جواب شکوہ

383

بہت ہی محترم جناب خیال آفاقی عرف فقیرِ شہرِ قائد‘ آپ کے عنایت نامے کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ اس طرح آپ سے رابطے کی ایک سبیل نکلی ورنہ کہاں میں‘ کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔
جناب نے رخصت ہونے سے پہلے کسی ’’دانائے راز‘‘ کی آواز اس حقیر تک پہنچائی ہے۔ اگر دانائے راز سے آپ کی مراد علامہ اقبالؒ ہیں تو ان کا پورا کلام چھان مارا یہ مصرع نہیں ملا کہ ’’صراف کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے۔‘‘ پروفیسر صاحب! صدف اور گہر سے صراف کا کیا تعلق؟ صراف تو زیور بنانے یا سونے‘ چاندی کی پرکھ کرنے والے کو کہتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب بینکار بھی ہے اور عرب ممالک میں انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ خود علامہ اقبال نے ’’صرافی‘‘ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ ممکن ہے صراف کسی کی فرمائش پر زیورات میں گہر ٹانک رہا ہو۔ آپ کے دیے ہوئے شعر کے پہلے مصرع کی مدد سے دانائے راز تک پہنچا گیا تو اس میں صراف کی جگہ ’’غواص‘‘ ہے۔ شعروں اور شاعروں کے نام میں اکثر سہو ہو جاتا ہے‘ خود ہم بھی بارہا ایسی غلطلیاں کرچکے ہیں لیکن آپ چوں کہ ایک بڑے شاعر‘ ادیب اور دانشور ہیں اس لیے خود ہی شعر کے مفہوم پر غور کرلیا ہوتا۔ بہرحال چوں کہ آپ نے لکھا ہے کہ ’’میں اکیلا ہوں‘ کچھ دوسرے رفقا نے یہ کام انجام دیئے (دیے) ہیں‘‘ اس لیے سمجھا جاسکتا ہے کہ آپ نے یہ خط بھی اکیلے ہی لکھا ہے اور خاص کیفیت میں چنانچہ رفقا سے اصلاح بھی نہیں لی۔
بہت ہی پیارے خیال آفاقی صاحب! آپ کا جو مقام ہے اس کے پیش نظر ہماری جسارت پر آپ کی برہمی بالکل بجا ہے اور آپ کی اس ’’تلخ نوائی‘‘ پر ہرگز بھی کوئی ناراضی نہیں ہے بلکہ خوشی ہے کہ اس طرح ہماری تحریر آپ کی نظر سے گزر گئی ورنہ آپ سے ہم کلامی کا شرف کیسے حاصل ہوتا۔ ہم نے تبصرے میں مودبانہ عرض کیا تھا کہ آپ چوں کہ (دانت پیسے بغیر) ایک بہت بڑے ادیب‘ شاعر اور دانشور ہیں‘ 50 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اس لیے خدشہ ہے کہ اردو سے دور ہوتی جانے والی نسل کہیں غلطیوں ہی کو سند نہ سمجھ لے۔ مشورہ دیا تھا کہ دوسری اشاعت میں تصحیح کرلی جائے لیکن آپ نے تو دل پر لے لیا۔ آپ نے لکھا ہے کہ ’’میرے والد بزرگوار تک پہنچنے کی جسارت کر ڈالی۔‘‘ صاحب‘ یہ تاب‘ یہ مجال‘ یہ طاقت نہیں مجھے۔ ذرا غور سے پڑھیے‘ ہم نے عرض کیا تھا کہ ’’علاؤالدین‘‘ میں واؤ نہیں آتا۔ ظاہر ہے کہ یہ آپ کی یا آپ کے رفیق کی غلطی ہے‘ آپ کے والد کی نہیں۔ ہمیں کیا معلوم کہ وہ اپنا نام کیسے لکھتے تھے۔ ہم نے بارہا یہ توجہ دلائی ہے کہ بہاء الدین زکریا یا منڈی بہاء الدین میں واؤ نہیں آتا جب کہ ذرائع ابلاغ میں اسے بہاؤالدین لکھا جارہا ہے۔ بہاء الدین زکریاؒ کی اولاد میں سے متعدد آج بھی ملتان اور اس کے نواح میں رہتے ہیں‘ کیا وہ یہ کہہ کر ہم پر چڑھائی کریں گے کہ ہمارے جدِامجد کے نام کی تصحیح کرنے کی جرأت کیسے کی؟
