پپیتا

579

پپیتا
(ثمرالملائکہ)
پپیتے کو انگریزی میں پپایا (Papaya)کا نام دیا گیا ہے۔ جنوبی ہند میں اسے اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کو ارنڈ خربوزہ اور ارنڈ ککڑی بھی کہتے ہیں۔ پپیتے کو عربی میں ’’ثمرالملائکہ‘‘کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ فرشتوں سے اس مفید پھل کی کوئی نسبت ہو یا نہ ہو، انسانوں سے بہرحال اس کے تعلقات بڑے خوشگوار ہیں۔ یہ پھل گرم ملکوں میں کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ معتدل آب و ہوا رکھنے والے مقامات پر اسے پھلنے پھولنے کے خوب مواقع میسر آتے ہیں۔
اس کا درخت چار پانچ گز اونچا ہوتا ہے۔ تنے پر شاخیں نہیں ہوتیں۔ چوٹی پر ارنڈ کے پتوں سے ملتے جلتے پتے لگتے ہیں، جس سے درخت چھتری دار ہوجاتاہے۔ پتوں کے نیچے تنے پر پھل لگتے ہیں جو آم سے لے کر خربوزے کے برابر تک ہوتے ہیں اور پھل پپیتا کہلاتا ہے۔
پپیتا کچا ہونے کی حالت میں اوپر سے سبز اور اندر سے سفید ہوتا ہے اور اس میں سفید سفید دودھ یا رطوبت ہوتی ہے، لیکن جب یہ پک جاتا ہے تو اس کی رنگت زرد پڑجاتی ہے۔ اندر سے گودا بھی زرد ہوجاتا ہے اور دودھ یا رطوبت کم ہوجاتی ہے۔
پپیتے کا اصل مقامِ پیدائش برازیل ہے۔ برصغیر میں پرتگیزی اسے اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب یہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، فلپائن اور اطراف کے کئی ممالک میں بکثرت پیدا ہوتا ہے۔ بعض علاقوں کا پپیتا جسامت میں بہت بڑا اور ذائقے میں نہایت شیریں ہوتا ہے اور اس میں بیج بھی چند ہی برآمد ہوتے ہیں۔
پکے ہوئے پھل میں اہم غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں اور بعض ایسی رطوبتیں بھی، جو پورے نظامِ ہضم پر خوشگوار اثرڈالتی ہیں۔ پپیتے میں لحمیات، نشاستہ، چکنائی، معدنیات کے علاوہ حیاتین الف، ب اور ج بھی موجود ہوتے ہیں۔
پپیتے کا شمار پھلوں کے ساتھ سبزی میں بھی ہوتاہے۔ یہ بدن کو غذائیت دیتا اور اس کی پرورش کرتا ہے۔ ہاضم ہے اور قبض کو دور کرتا ہے۔ معدہ، جگر اور تلی کے مریضوں کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔ پپیتا پیشاب آور بھی ہے اور گردوں اور مثانہ کی پتھری توڑنے میں مدد دیتا ہے۔اس میں حیاتین ای پایا جاتا ہے۔ یہ گوشت کو گلاتا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر رکھ چھوڑتے ہیں اور گوشت پکاتے وقت ان کا سفوف بنا کر ڈالتے ہیں۔
پپیتا کچی حالت میں بھی کئی کاموں میں لایا جاتا ہے۔ کچا پپیتا یا اس کا دودھ سخت گوشت کو گلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کچے پپیتے کا اچار اور چٹنی بھی بنائی جاتی ہے۔ یہ تلی کے ورم یا اس کے بڑھ جانے میں خاص طور پر مفید ہوتا ہے۔ اس غرض سے کچے پپیتے کے ٹکڑے سرکہ میں بھگو کر رکھے جاتے ہیں اور روزانہ ایک تولہ کے قریب کھلائے جاتے ہیں۔ پیٹ کے کیڑوں کو ہلاک کرنے میں بھی اس سے مدد لی جاتی ہے۔ اس کے دودھ سے داد کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ کچے پپیتے کے دودھ کو داد کے مقام پر لگانے سے وہاں زخم ہوجاتا ہے، جب زخم ٹھیک ہوتا ہے تو داد بھی ٹھیک ہوجاتا ہے۔ تاہم بہت چھوٹے بچوں یا نازک مزاج لوگوں کے لیے یہ علاج مناسب نہیں ہے کیونکہ زخم کی اپنی تکلیف بھی برداشت کرنی ہوتی ہے۔ دیہات میں لوگ کچے پپیتے کے دودھ کو بچھو کے کاٹے پر لگاتے ہیں جس سے تکلیف رفع ہوجاتی ہے۔ کچے پپیتے کے دودھ سے ایک جوہر نکالا جاتا ہے جس کا نام ’’پے پین‘‘ ہے۔ یہ جوہر سفید دانے دار سفوف کی شکل میں ہوتا ہے۔ فوائد میں یہ ’’پیپسین‘‘ سے مشابہ ہے۔ نظام ہاضمہ کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ ’’پیپسین‘‘ سور، بھیڑیے و بچھڑے کے معدے کی جھلی سے تیار کی جاتی ہے اور چونکہ مغربی ممالک سے ہمارے یہاں درآمد کی جاتی ہے اس لیے یہ اعتبار کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ اس میں سور کا جزو نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ شرعی طور پر محتاط معالجین ایسی دوائیں تجویز کرنا پسند کرتے ہیں جن میں ’’پیپسین‘‘کی جگہ پے پین شامل کیاگیا ہو۔ ہمارے ملک میں تیار ہونے والی ہاضم دواؤں کے اجزائے ترکیبی پر نظر ڈالی جائے تو ان میں ’’پیپسین‘‘ بھی نظر آجاتی ہے، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی دوائیں تجویز کی جائیں جن میں پے پین شامل ہے۔
’’پے پین‘‘ اور ’’پیپسین‘‘ کے فوائد تقریباً یکساں ہیں، مثلاً معدے کو طاقت دینا، معدے میں طاقت اور معدے میں پیدا ہونے والی ہاضم رطوبتوں کی مقدار کو بڑھانا۔ بڑی عمر کے افراد میں ایسی رطوبتوں کی کمی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے لحمیات (پروٹین) والی غذائیں ہضم کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ پے پین ایسی غذاؤں کے ہضم ہونے میں مدد دیتی ہے۔ اس سے پیٹ کے کیڑے خارج کرنے والی دوائیں بھی تیار کی جاتی ہیں۔ پپیتا خواتین کے لیے بھی مفید ہے لیکن حمل کے دوران اسے بہت زیادہ مقدار میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، خصوصاً کچا پپیتا تو بالکل نہیں لینا چاہیے۔
پپیتا تلی کو صحیح حالت میں لانے کے لیے ایک نہایت مفید دوا ہے۔ اس مقصد کے لیے پکا ہوا پپیتا بھی کھاتے ہیں اور کچا بھی۔ کچے پپیتے کے ٹکڑے کاٹ کر سرکے میں ڈال دیئے جائیں۔ آٹھ دس دن کے بعد ایک دو ٹکڑے روزانہ کھالیں۔
پپیتے کی دودھیا رطوبت بھی اعلیٰ درجے کی ہاضم ہے۔ اس کا چھلکا چھیلنے سے جو رطوبت نکلے اس کو ایک گاڑھے کپڑے پر لگاتے رہیں۔ خشک ہوکر سفید سفوف اوپر رہ جائے گا، اسے رکھ لیں۔ یہ سفوف آدھی رتی سے ایک رتی تھوڑی شکر ملا کر کھانا کھانے کے بعد کھائیں۔ کھانا خوب ہضم ہوگا اور بھوک لگے گی۔
کچے اور نیم پختہ پپیتے میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ یہ رحم کے پٹھوں کو سکیڑ کر اپنے مقام پر لانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ پھل حیض اور ماہواری میں باقاعدگی پیدا کرنے کے لیے بھی خصوصیت سے مفید اثرات رکھتا ہے۔ سردی کی وجہ سے نوعمر خواتین کا حیض خوف کی وجہ سے رک گیا ہو تو خام پپیتے سے حیض کی رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے اور ایام میں باقاعدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لیے خواتین کو اس کو استعمال کرکے ان عوارض سے محفوظ رہنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
یہ پھل ملین خصوصیات کا حامل ہے۔ بعض علامات میں بسا اوقات ملین ادویات استعمال کرانا خلافِ مصلحت باور کیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قبض کا خاتمہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں پپیتا ہی واحد پھل ہے جسے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے استعمال کرایا جاسکتا ہے۔
غیر متوازن غذاؤں کے متواتر استعمال سے غذائیت کی کمی ہوجاتی ہے جس کی وجہ اور کثرتِ شراب نوشی کی بنا پر جگر سکڑنے لگتا ہے۔ اس عارضے کو طبی اصطلاح میں تعلب کبد کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس صورت میں جگر اپنے افعال منظم طریقے سے انجام دینے کے قابل نہیں رہتا۔ اس تکلیف دہ مرض کا علاج پپیتے کے بیجوں سے کیا جاتا ہے۔ پپیتے کے بیجوں کو رگڑ کچل کر ان کا رس حاصل کرلیا جائے اور کھانے کا ایک چمچ یہ جوس لے کر اس میں تازہ لیمو کا جوس دس قطرے ملا کر ایک مہینے تک روزانہ ایک یا دو بار استعمال کرنے سے تعلب کبد کی یہ بیماری اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔
nn

حصہ