(اخبار ادب(ڈاکٹر نثار احمد نثار

339

گزشتہ دنوں حلقۂ آہنگ نو کے زیر اہتمام ڈاکٹر جمال نقوی کی تازہ تصنیف ’’ہمہ جہت اقبال‘‘ اور ڈاکٹر زاہد حسین کا افسانوی مجموعہ ’’شام سے پہلے‘‘ کی تعارفی تقریب سمن آباد میں منعقد ہوئی، جس کی صدارت معروف شاعر، ادیب اور دانش ور فہیم اسلام انصاری مدیر اجمال نے کی، جب کہ نظامت کا فریضہ حامد علی سیّد نے ادا کیا۔ ڈاکٹر جمال نقوی کی کتاب ’’ہمہ جہت اقبال‘‘ پر معروف شاعر و نقّاد شفیق احمد شفیق نے اپنے مضمون میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ زیر تعارف کتب سے قبل جمال نقوی کی کئی اہم ادبی کتابیں شائع ہوچکی ہیں، خاص طور پر ’’جمہوریت ادب مسائل‘‘ نئے دنوں کی بشارت مزاج سخن (شعری مجموعہ) اقبال کی شاعری میں سرسید، حالی، شبلی اور اکبر کی روایت کا امتزاج جو تخلیقی، تحقیقی اعتبار سے اُردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ڈاکٹر جمال نقوی نظریاتی اعتبار سے ایک اہم ترقی پسند تخلیق کار ہیں، جن کی کتابیں خصوصی مطالعے کی متقاضی ہیں۔ افسانوی مجموعہ ’’شام سے پہلے‘‘ پر ڈاکٹر زاہد حسین کو ان کے پہلے افسانے کے مجموعہ پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اُردو افسانوی ادب میں ڈاکٹر صاحب کو اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ چرند، پرند اور نباتات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا، جو اُردو افسانوی ادب میں انفرادیت کا حامل ہے۔ پروفیسر شہناز پروین نے ڈاکٹر زاہد حسین کے افسانوی مجموعے ’’شام سے پہلے‘‘ پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجموعے کا پہلا افسانہ پڑھا تو پڑھتی ہی چلی گئی۔ ’’شام سے پہلے‘‘ میں درخت، چرندپرند کے حوالے سے تقسیم ہند کے المیے کو پختگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جو منفرد بھی ہے اور مختلف بھی۔ معروف افسانہ نگار و کالم نگار محترمہ نسیم انجم نے تخلیقی و تحقیقی کتاب ’’ہمہ جہت اقبال‘‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر جمال نقوی کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے ادب کو بہت وقت دیا ہے، جس کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر منظور احمد نے لکھا ہے۔ اس حوالے سے بھی کتاب ’’ہمہ جہت اقبال‘‘ کی اہمیت اور معیار کا پتا چلتا ہے۔ ممتاز شاعر جگن ناتھ آزاد کی نظم ’’ماتمِ اقبال‘‘ بھی کتاب میں شامل ہے، جس سے قارئین کی معلومات میں یقیناً اضافہ ہوگا۔ معروف ادیب، دانش ور اور شاعر فہیم اسلام انصاری مدیر ’’اجمال‘‘ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ علامہ اقبالؒ پر بہت لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا، کیوں کہ بڑے تخلیق کار اپنے نظریات کے حوالے سے زندہ رہتے ہیں۔ جمال نقوی نظریاتی اعتبار سے ایک معروف ترقی پسند قلم کار ہیں۔ انہوں نے آدمیت اور احترام آدمیت کے حوالے سے کتاب’’ہمہ جہت اقبال‘‘ میں جو کچھ لکھا ، اس کی پزیرائی یقینی ہے۔ اقبال نے بندۂ مزدو اور استحصالی طبقے نے رد کردیا وگرنہ آج ’’ردالفساد‘‘ کی کیا ضرورت تھی۔ بہرکیف ’’ہمہ جہت اقبال‘‘ اور افسانوی مجموعہ ’’شام سے پہلے‘‘ کے حوالے سے جو تخلیقی و تجزیاتی مضامین پڑھے گئے، وہ سب قابل توصیف ہیں۔ تنظیم حلقہ آہنگ نو کے روح رواں شفیق احمد شفیق بھی اس اعتبار سے قابل مبارک باد ہیں کہ ماہانہ تنقیدی نشست کے ساتھ ساتھ تازہ تصنیفات کی تعارفی تقریب کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ صدارتی خطاب سے قبل حامد علی سید نے ڈاکٹر جمال نقوی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ بعدازاں شعری دور میں جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں شفیق احمد شفیق، ڈاکٹڑ جمال نقوی، اوسط جعفری، احمد سعید فیض آبادی، خواجہ رحمت اللہ جری، غالب عرفان، حامد علی سیّد اور نجیب عمر کے نام شامل ہیں۔
۔۔۔*۔۔۔
ادبی تنظیم تخلیق کار کے زیر اہتمام ایک ماہانہ نشست منعقد ہوئی، جس کے تین دور تھے۔ پہلے دور میں رحمان نشاط نے اپنا افسانہ پیش کیا، جس پر ڈاکٹر شاداب احسانی، شاہدہ حسن اور اکرم کنجاہی نے گفتگو کی۔ اس افسانے کا عنوان تھا: ’’یا خدا، میری امّی سلامت رہیں‘‘ سب سے پہلے اکرم کنجاہی نے اس افسانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم علامتی افسانوں سے نکل آئے ہیں۔ آج کا افسانہ بھی علامتی نہیں ہے۔ اس میں کردار نگاری بہت عمدہ ہے، افسانے میں ایک خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے اور ماں کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ یہ ایک بیانیہ افسانہ ہے۔ گو کہ رحمان نشاط اچھے افسانہ نگار ہیں، تاہم اس افسانے میں کئی حوالوں سے ’’جھول‘‘ ہے، جس سے افسانے کا ابلاغ نہیں ہو پایا۔ شاہدہ حسن نے کہا کہ یہ گھریلو سماجیات پر مشتمل کہانی ہے، لیکن ابلاغ کم زور ہے، حالاں کہ تخلیقی آگہی اپنی راہیں خود تلاش کرلیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں نئی نسل کا تعلق اپنے والدین سے کم ہوتا جارہا ہے۔ اس افسانے میں اسی حقیقت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ آج پیش کیا جانے والا افسانہ پُر تاثیر نہیں ہے۔ شاداب احسانی نے کہا کہ یہ افسانہ روایتی طرز کا ہے، لیکن افسانہ نگار نے جدید لفظیات کے ذریعے اسے ماڈرن بنانے کی کوشش کی ہے۔ افسانے کی بُنت کم زور ہے، اس لیے سماعتوں کو متاثر نہیں کرسکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رحمن نشاط کے افسانے کا موازنہ منٹو کے افسانوں سے نہ کیا جائے، یہ ابھی ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں افروز رضوی نے رانا خالد محمود قیصر کی شخصیت اور فن کے بارے میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ رانا خالد کی غزلیں بہت خوب صورت ہیں، جن میں معاشرتی اور سماجی رویّوں کا اظہار موجود ہے۔ ان کی شاعری میں روانی ہے، رومانیت ہے، حسن و عشق کے موضوعات بھی ان کی شاعری کا حصّہ ہیں۔ مقبول زیدی نے رانا خالد محمود کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ صاحب صدر پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے خالد محمود کے بارے میں کہا کہ وہ نیک سیرت انسان ہیں۔ انہوں نے اپنے مجموعۂ کلام میں زندگی کے مسائل ڈسکس کیے ہیں۔ پروگرام کے تیسرے دور میں مشاعرہ ہوا۔ ہر دور کی نظامت سلمان صدیقی نے کی۔ اس موقع پر صاحب صدر، مہمان خصوصی، مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ، جن شعرا و شاعرات نے کلام نذرِ سامعین کیا، ان میں رانا خالد محمود، حجاب عباسی، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، سیما غزل، سحر تاب رُومانی، حامد علی سیّد، تزئین راز زیدی، کشور عدیل جعفری، مقبول زیدی، حجاب فاطمہ، آزاد حسین آزاد، اسد قریشی، احمد جہانگیر، صفدر علی انشا، عاشق شوکی اور علی کوثر شامل تھے۔ بزمِ ہذا کے صدر کشور عدیل جعفری نے کلماتِ تشکر ادا کیے، جب کہ جنرل سیکرٹری حجاب عباسی نے خطبۂ استقبالیہ دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی کرنا ہمارے منشور میں شامل ہے۔ صاحبِ صدر تقریب نے اپنی غزلیں سنانے سے قبل کہا کہ آج بہت اچھی شاعری سامنے آئی ہے۔ ہر ہر شخص نے اپنا منتخب کلام سنایا۔ اس محفل کا مزا تادیر قائم رہے گا۔ اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ آج کئی اہم علم دوست شخصیات محفل میں موجود ہیں اور سامعین کی کثیر تعداد بھی۔
۔۔۔*۔۔۔
اکرم کنجاہی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ صحافی بھی ہیں۔ ان کا ادبی رسالہ ’’غنیمت‘‘ کراچی اور گجرات سے شائع ہورہا ہے۔ انہوں نے اب مشاعروں کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ ان کا دوسرا مشاعرہ رفیع الدین راز کی صدارت میں منعقد ہوا۔ توقیر اے خان ایڈووکیٹ مہمان خصوصی تھے۔ فیروز ناطق خسرواور اختر سعیدی مہمانانِ اعزازی تھے، سلطان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے، جب کہ اکرم کنجاہی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ مشاعرے میں صاحب صدر، مہمان خصوصی، مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ حجاب عباسی، سحر تاب رومانی، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، شمس الغنی، کاشف حسین غائر، شاعر علی شاعر، زیب النساء زیبی، شگفتہ شفیق، رفیع اللہ میاں، اسد لکھنوی، سلمان ثروت، الحاج نجمی، کامران محور، عاشق شوکی اور علی کوثر نے کلام پیش کیا۔ صاحب صدر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ نوجوان شعرا بہت تیزی سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں اور کراچی میں خاص طور پر کئی نوجوان شعرا بہت اچھا کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ میرے نزدیک اُردو ادب روبہ زوال نہیں ہے۔ اب اُردو زبان پاکستان کے علاوہ بھی بہت سے ممالک میں بولی جارہی ہے اور وہاں بھی مشاعرے ہورہے ہیں۔ اکرم کنجاہی نے اپنی غزل سنانے سے قبل کہا کہ وہ کوشش کررہے ہیں کہ سہ ماہی ’’غنیمت‘‘ کے تحت ہر ماہ باقاعدگی سے مشاعرہ کرائیں، کیوں کہ مشاعرے ہماری ادبی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں‘ اُردو زبان و ادب کے فروغ میں ان کا اہم کردار ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
