تیر و تفنگ اور تلوار

331

تیر و تفنگ اور تلوار کی جنگوں کے آخری دور کا ذکر ہے کہ دو پڑوسی ملکوں کے مابین پھر جنگ چھڑگئی اور دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے سے چوتھی مرتبہ جنگ آزما ہوگئیں۔ وہ صبح سے رات تک لڑیں، یہاں تک کہ دونوں فوجوں کا صرف ایک ایک سپاہی باقی بچا، جبکہ باقی تمام فوج ایک دوسرے سے لڑکر ختم ہوگئی۔ ان دونوں فوجیوں کے چاروں طرف دونوں ملکوں کے سپاہی خون میں لت پت ہمیشہ کی نیند سو رہے تھے۔ دونوں سپاہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور ایک دوسرے پر پے در پے وار کررہے تھے۔ وہ اتنا تھک گئے تھے کہ ہل بھی نہیں پارہے تھے۔ ان کا دل تو چاہ رہا تھا کہ لڑنے کے بجائے آرام کرلیں، مگر مجبوراً لڑرہے تھے۔ آخر کو ایک سے نہ رہا گیا، وہ دوسرے سے کہنے لگا ’’ہم صبح تک آرام کرلیتے ہیں پھر جنگ کریں گے۔ ہم میں سے کوئی ایک ہی گھر جائے گا‘‘۔ دوسرا فوجی مان گیا۔ انھوں نے اپنی اپنی زرہ بکتر اتاریں جو جنگ لڑتے لڑتے ٹیڑھی ہوگئی تھی، جن پر جابہ جا خون کے دھبے تھے۔ پھر انھوں نے اپنی اپنی تلواریں ایک طرف رکھ دیں اور اپنے ساتھیوں کی لاشوں کے درمیان بیٹھ گئے۔ وہ ایک دوسرے سے صرف چند قدم کے فاصلے پہ تھے۔ وہ ایک دوسرے کی موجودگی سے گھبرائے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کی موجودگی کی وجہ سے انھیں نیند نہیں آرہی تھی۔ ہر طرف مرے ہوئے سپاہیوں کی لاشیں تھیں، ہر طرف ایک گہری خاموشی اور اداسی طاری تھی۔ ایک سپاہی نے دوسرے کی طرف مڑتے ہوئے کہا ’’گاؤں میں میرا ایک بیٹا ہے، اسے لکڑی کی تلوار سے کھیلنا بہت پسند ہے۔ وہ بڑے ہوکر میرے جیسا بننا چاہتا ہے‘‘۔ دوسرے سپاہی نے سنا اور بولا ’’میری ایک بیٹی ہے جو گاؤں میں ہے، میں جب اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی بیوی کی جوانی یاد آجاتی ہے‘‘۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنے خاندان، گاؤں اور پڑوسیوں کی باتیں بتاتے رہے۔ وہ ایک دوسرے کو وہ پرانی کہانیاں سنا رہے تھے جو انھیں ان کے بزرگوں نے اُس وقت سنائی تھیں جب وہ بچے تھے۔ وہ پوری رات ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے رہے۔ صبح کی پہلی کرن نکلنے کے ساتھ ہی وہ آہستہ آہستہ کھڑے ہوئے اور اپنی اپنی زرہ بکتر پہنی اور اپنی اپنی تلوار اٹھالی۔ انھوں نے غور سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا، پھر اپنی اپنی تلوار کو میان میں رکھا اور اپنے اپنے گاؤں کی طرف چل دیے۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خاتمہ ہوگیا اور ان دونوں پڑوسی ملکوں کے مابین پھر کبھی جنگ نہیں ہوئی، دونوں ملکوں کے باشندے سکھ چین سے رہنے لگے، اور دونوں ملک دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگے۔
nn

حصہ