(سیکولرازم۔۔۔ایک تعارف(ڈاکٹر شاہد فریاد

669

کتاب
:
سیکولرازم۔۔۔ایک تعارف
سیکولرازم کی فکری بنیادوں کا ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
مصنف
:
ڈاکٹر شاہد فریاد
صفحات
:
218 قیمت 500 روپے
خصوصی رعایت سے 300 روپے کی ادارہ سے مل سکتی ہے
ناشر
:
کتاب محل۔ دربار مارکیٹ۔ لاہور
فون
:
محمد فہد 0321-8836932
وہ لوگ ہم مسلمانوں میں قابلِ قدر ہیں جو آنے والے دور کی دھندلی تصویر اپنی بصارت اور بصیرت سے دیکھ لیتے ہیں اور امتِ مسلمہ پاکستان کو آگاہ کرنے کے لیے تحریری شکل میں پیش بھی کردیتے ہیں۔ نیک نیتی سے کیے ہوئے کام میں اللہ جل شانہٗ برکت بھی ڈال دیتا ہے اور لوگ اس سے فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔ زیرنظر کتاب ایسی ہی کتاب ہے جس میں ایک دردمند دل نے اپنے قوم کے سامنے سیکولرازم جیسے انسان دشمن نظریے کا تعارف کروایا ہے اور وضاحت سے اس کے تقریباً تمام پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اس کا اسلامی تناظر میں جائزہ بھی لیا ہے۔ ڈاکٹر شاہد فریاد صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’سیکولرازم محض ایک اصطلاح نہیں بلکہ ایک سوچ، فکر، نظریہ اور نظام کا نام ہے۔ اگر اس کے معنی و مفہوم کو متعین کرنے کی بحث کی جائے تو اس ضمن میں جو دشواریاں اور رکاوٹیں سامنے آتی ہیں اس کا سبب ’سیکولرازم‘ کا مختلف ادوار میں ترمیم و تجدید اور تخفیف و تعویل کے مراحل سے گزرنا ہے۔ مغربی مفکروں، دانشوروں، ادیبوں، فلسفیوں اور ماہرینِ عمرانیات کے مابین سیکولرازم کے مباحث میں مختلف النوع افکار و خیالات پائے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیکولرازم کا کوئی ایک رنگ نہیں، یا اس کا کوئی ایک ہی ایڈیشن نہیں۔ یہ کبھی یکسر مذہب کا انکار کرتا ہے اور کبھی جزوی اقرار۔ کلّی سرکشی و بغاوت سیکولرازم کا ایک ڈھنگ ہے تو مذہب کا ذاتی و شخصی معاملہ ہونا اس کا دوسرا ڈھنگ۔ انفرادی سطح پر مذہب کو قبول کرنا اور اجتماعی (معاشی، سیاسی اور ریاستی) سطح پر اسے رد کردینا سیکولرازم کا جدید اسلوب ہے۔ اس کے علاوہ زندگی کو خانوں اور دائروں میں بانٹ کر ’’کچھ قیصر کے لیے اور کچھ کلیسا کے لیے‘‘ مختص کردینا بھی اسی سوچ اور فکر کے نتائج ہیں۔ دراصل ’سیکولرازم‘ مغرب کا تجربہ ہے جسے مغربی معاشروں نے صدیوں کی کشمکش کے بعد اختیار کیا ہے، اور اس نظریے کے فروغ کے لیے انہوں نے جارحانہ پالیسی اپنائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم کا آغاز و انجام مادیت وحسیت ہے۔ مغربی معاشرے ’سیکولرازم‘ کے نتیجے میں مادیت اور حسی لذتوں کے حصول کی جدوجہد کا نمونہ ہیں۔ یہی مادی اور حسی کلچر وہ پوری دنیا میں بزور نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو لفظ ’سیکولر‘ صفت کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس لفظ کا اوّلین استعمال اہلِ روم (Roman Empire) کے ہاں ملتا ہے۔ رومی عہد میں Ludi Saeculares کھیلوں کو کہا جاتا تھا۔ رومی فرماں روا ’اگستس‘(Augustus) نے سترہ قبل مسیح میں سو سال کے اختتام پر کھیلوں کا انعقاد کیا تھا، جو سلطنتِ روما کی پانچویں صدی کے کھیل (Fifth Seaculum of Rome) کہلائے۔