غزل سنگیت ایک نوزائیدہ ادبی ادارہ ہے، جس کے روح رواں مقبول زیدی ہیں، جو کہ سلام گزار ادبی فورم کے حوالے سے ہر ماہ سلامِ امام حسین کا مشاعرہ منعقد کراتے ہیں، جس میں کبھی طرحی مشاعرہ ہوتا ہے اور کبھی غیر طرحی۔ غزل سنگیت کا مشاعرہ گلستان جوہر میں شاہدہ عروج کے مکان پر منعقد ہوا۔ مسلم شمیم ایڈووکیٹ نے صدارت کی، رفیع الدین راز مہمان خصوصی تھے جب کہ خالد محمود قیصر مہمان اعزازی تھے، جن کا شعری مجموعہ ابھی حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے اور یہ نشست بھی ان کے اعزاز میں سجائی گئی تھی۔ سب سے پہلے انیس جعفری نے رانا خالد محمود قیصر کے لیے منظوم حروفِ سپاس پیش کیے، اس کے بعد ناظم مشاعرہ مقبول زیدی نے اپنی غزل سنائی۔ اس موقع پر مسلم شمیم ایڈووکیٹ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مشاعروں کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ وہ ادارہ ہے، جو کہ اُردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔ وقت و حالات کے سبب مشاعروں کے انعقاد میں دشواریاں حائل ہوتی رہتی ہیں، لیکن یہ سلسلہ بند نہیں ہوتا۔ جیسے ہی امن وامان کی صورت حال بہتر ہوتی ہے، ادبی سرگرمیاں بحال ہوجاتی ہیں۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر مہمان خصوصی، مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ فراست رضوی، فیروز ناطق خسرو، نسیم نازش، راشد حسین راشد، شمع نور شمع، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، سحر تاب رومانی، شاعر علی شاعر، ترنین راز زیدی، پرویز نقوی، انیس جعفری، شوکت اللہ جوہر، کشور عدیل جعفری، حجاب فاطمہ، فرخ اظہار، سکندر ابوالخیر، وقار زیدی، الحاج نجمی، ضیا شہزاد، زیب النساء زیبی، اسد ظفر، شاہدہ عروج اور دیگر نے کلام نذر سامعین کیا۔ مقبول زیدی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ شاہدہ عروج خان نے اظہار تشکّر کے کلمات ادا کیے۔
صفدر صدیق رضیؔ
رنج و الم اور آہ و فغاں سب جاری ہیں مجھ میں
آگ پکڑنے والی چیزیں ساری ہیں مجھ میں
مجھ سے میری ہر خواہش سب حرص و ہوس لے جاؤ
بیچ رہا ہوں جو چیزیں بازاری ہیں مجھ میں
میں خود بھی اکثر ان سے زخمی ہو جاتا ہوں
وہ باتیں جو باعثِ دِل آزاری ہیں مجھ میں
مجھ سے بچھڑ کر اس نے کوئی خواب نہیں دیکھا
پھر سب راتیں میرے بعد گزاری ہیں مجھ میں
جسم اور جاں میں ایک کھرا دل تھا سو ٹوٹ گیا
سوچ رہا ہوں کیا چیزیں معیاری ہیں مجھ میں
امداد آکاش
تشنہ لب خاک بسر آبلہ پا بیٹھا ہے
خشک دریا مری دہلیز پر آ بیٹھا ہے
کل بھی عشاق کے زمرے میں مرا نام آیا
اس جنم میں بھی میرے سر پہ ہما بیٹھا ہے
دل کشادہ بھی کیا اس میں چراغاں بھی کیا
اور ہمزاد مرا دشت میں جا بیٹھا ہے
دستِ فطرت کو حفاظت کی ضرورت ہو گی
شوقِ تخلیق میں انسان بنا بیٹھا ہے
آئنہ دیکھا ہے آکاش بڑی دیر کے بعد
میں بھی حیراں ہوں میرے سامنے کیا بیٹھا ہے
تاج علی رعنا
چاند کیا نکلا فلک پر سب ستارے آ گئے
ڈوبتے کشتی جو دیکھی تو کنارے آ گئے
جن کو دنیا میں ٹھکانہ کوئی بھی ملتا نہ تھا
انجمن میں آپ کی وہ غم کے مارے آ گئے
آپ کو دیکھا تو آنکھوں میں محبت جاگ اٹھی
اور پھر بے ساختہ بانہیں پسارے آ گئے
چاند سا چہرہ لیے کیوں بام پر موجود ہو
جھانک کر دیکھو ذرا بالم تمہارے آ گئے
دل جلاتے ہو کبھی دل توڑتے ہو پیار سے
تم کو بھی اس دنیا کے انداز سارے آ گئے
میں نے تو چاہا بہت شہرِ محبت چھوڑ دوں
روکنے رستہ اُن آنکھوں کے اشارے آ گئے
تاج اک آواز نے مدہوش مجھ کو کر دیا
پیار سے جس دَم کہا بالم تمہارے آ گئے

حصہ