(اکنامک کو آپریشن آرگنائزیشن سربراہی کانفرنس(ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

250

ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور
گزشتہ سال مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوج کے خلاف کشمیری مجاہدین کے حملوں اور برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد اٹھنے والی بھارت مخالف اور پاکستان نواز زبردست عوامی تحریک سے حواس باختہ ہوکر بھارت کے متعصب وزیراعظم نریندر سنگھ مودی نے پاکستان کے خلاف یہ بڑھک ماری تھی کہ وہ اس کو سفارتی طور پر تنہا کردے گا، اور پھر اس نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس ملتوی کراکے اپنے دعوے کا عملی مظاہرہ بھی کرادیا تھا۔ لیکن ظاہر ہے بین الاقوامی سیاست میں اس قسم کی بڑھکیں مارنے کا جو انجام ہوتا ہے وہ ہونا تھا، اور پاکستان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود علاقائی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہوا نظر آرہا ہے، جس کا ثبوت گزشتہ دنوں یکم اور 2 مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی 13 ویں ECO سربراہی کانفرنس ہے، جس میں علاقے کے اہم ترین ممالک کے سربراہانِ مملکت شریک ہوئے۔ اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ECO) علاقائی اقتصادی تعاون کی ایک تنظیم ہے جس میں 10 ممالک شامل ہیں، اور یہ کانفرنس اس تنظیم کی 13 ویں سربراہ کانفرنس ہے جو اِس بار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ پاکستان کے علاوہ اس کے ارکان میں افغانستان، ایران، آذربائیجان، ازبکستان، تاجکستان، ترکی، کرغیزستان، ترکمانستان اور قازقستان شامل ہیں۔ اس میں اکثریتی ممالک کا تعلق وسط ایشیائی ممالک سے ہے جو ایک زمانے میں سوویت یونین کا حصہ تھے اور جہادِ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد 1990ء کی دہائی میں عظیم روسی کمیونسٹ بلاک کی شکست و ریخت کے بعد ان کو آزادی نصیب ہوئی اور انہوں نے نسبتاً آزادانہ انداز میں کمیونسٹ بلاک سے باہر کے ممالک سے سیاسی اور اقتصادی تعلقات استوار کرنا شروع کیے۔ البتہ برسراقتدار طبقہ کم و بیش وہی رہا جو سوویت یونین کے زمانے میں تھا، اس لیے مکمل طور پر ان ممالک کے عوام اب تک آزادی کی نعمتوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔
ECO دراصل 1960ء کی دہائی میں بننے والی RCDکی توسیع شدہ شکل ہے جو 1992ء میں بنی۔ یہ اقتصادی بلاک جغرافیائی لحاظ سے دنیا کا ایک اہم خطہ تصور کیا جاتا ہے جو بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے اور مستقبل میں یہاں تجارتی اور اقتصادی مواقع بے شمار ہیں، جس کی وجہ سے یہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان تمام ممالک میں کئی اقدار مشترک ہیں جن میں ایک قدرِ مشترک دینِ اسلام بھی ہے۔ 45کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل یہ خطہ تاریخی طور پر ایک زبردست پس منظر رکھتا ہے۔ سمرقند و بخارا کا علاقہ جو امام بخاریؒ کا مسکن تھا، اسلامی علم و ثقافت کا ایک گہوارہ تھا، جس کی حسین یادیں اب بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کو تڑپاتی ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق سنی مسلک سے ہے، البتہ ایران اور آذربائیجان میں اثنا عشری یعنی شیعہ اکثریت میں ہیں۔ اگر ان ممالک کے صرف دارالحکومتوں کی فہرست پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ان کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ اسلام آباد، کابل، تہران، انقرہ، دوشنبے، تاشقند، بشک، باکو، استاند اور اشک آباد۔۔۔ یہ سب دنیا کے سیاسی و اقتصادی مراکز ہیں اور ان میں سے کسی کی اہمیت بھی دوسرے سے کم نہیں ہے۔ پاکستان، افغانستان، ایران اور ترکی کے بارے میں تو قارئین پہلے سے کچھ حد تک واقف ہیں اور ان ممالک کی دنیا میں اہمیت و مقام کو بھی جانتے ہیں، لیکن وسط ایشیائی ممالک کے بارے میں بالعموم ہمارے قارئین کم معلومات رکھتے ہیں۔ ہم سے قریب ہونے کے باوجود سوویت یونین کی آہنی دیوار میں بند یہ ممالک (پہلے روسی ترکستان) مجموعی طور پر امتِ مسلمہ کا جزو ہونے کے باوجود وہ کردار ادا نہیں کرسکے ہیں جو ان کا حق تھا۔ آذربائیجان جو تیل کی دولت سے مالامال ملک ہے، سیاسی لحاظ سے اب پاکستان کے زیادہ قریبی دوستوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے پاس معدنی وسائل میں تیل و گیس کے علاوہ سونا، لوہا، المونیم اور دیگر معدنی اور دھاتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ آذربائیجان میں شرح خواندگی 99 فیصد ہے، جب کہ اس کی کرنسی منات 11 امریکی ڈالر کے مقابلے میں 1.6ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت کا حجم 50 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس کے صدر الہام علیوف سربراہی اجلاس میں شریک ہوئے۔
