجیحات، اخلاق و کردار، غرض ہراعتبار سے دوبالکل مختلف ماڈل پیش کرتے ہیں۔ ایسے نمونے جن میں بعدالمشرقین کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ۶۱۰۲ء4 کے صدارتی انتخابات میں سیاست کی اس جست (swing) کا منظر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ۸۰۰۲ء4 میں صدراوباما کو منتخب کرکے امریکی جمہوریت نے اپنے جس جوہر کا مظاہرہ کیا تھا، وہ اپنی جڑیں اس زمین میں پیوست نہ کرسکا، بلکہ ایک واضح ردعمل رْونما ہوا، جسے سیاست کا انتقام بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ قوتیں جنھوں نے ۸۰۰۲ء4 اور ۳۱۰۲ء4 کے انتخابی رجحان کو مجبوراً قبول کرلیا تھا، انھوں نے ایک نئے اور زیادہ جارحانہ انداز میں اپنی بالادستی کو قائم کیا اور جو کچھ برتن کے اندر تھا وہ کھل کر باہر آگیا۔ اس سے یہ پہلو بھی سب کے سامنے آگیا کہ ہرمعاشرے کی طرح امریکی معاشرے میں بھی خیر اور شر دونوں کے عناصر بڑی تعداد میں موجود ہیں اور عمل اور ردعمل کا سلسلہ ہرجگہ دوسرے ملک اور معاشرے کی طرح وہاں بھی جاری وساری ہے۔
جہاں صدرٹرمپ اور اس کی پوری ٹیم کے چند واضح اہداف ہیں اور وہ ہے: ’سب سے پہلے امریکا‘ (America First ) اور ’امریکا کو عظیم بنانا‘ (Making America Great)۔ ان نعروں کو اپنی اوّلین ترجیح بناکر سیاسی، معاشی، عسکری، ثقافتی ہر میدان میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لانا صدر ٹرمپ کا ہدف ہے۔ یوں جارحانہ قوم پرستانہ دور کا آغاز ٹرمپ کی خواہش ہے جس میں امریکا کی سفیدفام آبادی کا کردار مرکزی ہوگا اور قومی اور عالمی دونوں سطح پر پالیسی سازی اور پالیسی کے نفاذ دونوں پہلوؤں سے نسبتاً سخت گیر اور صرف صدر کی شخصیت کے گرد (president centered) اسلوبِ کار اختیار کیا جائے گا۔ نظریاتی اور اخلاقی پہلوؤں کو غلبہ اور فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں ہوگی اور پوری پالیسی محدود اہداف کے حصول پر مرکوز ہوگی۔ مشاورت اور فیصلہ سازی کے معروف طریقوں سے بھی انحراف کیا جائے گا اور امریکا کے سیاسی نظام میں جو توازن اور تحدید کی روایت ہے، اس پر بھی بْرے اثرات پڑیں گے، جو اداروں کے درمیان تناؤ اور تصادم کی حدوں کو بھی چھوسکتے ہیں۔ اسی طرح خارجہ تعلقات میں جو مقام اسٹرے ٹیجک غوروفکر اور حکمت کار کو حاصل رہا ہے اس میں تبدیلیاں آئیں گی اور زیادہ اہمیت نعروں پر مبنی، فوری نتائج کے حصول کو حاصل ہوجائے گی۔ عالم گیریت اور دوسری جنگ کے بعد قائم ہونے والے عالمی نظام اور اس کی صورت گری کرنے والے اداروں پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔امریکا کی اپنی فوجی اور معاشی قوت کی ترقی کو زیادہ اہمیت دی جائے گی اور امریکا کی عالمی کردار کی ازسرِنو صورت گری ہوگی۔
۷۱۰۲ء4 اس پہلو سے بڑا اہم سال ہوگا جس میں جنم لینے والی تبدیلی کے بڑے دْور رس اثرات امریکا میں جمہوریت کے مستقبل پر بھی پڑیں گے۔ یہ دور تخریب اور تعمیر دونوں پہلوؤں سے عبارت ہوگا۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکا کے عوام اور تمام ہی سوچنے سمجھنے والے افراد، ادارے اور گروہ محض ’دیکھو اور مست رہو‘ ( wait & see) کا راستہ اختیار نہ کریں اور نہ اندھی تائید اورخون آشام مخالفت کا راستہ اختیار کریں۔ ہماری نگاہ میں کھلے ذہن کے ساتھ اس منظرنامے کا ادراک کرنا اور اس میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے مکالمے (ڈائیلاگ) کا راستہ اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس غلط فہمی سے نکلنا ضروری ہے کہ اب امریکا سے معاملات اس طرح ہوسکیں گے جس طرح ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ ’جس طرح ہوتا آیا ہے‘ والا دور بظاہر رخصت ہوگیا ہے۔ اب وقت نئی سوچ اور نئی راہیں تجویز کرنے کا ہے___ اور یہ چیلنج جس طرح امریکا میں آباد افراد اور تنظیموں کے سامنے ہے، اسی طرح عالمی سطح پر تمام ممالک اور اقوام کو بھی درپیش ہے۔ خصوصیت سے پاکستان اور مسلم دنیا کے حالات کا گہری نظر سے مطالعہ و تجزیہ کرکے نئے خطوط کار کی ترتیب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہم اللہ کی توفیق کے طالب ہیں کہ اللہ ہمیں اس بارے میں اپنے خیالات پیش کرنے کی توفیق سے نوازے۔ ہم سب اہلِ فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ وقت کے اس چیلنج کے مقابلے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مستعد ہوجائیں، اس لیے کہ:
یہ بزمِ مے ہے ، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اْٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

حصہ