مغرب کا معاشرہ ایک مذہبی معاشرہ تھا، جس میں مذہب، اقدار و روایات کا غلبہ تھا، لیکن آنے والے وقت میں فلسفہ روشن خیالی (Philosophy of Enlightenment) کو مغرب میں فروغ ملا تو اس فلسفہ کے تحت مغربی تہذیب کا میلان رومن تہذیب اور اس کے احیاء کی طرف ہوا جس کی وجہ سے رومن سلطنت کی اقدار و روایات کو معاشرے میں پذیرائی ملی، مسیحی روایات کے مقابلے میں رومن اقدار کو زندہ کرنا اور ان کو اپنانا باعثِ فخر سمجھا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب کی فکری بنیادیں یونانی تہذیب اور فلسفے پر نہیں بلکہ رومن تہذیب و فکر پر رکھی گئی ہیں، اسی لیے لفظ ’سیکولر‘ کو اہلِ مغرب نے اپنے معانی و مطالب میں ڈھال کر رومی افکار و خیالات کو ازسرنو زندہ کرنے کی کوشش کی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب فلسفہ روشن خیالی غالب اور دینی اقدار و روایات مغلوب ہوتی چلی گئیں تو جس طرح دینی اقدار کے حامل معاشرے میں گناہ اور معصیت پر مبنی افعال و اعمال کو قبیح سمجھا جاتا ہے اسی طرح سیکولر معاشرے میں مذہبی روایات اور تعلیمات کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کو حقیر اور کمتر سمجھا جاتا ہے، ان ہر دو پہلوؤں کے اعتبار سے سیکولر کے لفظ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا گیا۔ 1840ء کے بعد برمنگھم کے ایک مدرس ’’جارج جیکب ہولی اوک‘‘ (م۔1906ء) نے سیکولرازم کی تحریک میں جان ڈال دی۔ ہولی اوک نے سیکولرازم کی تحریک کو مؤثر بنانے کے لیے نئی اصطلاحات اور نئے دلائل مرتب کیے، اس نے آزاد خیالی (Freethought) اور دہریت و الحاد (Atheism) کو ’’سیکولرازم‘‘ کے لفظ کے ساتھ متعارف کروایا، اور مغرب و یورپ میں اس تحریک کو پذیرائی ملی، یعنی ’ہولی اوک‘ اس تحریک کا روح رواں بن گیا۔ اس کے علاوہ سیکولرازم کے نظام کو فکری غذا فراہم کرنے میں مغربی مفکرین اور فلاسفر جن میں ڈیکارٹ، بیکن، جان لاک، رچرڈ کابڈن، گلیڈ اسٹون، تھامس پین اور رابرٹ اوون وغیرہم قابلِ ذکر اور اس تحریک کے ہراول دستہ ہیں، انہوں نے وحی کا انکار کرتے ہوئے خالصتاً عقلی اور حسی بنیادوں پر معاشرے کی تشکیلِ نو کی۔ ان کے نظریات کو مغربی سائنس دانوں، سیاسی، معاشرتی، معاشی اور تعلیمی ماہرین نے مزید تقویت پہنچائی۔ اس طرح یورپ و مغرب میں مذہب (مسیحیت) کی گرفت کمزور ہوتی گئی۔ جب ان مذہب بیزار عناصر کے اثرات گہرے ہوتے گئے تو آخرکار مذہب کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا اور اس پر جلتی کا کام ’’انقلابِ فرانس‘‘ نے کیا۔ اس انقلاب نے اہلِ مغرب سمیت دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ انقلابِ فرانس نے ایک نئی دنیا تشکیل دی جو مذہبی روایات سے جدا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نئے نظام کے بعد لوگوں کی اکثریت مادیت اور لادینیت کے رنگ میں رنگی گئی۔ جہاں انقلابِ فرانس نے مذہب کو معاشرے سے رخصت کرنے میں اہم کردار ادا کیا وہاں پر ’مارٹن لوتھر‘ کے نظریات اور افکار نے بھی سیکولرازم کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے مسیحیت میں اصلاح کے نام پر ’تحریکِ اصلاح‘ کا آغاز کیا، اور اس کی تحریک کے باعث مذہب کی بنیادیں مزید کمزور ہوتی چلی گئیں۔ مارٹن لوتھر نے مسیحیت میں موجود بے جا پابندیوں اور ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا، جب کہ اس تحریک سے وابستہ افراد پروٹسٹنٹ کہلائے۔
اس موضوع (سیکولرازم) پر تحقیق کی ضرورت کچھ اس طرح ہے کہ انسانیت کو ’سیکولرازم‘ کا اصل چہرہ دکھایا جائے، یعنی سیکولرازم کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ اس نظریے کو وجود میں لانے کے اغراض و مقاصد کیا تھے؟ اور اس کے دنیا پر کیا اثرات رونما ہوئے؟ اس موضوع کو درج ذیل ابواب اور ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے:
باب اول میں سیکولرازم کی تعریف اور اس کے معنی و مفہوم کی وسعت جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔
باب دوم میں سیکولرازم کا تاریخی پس منظر بیان کیا ہے کہ کس طرح مذہبی معاشرے میں تبدیلی آئی اور اہلِ مغرب کے نظریات بدلے، عقلیت پسندی اور تجربیت پسندی نے مغربی معاشرے کو سیکولر نظام کا حصہ بنایا۔
باب سوم میں سیکولرازم کی فکری اور نظریاتی بنیادیں زیربحث آئی ہیں۔ اس باب میں اُن مفکرین، دانشوروں، فلاسفہ اور ان تحریکوں کا تعارف کروایا گیا ہے جنہوں نے مذہب سے متعلق شک و ریب پیدا کیا اور آخر یورپ و مغرب کے روایتی و مذہبی معاشرے میں سیکولرازم کا غلبہ ہوا۔
باب چہارم میں اسلام اور سیکولرازم کا تقابل اور موازنہ کیا گیا ہے۔
ہم اس کتاب کی اشاعت کرنے پر ’’کتاب محل‘‘ کی ٹیم کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت کی روشنی عطا فرمائے اور فکر و عمل کی گمراہی سے محفوظ رکھے، آمین یارب العالمین‘‘۔
کتاب کے محتویات درج ذیل ہیں:
* باب اول: فصل اول: سیکولرازم ایک تعارف
تمہید، فصل اول: لغوی واصطلاحی معنی، سیکولر۔ فصل دوم: سیکولرازم کا مفہوم، وسعت، دائرہ کار۔ سیکولرازم، سیکولرازم کے مفہوم میں اختلاف کا سبب، سیکولرازم کی اصطلاح کا موجد، سیکولرازم کا مفہوم، لادینی بنانے کا عمل، سیکولر سوسائٹی، سیکولرازم کی وسعت اور دائرۂ کار، معاشرتی نظام، سیاسی نظام، معاشی نظام، تعلیمی نظام، حاصل بحث۔
* باب دوم: سیکولرازم تاریخی تناظر میں
تمہید، فصل اول: یورپ کا روایتی معاشرہ۔ انسانی زندگی میں مذہب کی ضرورت و اہمیت، مذہبی ڈھانچہ، معاشرتی ڈھانچہ، معاشی ڈھانچہ، گلڈ کا نظام، روایتی معاشرہ اور جاگیردارانہ نظام، تعلیمی ڈھانچہ، روایتی معاشرے کا تعلیمی نظام، اخلاقی نظام، روایتی معاشرہ اور جدید سائنسی علوم، مذہب اور سائنس کی راہیں جدا جدا ہیں، حاصل بحث۔ فصل دوم: مذہب اور عقلیت پسندی، عقل اور اس کی حدود/ دائرہ کار، عقلیت پسندی کا عہد، ذی عقل، عقلیت پسندی، ذی عقل بنانے کا عمل، عقلیت پسندی کے خلاف ردعمل، ڈیکارٹ، فلسفہ تشکیک اور ڈیکارٹ، بارخ اسپنوزا، اسپنوزا کے افکار و خیالات، لائیبنز، عقلیت پسندی کے اثرات، عقلیت پسندی اور مذہب، خدا شناسی، عقلیت پسندی اور سیکولرازم، تحریک تنویر، تحریک تنویر اور مذہب، حاصل کلام۔ فصل سوم: مذہب اور تجربیت پسندی، تجربیت پسندی، تجربیت پسندی کا پس منظر، جان لاک، جارج برکلے، تشکیکیت اور برکلے، ڈیوڈہوم، افادیت پسندی، تجربیت پسندی کے اثرات، تجربیت پسندی، عقلیت پسندی اور مابعدالطبیعاتی امور۔ فصل چہارم: مذہب اور سیکولرازم، سیکولرازم میں مذہب کی حیثیت، عیسائیت، اہلِ کلیسا اور سیکولرازم، حاصل بحث۔
* باب سوم: سیکولر ازم اور اس کی نظریاتی بنیادیں۔ تمہید، فصل اوّل: نشاۃ ثانیہ اور اس کے مفکرین، ہیومنزم، نشاۃ ثانیہ کی علمی اور فکری خصوصیات، پیٹراک، جیووانی بو کیسیو، نشاۃ ثانیہ کے اثرات۔ فصل دوم: تحریک اصلاح اور عیسائیت، تحریک اصلاح، پروٹسٹنٹ اور تحریکِ اصلاح، تحریکِ اصلاح کے وجود میں آنے کے اسباب، تحریکِ اصلاح کے اصول و ضوابط، تحریکِ اصلاح اور سیکولرازم، تحریکِ اصلاح کے اثرات۔ فصل سوم: فرانسیسی انقلاب اور اس کے مفکرین، انقلابِ فرانس، انقلاب فرانس اور سیکولرازم، انقلاب فرانس کے مفکرین، والٹیر، روسو، روسو کا مذہب سے متعلق نقطۂ نظر، روسو کا نظریۂ معاشرتی مذہب، انقلاب فرانس کے اثرات و نتائج۔ فصل چہارم: جدید سائنس اور اس کی فکری بنیادیں، جدید سائنس اور اس کا پس منظر، جدید سائنس اور مذہب کی کشمکش، جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے دنیا پر اثرات۔ فصل پنجم: جدید مغربی ماہرین عمرانیات اور سیکولرازم، اگست کومٹے، کومٹے کا مذہب سے متعلق نقطۂ نظر، ڈرخائم، ڈرخائم کا مذہب سے متعلق نقطۂ نظر، میکس ویبر، میکس ویبر کے مذہب سے متعلق نظریات۔ فصل ششم: جدید سیاسی مفکرین اور سیکولرازم۔ نیکولومیکاولی، جین بڈن، جان لاک، جان لاک کا سیاسی فلسفہ، حاصل بحث۔
* باب چہارم: اسلام اور سیکولرازم۔ تمہید، فصل اول: دین اور دنیا کا اسلامی تصور، اسلام دین و دنیا کی بھلائی چاہتا ہے، دنیا کے معاملے میں راہِ اعتدال، دنیا میں انسان کی حیثیت۔ فصل دوم: شریعت اور اس کی موزونیت اور ہمہ گیریت، شریعت کی موزونیت، شریعت کی ہمہ گیریت، شریعت محمدیؐ کی خصوصیات، غیر متبدل شریعت، جامع و کامل شریعت، عملی اور انقلابی شریعت، ابدی اور دائمی شریعت، آخری شریعت۔ فصل سوم: دین اسلام۔ بحیثیت مکمل ضابطہ اخلاق، دین اسلام کا مفہوم، اسلام انفرادی زندگی تک محدود نہیں، مکمل اتباع کی دعوت، اسلام کا معاشرتی نظام، اسلام کا اخلاقی نظام، اسلام کا سیاسی نظام، اسلام کا معاشی نظام، حاصل بحث، مصادر اور مراجع۔
کتاب معلومات افزا اور کاشف الحقائق ہے۔ مجلّد ہے اور خوبصورت سرورق سے آراستہ ہے۔
کتاب محل نے مطالعہ افکارِ مغرب سیریز کے تحت مغرب کے افکار کی وضاحت کے سلسلے میں کتابیں شائع کرنا شروع کی ہیں جن میں درج ذیل کتابیں ہیں جن کا تعارف ان شاء اللہ ہم کرائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔

حصہ