قازقستان 17ملین آبادی کا بڑا ملک ہے، جہاں شرح خواندگی 100 فیصد ہے۔ اس کے بھی تیل کے ذخائر کا اندازہ 26 بلین بیرل ہے۔ یہاں 70فیصد حنفی مسلمان ہیں۔ پاکستان سے اس کی تجارت 2015ء میں 33 ملین ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بایوف بھی کانفرنس میں شریک تھے۔
ازبکستان بھی ایک بڑا ملک ہے، جس کا رقبہ تقریباً 45 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی 31ملین ہے۔ شرح خواندگی 99 فیصد ہے۔ یہ ملک ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت کا حجم 26 ملین ڈالر ہے۔ اس کا دارالحکومت تاشقند دیگر تاریخی حوالوں کے ساتھ پاکستانیوں کے لیے اس لیے اہمیت رکھتا ہے کہ1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدہ روسی صدر کی کوششوں سے تاشقند میں طے پایا تھا، جس پر پاکستانی صدر جنرل ایوب خان اور بھارت کے صدر لال بہادر شاستری نے دستخط کیے تھے، اور اس کے فوراً بعد وہ اِس دنیا سے کوچ کرگئے تھے۔ اُس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس معاہدے کے کچھ عرصے بعد صدر ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دیا اور پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اپنی سیاست کا آغاز معاہدۂ تاشقند کے تذکرے سے کیا۔ وہ اس کی مخالفت میں پاکستانی قوم سے وعدہ کرتے رہے کہ وہ بہت جلد معاہدۂ تاشقند کے راز بتائیں گے۔ اپنے ہر جلسے میں وہ اس کا تذکرہ کرتے تھے۔ میں نے خود پشاور میں اُن کے پہلے جلسے میں اُن کی یہ بات سنی۔ لیکن وہ راز اُن کے سینے میں ہی رہ گیا۔ وہ اپنی کامیاب عوامی سیاست کے ذریعے مغربی پاکستان کا انتخاب جیت گئے اور سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے، لیکن تاشقند معاہدے کا راز طشت از بام نہ ہوسکا۔ بہرکیف اس کانفرنس میں ازبکستان کے صدر شوکت مرزیوف شریک نہ ہوسکے اور ان کی نمائندگی نائب وزیراعظم نے کی۔
وسط ایشیا کا ایک اور اہم ملک تاجکستان ہے، اس کی آبادی 8.5 ملین ہے۔ یہ آبادی بھی حنفی مسلمان اور 100فیصد خواندہ ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت کا کُل حجم 55 ملین ڈالر ہے۔ اس کے صدر ایمومالی رحمان بھی کانفرنس میں شریک اور اس کی کامیابی کے لیے خاصے پُرجوش ہیں۔
اس علاقے کا ایک اور اہم ملک ترکمانستان ہے، جس کی آبادی 6.2 ملین ہے، جب کہ رقبہ تقریباً 49 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس ملک میں گیس کے ذخائر موجود ہیں اور یہیں سے گیس کی پائپ لائن کا آغاز ہوگا جو افغانستان اور پاکستان سے گزرتے ہوئے بھارت جائے گی۔ TAPI نامی منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔ اس وقت پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت کا کُل حجم 25 ملین ڈالر ہے۔ اس کے سربراہ قربان علی بعدی محمدوف بھی سربراہی اجلاس میں شریک ہوئے۔
کرغیزستان بھی وسط ایشیائی ممالک میں شامل ہے جس کے سربراہ وزیراعظم سورن بے جین بیکوف ہیں جو اجلاس میں شریک تھے۔ 6.19 ملین آبادی کا یہ ملک بھی 99 فیصد شرح خواندگی کا حامل ہے جہاں مسلم آبادی 75فیصد ہے۔ 6 فیصد روسی نسل آبادی بھی اس میں شامل ہے۔ عیسائی مذہب کے ماننے والے 20 فیصد ہیں۔ پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت خاصی محدود ہے۔ لگ بھگ 1.5ملین ڈالر۔ اس کی ایک اہم صنعت جہاز سازی بھی ہے۔
