(نشے تو سب حرام ہیں(سید اقبال چشتی

310

سمندر میں ایک بڑی کشتی اپنے سفر پر رواں دواں تھی کہ طوفان میں پھنس جاتی ہے ہر طرف افرا تفری مچ جاتی ہے۔ لوگ ادھر اُدھر اپنی جان بچانے کے لیے فکر کرنے لگتے ہیں، لیکن ایک شخص بڑے اطمینان کے سا تھ بیٹھا رہتا ہے۔ جب لوگ اس سے پو چھتے ہیں کہ کیا تمہیں اپنی جان کی کوئی فکر نہیں تو وہ ہر ایک کو ایک ہی جواب دیتا ہے کہ کشتی نہیں ڈوبے گی، سب بچ جائیں گے اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر کیا تھا لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں کہ یہ کو ئی اللہ والا ہے۔ یہ شخص تاریخ میں حسن بن سباح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس نے دنیا میں جنت بنائی۔ یہ افیون کے نشے میں لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو مبتلا کرتا اور اپنا کام نکالتا تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ حسن بن سباح اور اس کے ماننے والوں سے ڈرتے تھے کہیں اس کے لوگ حکومت نہ گرادیں حسن بن صباح نے لوگوں کو نشے کا عادی بنا کر کئی حکومتوں کو ختم کیا اور لوگ اس کے اشارے پر کسی کی جان لے لیتے اور اپنی جان قربان کر دیتے تھے۔ آج ایک بار پھر حسن بن سباح کا ہتھیار نشے کے ذریعے کچھ سیاست دان اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔
اخبارات میں خبر پڑھی کے بھارتی پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں امیدواروں کی طرف سے ووٹ دو، منشیات لو کے ذریعے ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا جارہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اب تک پولیس اور الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ 55 کلو گرام ہیروئین اور 430 کلو گرام کچی افیون برامد کی گئی ہے۔ ریاست پنجاب میں20 فی صد نوجوان نشے کی لت کی عادت میں پڑے ہوئے ہیں۔ انتخابات میں حصے لینے والوں کا اصل ٹارگٹ نشے کے عادی نوجوان اور نشئی افراد ہیں تاکہ ان کے ذریعے اسمبلی کی سیٹ کو جیتا جا سکے۔ سیاست میں پیسے کا استعمال زیادہ ہو نے کی وجہ سے سیاست کے پجاریوں نے یہ کھیل کھیلا کے ہم جیتنے کے لیے اس قوم کو نشے کا عادی بنا دیتے ہیں اور پوری مدت یہ قوم ہماری ہی سر پرستی میں منشیات استعمال کرے گی اور الیکشن کے وقت ہم ان لوگوں کو مفت میں منشیات تقسیم کر کے آپ کے ووٹ کا صحیح حقدار کے لیے راضی کر لیں گے۔
حکم رانی کا نشہ بھی کیا نشہ ہے کہ ایک زمانے میں حکم راں بادشاہ تخت پر بیٹھنے کے بعد اپنے سگے بھائیوں کو مروادیتا تھا تا کہ حکومت میں کوئی مداخلت اور سازش نہ ہو، لیکن اس کے باوجود بھی سازش ہوتی، جو کبھی کام یاب اور کبھی ناکامی سے دوچار ہوتی۔ حکم رانی کا منصب حاصل کرنے کے لیے حضرت انسان نے اپنے ہاتھ کہیں انسانوں کے خون سے رنگے تو کہیں نشے کا عادی بنا کر اپنا مطلب نکال لیا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے اور سیاست تو ہے ہی ایک جنگ کانام، جس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پہلے سیاسی حریف کو اخلاق و کردار اور کارکردگی کی بنیاد پر شکست دی جاتی تھی، لیکن پھر جیسے جیسے انسان نے ترقی کی، سیاست میں بھی تبدیلیاں آئیں اور سیاست میں تشدد اور دھونس، دھمکی، بدمعاشی کا عنصر غالب آگیا، جس پر لوگ کہنے لگے کہ اب سیاست شریف لوگوں کا کام نہیں رہا۔ شریف لوگوں کی سیاست سے عدم دل چسپی کا بد معاشی کر نے والی سیاسی جماعتوں نے بھر پور فائدہ اُٹھایا اور اب سیاست پیسے، بدمعاشی، جھوٹ پر مشتمل ہوچکی ہے، لہذا عوام بھی انہیں سیاسی لوگوں کو پسند کرنے لگی ہے، جو سب سے زیادہ جھوٹ بو لتے ،، بدمعاشی کرتے اور دولت کا غلط استعمال کرتے ہوں۔ اس طریقے سے جیت کر آنے والے حکم راں عوام کوبے روزگاری، جرائم کی سرپرستی، کرپشن اور بنیادی سہولتوں کی محرومیوں ہی کے تحفے دیتے ہیں۔