ہماری تحریر کی پیشانی پر ہمارا عکسِ جمال‘ اعتراض بجا ہے لیکن جناب پروفیسر صاحب! اس خود نمائی میں ہمارا دخل ہرگز نہیں۔ ہم نے تو برسوں سے اپنی تصویر ہی نہیں کھنچوائی۔ آپ کے رفیقوں جیسے ہمارے کچھ رفیق ہمارے عکسِ جمال کو فیس بک پر ڈال دیتے ہیں جب کہ ہمیں فیس بک استعمال کرنا آتا ہے نہ ہم دیکھتے ہیں۔ سنڈے میگزین کے نگران نے وہیں سے ایک تصویر اٹھالی۔ ہم برسوں سے جسارت میں کالم لکھ رہے ہیں لیکن وہ ہمارے عکسِ جمال سے محروم رہتا ہے جب کہ آپ کوئی بھی اخبار اٹھا لیں اس میں لکھنے والوں کے سر نخل دار کی طرح لٹکے ہوئے نظر آئیں گے۔ کاش آپ بھی اپنی تصویر سے سرفراز کریں۔ آج کے دورِ صحافت میں لکھنے والے کی تصویر کی اشاعت کو خود نمائی نہیں سمجھا جاتا بلکہ بعض تصاویر تو اشتہاری ملزم کی طرح ہوتی ہیں۔ آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ ’’انکھیں اور اکھیاں‘‘ سے روحِ شعر پر ضرب کاری نہیں لگتی۔ ویسے یہ لفظ ’’اکھیں‘‘ ہے صرف آپ کی اطلاع کے لیے لکھ دیا تھا کہ آپ بڑے استاد ہیں‘ آپ کے مقام سے بے خبر کوئی اور اعتراض نہ کردے۔
محترم استاد! آپ نے تعقید کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ہمارا تو دینی نصاب ہی تعقید کے انداز میں نہایت پُرزور اور مزیدار بنا ہوا ہے‘ ’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ۔‘‘ آپ نے بہت زوردار اور مزیدار دلیل دی ہے لیکن آپ کے تمام تر احترام کے ساتھ عرض ہے کہ یہ مثالیں آپ نے قرآن کریم سے دی ہیں جب کہ قرآن کا انداز بیان منفرد ہے اور مثال عربی سے دی گئی ہے جب کہ آپ کی دی گئی مثالوں کا ترجمہ جب اردو میں کیا جاتا ہے تو اس طرح ہوتا ہے کہ ’’کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا‘‘ ایک بڑے استاد نے غزل میں ’’غم‘‘ کا قافیہ ’’بیگم‘‘ باندھا تو کسی ماہرِ لسانیات نے اعتراض کیا کہ ’’بیگم‘‘ ترکی کا لفظ ہے اور اس کا تلفظ ’’بیگُم‘‘ (گاف پر پیش) ہے۔ جواب دیا کہ جب ہم ترکی زبان میں شاعری کریں گے تو اس کا لحاظ رکھیں گے۔
آپ نے ہم پر زبان دانی کے دعوے کا الزام لگاتے ہوئے فرمایا کہ ’’نہیں جانتے کہ سر اٹھانا سرکشی‘ غرور‘ تکبر اور بغاوت کا مفہوم رکھتا ہے‘ سر جھکانا اطاعت اور شرمندگی کے معنی میں آتا ہے۔‘‘ جناب عالی! ہم نے کبھی بھی زبان دانی کا دعویٰ نہیں کیا۔ چوں کہ آپ نے اس کے سوا ہماری کسی تحریر پر نظر نہیں ڈالی ورنہ ہم نے بارہا اعتراف کیا ہے کہ ہم کوئی بابائے اردو نہیں‘ اپنے ساتھیوں کی زبان درست کرنے کی حقیر سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن محترم! سر اٹھانا سرکشی‘ غرور وغیرہ اور سر جھکانا مطلقاًشرمندگی کے معنوں میں ہرگز نہیں آتا۔ غیرت مند قومیں سر اٹھا کر جیتی ہیں۔ ’’سر اٹھانے کی فرصت نہیں‘‘ عام محاورہ ہے۔ شوق قدوائی کا شعر ہے:
کیا کبھی نیت مری کعبہ کے جانے کی نہیں
لیکن اس کے در سے فرصت سر اٹھانے کی نہیں
مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں‘ جہاں تک سر جھکانا شرمندگی کے معنوں میں بتایا ہے تو میر انیس کا شعر سن لیجیے:
یہ تو نہیں کہا کہ شہ مشرقین ہوں
مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسینؓ ہوں
آپ چہرہ اٹھانے کی مثال بھی قرآن کریم سے لائے ہیں۔ میرے بھائی ،جب عرش کو دیکھا جائے گا تو پورا چہرہ اوپر ہوگا اور چہرہ مبارک بھی رسول اکرمؐ کا۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ چہرہ اٹھا کر آسمان کو دیکھ رہے ہوں گے تو انہیں ربِ کریم کا مقام بھی نظر آرہا ہوگا۔ بہرحال یہ علمی بحث ہے۔ آپ نے لکھا ’’آپ کے پیشوا سید مودودی۔‘‘ کاش ایسا ہوتا۔ آپ نے سوچا کہ جسارت کا ملازم ہے تو اس کے پیرو مرشد سید مودودی ہوں گے۔ ہمارے پیر و مرشد تو آپ جیسے اہل علم اور دانشور ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایسی باتوں کے لیے آپ کے پاس وقت ہے نہ یہ آپ کا مزاج ہے۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ آپ نے مسجد کی مثال دی ہے۔ یقیناًاس کی تعمیر کا اصل مقصد نماز کا اہتمام ہے۔ اس کے باوجود مسجدِ نبویؐ سمیت متعدد مساجد کا طرزِ تعمیر‘ کھڑکی‘ دروازوں اور دیواروں کی نقاشی پر ضرور بات ہوتی ہے اور اس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
آپ نے لکھا کہ زبان کی ایسی ہی پاسداری کا خیال ہے تو میڈیا میں ’’آپ‘‘ کی قومی زبان کا جو حلیہ بگاڑا جارہا ہے زرا (ذرا) اس پر بھی قلم فرسائی فرمایئے۔ بہت صحیح توجہ دلائی ہے۔ آپ ایسا کیجیے کہ اسی ادارے کے تحت شائع ہونے والا ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کسی سے مانگ کر پڑھ لیں۔ اس میں ہر ہفتے ہم یہی کام ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے برسوں سے کر رہے ہیں اور اس میں ہماری تصویر بھی شائع نہیں ہوتی۔ یہ ہفت روزہ ویب پر بھی دستیاب ہے۔ ذرا یہ تو فرمائیں کہ کیا یہ اردو زبان صرف ہماری ہے؟ آپ کی قومی زبان کون سی ہے؟ کیا آگرہ والے کوئی اور زبان بولتے ہیں؟ پھر یہ نام نہاد شرفا‘ شریفوں اور رذیلوں کی زبان‘ بیگماتی اور قلعہ معلیٰ کی زبان کے نخرے کہاں سے نکل آئے۔ اب چوں کہ آپ نے یہ کہہ دیا کہ شکوہ اپنوں سے کیا جاتا ہے‘ تو مزید کیا کہیں۔ آپ کے مشورے کے مطابق اس خط میں املا کی غلطیوں کا ذکر آخر میں اور ضمناً کر رہا ہوں۔
پروفیسر صاحب! لیے‘ دیے‘ کیے‘ بھیجیے جیسے حروف پر ہمزہ نہیں آتی۔ یہ لئے‘ دئے وغیرہ پڑھے لکھے لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ سنا ہے آپ تو اردو کے پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ ذرا میں ’’ز‘‘ نہیں ’’ذ‘‘ آتا ہے۔ آپ کا خط حرفاً حرفاً شائع کر دیا ہے۔ بیگماتی زبان کون سی ہے؟ یہ ہمیں نہیں معلوم۔
قلعہ معلیٰ کی زبان پر آپ نے طنز فرمایا ہے۔ ہمیں کب اس کا ادعا ہے۔ لیکن ہر زبان کا یہ دستور ہے کہ کسی ایک علاقے کی زبان مستند سمجھی جاتی ہے۔ قلعہ معلیٰ کی زبان پر طنز کرنے والے کوئنز انگلش اور کنگز انگلش کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ بکھنگم پیلس اور اس کے اطراف کی زبان‘ یعنی قلعہ معلیٰ کی انگریزی مستند سمجھی جاتی ہے۔ یہ تو آپ کو پتا ہی ہوگا کہ ہر زبان مادری یا مدر ٹنگ کہلاتی ہے کیونکہ زبان کا تحفظ خواتین ہی کرتی ہیں‘ مرد تو باہر نکلتے اور بازاری زبان کے الفاظ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ یہ بڑا عجیب فیصلہ ہے کہ نام نہاد شرفا نے زبان کی بنیاد پر عامۃ الناس کا استحصال کیا۔ ڈرتے ڈرتے عرض کردوں کہ طالب یا طالب علم کی جمع طلبا نہیں ہے۔ طلبا‘ طلیب کی جمع ہے اور اس کا مطلب کسی اچھی لغت میں یا اردو کے کسی پروفیسر سے پوچھ لیں۔
ہم ایک بار پھر دوہرائیں گے کہ آپ جیسے بڑے ادیب و شاعر کی زبان کو سند سمجھ لیا جائے گا اس لیے براہ کرم توجہ فرمایئے۔ یہ شعر بالکل بے محل ہے کہ ’’خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے۔‘‘
اس سب کے باوجود آپ کا احتجاج سر آنکھوں پر۔ کبھی بالمشافہ ملاقات ہوگئی تو معذرت بھی کرلوں گا۔ آپ اپنی ہر کتاب کو زبان و بیان کے حوالے سے لغت کی کتاب سمجھ کر ہی نظر ثانی کرلیا کریں۔ بہت شکریہ
(ایک غریبِ شہر)

حصہ