ایکو کانفرنس میں افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی یا چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ شریک نہ ہوئے، البتہ افغانستان کے صدر نے تہنیتی پیغام بھیجا جس میں کانفرنس کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا اور اقتصادی تعاون کے حوالے سے بین الملکی روابط بڑھانے اور اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ افغانستان کی لیڈرشپ کی غیر موجودگی کا سبب بظاہر وہ صورت حال بتائی جارہی ہے جو اِس وقت پاک افغان بارڈر پر موجود ہے۔ لاہور اور سیہون شریف میں گزشتہ ماہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد یہ بارڈر سیل کردیا گیا ہے اور اب تک بند ہے، جس کی وجہ سے دونوں طرف سے باہمی تجارت کا سلسلہ منقطع ہے اور سامان سے لدی ہزاروں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، جس کا خمیازہ تاجر حضرات کے علاوہ عوام بھی بھگت رہے ہیں۔ اس لیے افغانستان کے پاکستان میں سفیر عمر زخیلوال نے جو ایکو کانفرنس میں افغانستان کی رسمی طور پر نمائندگی کررہے تھے، پاکستانی وزیراعظم سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر سرحدوں کو کھولنے کا حکم دیں۔ افغانستان کے سفیر کا یہ مطالبہ بے جواز نہیں ہے، کیونکہ پاک افغان کراسنگ بندش یا کشیدگی دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ افغانستان ایکو کے رکن ملکوں میں سب سے غریب اور جنگ زدہ ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت کا حجم کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ سرکاری طور پر پاکستان سے افغانستان جانے والی درآمدات کا تخمینہ 2 بلین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے، جب کہ غیر سرکاری طور پر یہ اندازہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے، جب کہ افغانستان سے پاکستان آنے والی برآمدات 392 ملین ڈالر ہے۔ اس طرح تجارت کا رخ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس کے علاوہ بھی پاک افغان تعلقات ایک زمینی حقیقت ہیں جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا چاہے حکومتی پالیسی کچھ بھی ہو۔ ڈاکٹر اشرف غنی کو ایکوکانفرنس میں خود آنا چاہیے تھا۔ کشیدگی کے ماحول میں بھی ملاقاتیں اور بین الاقوامی فورمز میں شرکت خود اُن کی بھی ضرورت ہے۔ اگر انہوں نے بھارتی ایما پر ایسا کیا ہے تو یہ اور قابلِ اعتراض فعل ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ بھارتی خواہش پر سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کرچکے ہیں۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ان کو مکمل طور پر ناپسندیدہ قائدین کے فہرست میں شامل کرلے؟ اگر ایسا ہے تو یہ کسی بھی طور پر افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
بین الاقوامی یا علاقائی فورمز کو باہمی مناقشات کے حل کے لیے استعمال کرنے کی ایک اچھی مثال اس ایکو کانفرنس کے موقع پر ایران اور ترکی کی قیادت نے قائم کی۔ اس کے باوجود کہ یہ دونوں ممالک اس وقت مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ممالک میں حریف کی حیثیت سے موجود ہیں اور دونوں کے حلیف ایک دوسرے کے خلاف شدید کشت و خون کی کیفیت سے دوچار ہیں، اس کے باوجود ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے ایک دوسرے سے ملاقات کی اور باہمی تنازعات پر تبادلہ خیال کیا، بلکہ آئندہ بھی اس قسم کے رابطوں کی ضرورت پر زور دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایکو کانفرنس کا یہ پہلو نہایت خوش آئند ہے جس کی تعریف کرنی چاہیے۔ شام، عراق اور یمن کے محاذوں پر نبردآزما قوتوں کے سربراہوں کا آپس میں مل بیٹھنا اور مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کرنا امتِ مسلمہ کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہیں۔ انہی دنوں سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے بھی پہلی مرتبہ بغداد کا دورہ کیا جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اگر اسی طرح دمشق، ریاض، انقرہ اور تہران ایک صفحہ پر آجائیں تو ایک خوفناک صورتِ حال سے نکلا جا سکتا ہے، جس کا ایندھن لاکھوں مسلمان بن چکے ہیں اور کروڑوں کی مسلم آبادیاں دربدر ہوچکی ہیں۔