بر صغیر میں ووٹ کی خرید و فروخت کا کاروبار بہت پرانا ہے اور بڑے چوہدری اور وڈیرے اپنے علاقے کی چھوٹی برادریوں کو بھاری رقم کے عوض خرید لیتے ہیں۔ ان کا مکھیا، جو اپنی برادری کا بڑا ہوتا ہے، وہ سب کی طرف سے ووٹ کے بد لے چند مراعات اور رقم وصول کرلیتا ہے اور برادری کے تمام لوگ اپنے مکھیا کے کہنے پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ گاؤں دیہات میں پیسے لے کر برادریاں بکتی ہیں، تو شہروں میں پارٹیاں ٹکٹ لے کر بکتی ہیں۔ برادری صحیح فیصلہ کرے یا غلط، برادری کے کہے کے مطابق لوگوں کو ووٹ دینا ہوتا ہے۔ انکار کی صورت، برادری با ئیکاٹ کردیتی ہے۔ اس طرح کی سیاست پاکستان اور بھارت دو نوں ممالک میں یک ساں مقبول ہے، لیکن ووٹ دو منشیات دو کا پہلی دفعہ سنا ہے اور سیاست میں جیت کے لیے اس طرح کے حربے اختیار کرنے سے ملک اور قوم کو کیا نقصان ہوگا، اس سے خطا نظر اب سیاست اس حد تک گر گئی ہے کہ جن لوگوں کو جیت کر اسمبلی میں منشیات کے خلاف آواز بَلند کر نی ہے اور منشیات کی لعنت کے خلاف جنگ لڑنی ہے، وہی اس کے پھیلاؤ کا باعث بن جائے تو اس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ یہ کرپٹ سیاست دان ملک اور قوم سے کتنے مخلص ہیں؟
پاکستان میں بھی منشیات کا کاروبار عام ہے اور حکومت ہر برس منشیات کی روک تھام کے حوالے سے مہم چلاتی ہے۔ جب تک مہم چلتی ہے، اس وقت تک میڈیا پر منشیات کو تلف کرنے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں، لیکن بعد میں حکومتی ایوانوں اور اسمبلی کی لابی سے منشیات اور شراب کی بوتلیں ملتی ہیں۔ نہ منشیات کی لعنت ختم ہو تی ہے اور نہ اس کا کاروبار کرنے والے ختم ہو تے ہیں بلکہ منشیات کا کاروبار اور اس کی خریدو فروخت اور منشیات استعمال کرنے والوں کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ پہلے چھوٹے نشے سے آغاز کرنے والے آہستہ آہستہ انتہائی خطر ناک نشہ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ شیشہ کا استعمال بھی منشیات کے اندر آتا ہے اور حکومت کے شیشہ کے خلاف اقدامات ملک بھر میں ناکام ہوگئے، کیوں کہ خوش پوش علاقوں میں شیشہ کے ہوٹل چلانے والوں کو بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے اور بعض ہو ٹلز جہاں شیشہ کا کھلے عام استعمال کیا جاتا ہے، یہ بھی سیاسی اور بڑے کاروباری شخصیات کی ملکیت بتائے جاتے ہیں۔ اس نشے کی لت میں پاکستان کی اچھی خاصی آبادی اور خاص کر نوجوان تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں۔ یقیناً جہاں دہشت گردوں کے آلۂ کار بن کر کچھ غدار ملک کو تباہ کر نے کی سازشیں کررہے ہیں، وہیں مستقبل کے معماروں کو منشیات کی لت میں مبتلا کرکے اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل بھی کی جارہی ہے۔ قائد اعظم یو نیو رسٹی اسلام آباد میں منشیات کے حوالے سے اخباری اطلا عات اس بات کا پتا دے رہی ہیں کہ منشیات کا کاروبار کر نے والوں نے امیر گھرانے کے بچوں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کو خصوصی ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ کچھ ہی روز پہلے اخبارات میں خبر پڑھی کہ کراچی میں مشہورO اور A لیول اسکولوں کے باہر منشیات سے بھری ٹافیاں فروخت کی جارہی ہیں۔ اخباری اطلاعات ہی ہیں کہ ہزاروں ٹن گٹکا ، ماوا، بھارت سے بذریعہ افغانستان اور ایران سے مضر صحت زائد المیعاد ٹافیاں اسمگلنگ ہوکر پاکستان آرہی ہیں۔ یہ کام کر نے والے بھی دہشت گردوں سے کم نہیں، جو چند پیسوں کی خا طر ملک اور قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ قوم کی صحت سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی دہشت گردی ہے، کیو ں کہ دہشت گردی سے ایک علاقہ اور چند لو گ متاثر ہو تے ہیں، لیکن ڈرگ کے استعمال سے پورا معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ ان کے خلاف بھی ’’ردالفساد‘‘ آپریشن کی ضرورت ہے تا کہ دیمک کی طرح پاکستانی معاشرے کو اندر سے گلانے والے اور بُرائی کو پھیلانے والے کام یاب نہ ہو سکیں۔
منشیات کا کاروبار پوری دنیا میں سب سے زیادہ منظم سمجھا جاتا ہے اور کم وقت میں سب سے زیادہ منافع دینے والا کاروبار بھی منشیات ہی کا ہے، اس لیے منشیات کے کاروبار کرنے والوں کا کو ئی دین اور کو ئی ملک نہیں ہوتا ہے۔ ان کا دین اور ملک صرف پیسا ہوتا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں ایک مجرم پکڑا گیا، جو قرآن پاک میں ہیروئین رکھ کر اسمگل کرنے کی کوشش کررہاتھا۔ دنیا کے کئی ممالک میں منشیات پیدا کی جاتی ہیں اور کئی ممالک میں منشیات کے لانے والے کو سزائے موت دینے کا قانون بھی ہے اور سخت سزائیں بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود منشیات کا کاروبار ہوتا ہے۔ پاکستان کے پڑوسی ممالک خاص طور پر افغانستان میں پوست کی فصل بڑے پیمانے پر اُگائی جاتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے جب ناٹو کی افواج اپنے خلاف لڑنے والوں کو ڈرون اٹیک کے ذریعے ہلاک کردیتے ہیں، لیکن زہر ا لودہ فصلیں اُگانے پر کو ئی ڈرون اٹیک اِسپرے نہیں کیا جاتا بلکہ دیگر ممالک میں سپلائی ہو نے تک محفوظ رہتی ہے، جو کہ اقوام متحدہ اور ناٹو افواج پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اقوام متحدہ ہی کی رپورٹ کے مطابق 70 فی صد علاقو ں میں پوست کی کاشت افغان حکومت کے نام زد گورنر ز کی زیر نگرانی کی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانیت کے دشمن اسلام اور ملک کی آزادی کے لیے جنگ کرنے والے نہیں بلکہ مغرب کے نظام کو پسند کرنے والے یہ منشیات فروش حکم ران ہیں۔ سونے پہ سہاگہ بھارت جو افغانستان میں اس وقت اپنا کافی اثرورسوخ رکھتا ہے اور جو پاکستان دشمنی میں کسی بھی حد تک جانے کے تیار رہتا ہے، اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے جو اپنی قوم کو اس زہر کا عادی بنا سکتا ہے، وہ پاکستان کی عوام کو بھی اس زہر کا عادی بنانے کے لیے ہر حربے کو استعمال کر سکتا ہے، لیکن دشمن کو کام یابی اس وقت تک نہیں مل سکتی، جب تک ملک کے اندر سے اپنے ساتھ نہ دیں، لہذا پاکستان کے اندر کم وقت میں زیادہ دولت جمع کرنے کی لالچ میں کچھ لوگ ملک کی ساکھ کو داؤ پر لگاکر قوم کی صحت سے کھیل رہے ہیں اور کچھ سیاسی لبادہ اُڑھ کر قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔
جو لوگ عوام کو دھوکا دے کر اقتدار میں آئیں، وہ کس طرح ملک اور قوم کی ترقی کے لیے کام کریں گے؟ ایسے لوگ پانچ سال لوٹ کھسوٹ ہی میں مصروف رہتے ہیں اور جائز و نا جائز ذرائع سے دولت کا حصول ہی ان کا ہدف ہو تا ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں پھر سے پیسے کا بے دریغ استعمال کر کے عوام کو بے وقوف بنا کر ایک بار پھر الیکشن جیتا جا سکے۔ الیکشن کمیشن خرچ کی ایک خاص حد مختص کرتا ہے کہ اس سے زیادہ رقم خرچ نہیں کی جاسکتی، لیکن الیکشن کمیشن بھی ان کی طاقت اور پیسے کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم آج تک لندن اور پیرس کے سہا نے خواب دیکھتے رہتی ہے اور حکم رانوں کے نام پاناما لیکس، وکی لیکس میں آنے کے بعد بھی عوام کو ہو ش نہیں آتا کہ یہ کون ہیں، کیا کررہے ہیں؟ عوام کا غصہ اگر نکلتا ہے تو صرف پولیس پر کہ پولیس مجرموں کی پشت پناہی کرتی ہے، میڈیا صرف خبریں پیش کر کے بری الذمہ ہوجاتا ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال اور دیگر اخلاقی برائیوں کا رجحان عام ہوچکا ہے اور کسی بھی شہر میں منشیات تک رسائی مشکل نہیں رہی، اسکول سے لے کر پروفیشنل تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات میں منشیات کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، ساتھ ہی کہا جاتا ہے کہ تمام منشیات کے اڈے پولیس کی زیرِ نگرانی میں چل رہے ہیں، لیکن میڈیا عوام میں شعور اور آگاہی کے حوالے سے مہم نہیں چلاتا کہ ان جرائم پیشہ افراد کے اصل پشیبان کون ہیں؟ آج بھی قوم ادھر اُدھر جان بچانے کی فکر میں بھاگتی پھررہی ہے اور ہر بار حسن بن سباح کے شاگردوں کے پھیلائے ہو ئے جال دہشت گردی، منشیات، عصبیت، برادری ازم کے فتنے میں پھنس جاتی ہے اور حکم راں کچھ نہیں ہو گا کی گردان الاپتے رہتے ہیں، اسی لیے الیکشن کے سیزن میں عوام ان فتنوں میں الجھ کر ہر بات بھول جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے دو چار مطالبے والے بینرز لگاکر سمجھتی ہے کہ ہم نے اپنا مطالبہ کردیا ہے، جو اس مطالبے کو حل کردے گا، وہی ہمارے ووٹ کا حق دار ہوگا۔ اگر قوم ملک اور قوم کو محرومیوں کے سائے دینے والے آزمائے ہو ئے لوگوں کو منتخب کرنے کے بجائے ان کے ماضی کی کارکردگی کا بھی جائزہ لے تو یقیناًایک معمولی سی سوچ بھی بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔ اس طرح طاقت اور دولت کے نشے میں چُور ہو کر میدان میں اترنے والوں کا عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے احتساب کرسکتی ہے۔
نشہ دولت کا، طاقت کا ، جیت کا ہو یا حکم رانی کا سب حرام ہیں، اگر یہ نشہ اپنوں اور دین و ملّت سے دور کردے اور یہ تمام وسائل اپنوں کی بہتری کے بجائے تباہی و بربادی کے لیے استعمال ہو نے لگیں تو اس میں معاشرے میں بسنے والی عوام ہی کا قصور ہوتا ہے، جو کرپٹ عناصر کے ہاتھ مضبوط کرکے ان سے بھلائی کی توقع کرتی ہے۔ عوام کے اس رویّے کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا صحیح ہے کہ قوم کرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر کہتی ہے، کرپشن بڑھ گئی ہے، قوم چوروں کو ووٹ دے کر کہتی ہے، جرائم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سو چنے کا مقام ہے۔۔۔قوم منشیات فروشوں کو منتخب کرے گی تو منشیات کی لعنت کیسے ختم ہوگی، چور چوروں کا احتساب کیسے کرے گا، رشوت خور کرپشن کا خاتمہ کیسے کرے گا؟ پاکستانی عوام چار اطراف سے مختلف بُرائیوں کے خلاف جنگ لڑرہی ہے۔ اس جنگ میں اگر عوام کام یابی چاہتی ہے تو قوم کو اپنے ووٹ دینے کے رویّے کو تبدیل کرنا ہوگا، ملک اور قوم سے مخلص با کردار قیادت ہی کو منتخب کرنا ہوگا۔ یہی قیادت عوام کو مسائل سے نجات دلائے گی اور پاکستان کو ترقی کے زینے پر چڑھائے گی۔

حصہ