ایکو کانفرنس میں پانچ صدور اور تین وزرائے اعظم کی شرکت اور تقاریر تو ایک رسمی کارروائی تھی جو اس طرح کی کانفرنسوں کا معمول ہے، لیکن اعلامیہ پر اگر اخلاص سے عمل درآمد کیا گیا تو یقیناًمستقبل میں اس پورے خطے کے عوام اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے حسبِ توقع چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا بڑے فخر سے ذکر کیا اور اس کو تمام علاقائی ممالک کے لیے سودمند قرار دیا۔ اس کانفرنس کا تھیم بھی آپس میں آمدورفت کے ذرائع بڑھانا(Connectivity)رکھا گیا تھا اور اس میں سی پیک کا یقیناًبڑا کردار بن سکتا ہے۔ چینی وزیر خارجہ بھی کانفرنس میں شریک ہوئے، انہوں نے شرکاء سے خطاب بھی کیا اور علاقے کی ترقی میں چین کی دلچسپی اور مثبت کردار کا بھی ذکر کیا۔ چین کی “One Belt One Road”کی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نے دنیا میں ایک تلاطم ضرور برپا کیا ہے جس کا فائدہ روس کو بھی ہے۔ اور جو ایشیائی ممالک کو یورپ سے جوڑنے اور طویل بحری راستے کے بجائے مختصر زمینی راستوں کے ذریعے رسائی کا نسخہ ہے۔ یہ یقیناًچینی قیادت کے عالمی وژن کا مظہر ہے جس کا کریڈٹ چین کو جاتا ہے۔ اس منصوبے پر امریکی تحفظات اور بھارتی اضطراب بھی بلاوجہ نہیں۔ لیکن پاکستان اس منصوبے کا اہم کردار ہے اور اس کی کامیابی کے لیے کوشاں۔
ایکو کانفرنس کے اعلامیہ میں ایک اہم شق اس عزم کا اظہار ہے کہ دس رکن ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔ اور اس کے لیے ایک واضح ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے کہ اس کو دوگنا کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ تمام ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ہوگا اور اس سے پاکستانی مصنوعات اور صنعتوں کو فروغ ملے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں چینی مصنوعات کے ساتھ روسی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کرنے کا موقع ملے گا جو کہ سستی ہے اور چین کے مقابلے میں نسبتاً ترقی یافتہ بھی ہے۔ تمام وسط ایشیائی ممالک روسی ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں۔ اس طرح ان کے مالی اور معدنیاتی وسائل سے بھی استفادے کا موقع ملے گا۔ گوادر بندرگاہ ان تمام ممالک کے لیے گرم پانیوں تک رسائی کا بہترین ذریعہ ہے جس کا زارِ روس کے زمانے سے کریملن کے مقیم خواب دیکھتے رہے ہیں۔ اب پاکستان ان کو برضا ورغبت یہ موقع دے کر باہمی تعاون کے ذریعے ترقی کی عمدہ مثال قائم کرسکتا ہے۔
گزشتہ روز جیو ٹی وی پر ایک پروگرام میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا ایکو تنظیم سارک کا نعم البدل بن سکتی ہے؟ کئی تجزیہ نگاروں نے اس کا ہاں میں جواب دیا۔ یہ سوال بھارتی رویّے کی وجہ سے گزشتہ سال سارک کانفرنس کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں منعقد نہ ہونے کی بنیاد پر تھا۔ آئندہ بھی پاک بھارت تنازعے کی وجہ سے سارک کانفرنس کا مستقبل تابناک نظر نہیں آتا۔ یقیناًیہ ایک مسئلہ ہے۔ بھارتی زور زبردستی اور ہٹ دھرمی سے پاک بھارت مشترکہ فورمز تنازعات کا شکار رہیں گے، لیکن بہرحال جغرافیائی حقائق یہ ہیں کہ ایکو تنظیم جن ممالک پر مشتمل ہے وہ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں پر واقع ہیں، جب کہ سارک ممالک پاکستان کے جنوب مشرق کی جانب ہیں، اور ان میں سے کئی ممالک مثلاً تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ پاکستان سے دور ہیں اور فضائی رابطوں کی وجہ سے ہی وہاں سے روابط رکھے جاسکتے ہیں۔ پاکستان اپنی جغرافیائی اور تزویراتی پوزیشن کی وجہ سے ان دونوں علاقوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ایکو کے ساتھ اس کو سارک تنظیم کی بحالی پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اقتصادی تعاون کا دائرۂ کار بڑھا کر ہم اپنے ملک کی تزویراتی حیثیت کو دوام بخش سکتے ہیں اور بھارتی اثر و نفوذ کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
ایکو کانفرنس میں شریک سربراہان نے دہشت گردی کے خاتمے کے نکتے پر بھی اتفاق کیا ہے، اور اس کا شکار اس وقت پاکستان، افغانستان اور کسی حد تک ترکی بھی ہے۔ جب حال یہ ہو کہ محض ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میچ کے انعقاد کے لیے پورا لاہور شہر بند کرنا پڑے تو پھر ملک میں معاشی ترقی کا سوچنا اور تعلیم و صحت کے منصوبے چلانا کیسے ممکن ہے!ہمیں بحیثیت قوم اپنی ترجیحات طے کرکے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے اور ان میں علاقے میں امن و امان کی بحالی اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ترجیح اول ہوگی۔

حصہ