(دہشت گردی کا خاتمہ۔۔۔ مگر کیسے! (محمد طفیل/ سانگھڑ

239

جناب محمد نوازشریف صاحب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان! آپ آئے دن بڑے دھڑلے سے یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، اور دہشت گرد ہیں کہ آپ کا اعلان سنتے ہی جب اور جہاں چاہتے ہیں دھماکا کردیتے ہیں اور سیکڑوں بے گناہوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں، اور پھر آپ کا بیان آتا ہے کہ آخری دہشت گرد تک اس کا پیچھا کریں گے۔ وزیراعظم صاحب قوم کو ذرا یہ بھی بتائیں کہ یہ دہشت گردی کا عفریت ملک میں کب، کیسے اور کیوں آیا؟ سچ ذرا کڑوا ہوتا ہے مگر سچ یہی ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کی پنیری لگانے والے ہمارے حکمران ہی ہیں۔ ذرا پرویزمشرف دور کا جائزہ لیں۔ عالمی دہشت گرد امریکہ کے اس پلے نے جس طرح ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کانعرہ لگاکر اس خطے میں دہشت گردی پھیلائی اب اس کے نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے اور اُس وقت تک بھگتتی رہے گی جب تک آپ لوگ امریکی دہشت گردی کا پٹہ اپنے گلے سے نکال نہیں لیتے۔ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ 5 فروری یوم یکجہتی کشمیرکے موقع پر آپ نے عالمی دہشت گرد اور اس کے پٹھو بھارت کے ایک اشارۂ ابرو پر اپنے ملک کے محبِ وطن، بے لوث خدمت گزار حافظ محمد سعید کو پابندِ سلاسل کردیا، اس سے یکجہتی کشمیر کے حوالے سے آپ کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ عالمی دہشت گرد امریکہ سے آپ اس قدر مرعوب ہیں کہ قوم کی عظیم مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی کے لیے ایک خط نہیں لکھ سکے، اور پھر آپ دہشت گردی کے ختم کرنے کا اعلان کریں یہ ناممکن ہے۔ لہٰذا اگر آپ واقعی ملک سے دہشت گردی ختم کرنا چاہتے ہیں تو فوراً اپنے آقا امریکہ سے کہیں کہ وہ اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے اور وہاں کے لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے حکمران منتخب کرنے کا موقع دے۔ اگر آپ نے ایسا کرلیا تو ان شاء اللہ بہت جلد پورے خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وگرنہ جتنے چاہے ضربِ عضب اور ردالفساد آپریشن کرلیں دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔
محمد طفیل/ سانگھڑ

سندھ : خراب طرز حکمرانی
اطلاعات مظہر ہیں کہ تھر میں صرف ماہِ فروری میں 18 بچے لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور یہ المناک سلسلہ مزید جاری رہنے کا شدید خطرہ ۔ گزشتہ چار برس میں تھر کے 2250 معصوم بچے محض خوراک کی قلت اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ کیا اتنی بڑی تعداد میں پھول جیسے معصوم بچوں کی ہلاکتیں ہمارے حکمران طبقے کے درِ دل پر دستک دینے اور اُن کے جذبۂ انسانیت کو بیدار کرنے اور جھنجوڑنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ معمولی امراض کی شکایت پر بھی بیرونِ ملک جاکر علاج کروانے والے پی پی اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کو کیا یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ وہ ہمیشہ اسی طرح سے زندہ سلامت اور برسراقتدار رہ کر غریب اہلِ وطن کا استحصال اور استیصال کرتے رہیں گے اور سرکاری ٹیکسوں کی رقومات سے اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا برطانیہ اور امریکہ کے مہنگے ترین اسپتالوں میں مفت علاج کراتے رہیں گے؟ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے حواریوں کو عوامی مسائل و مصائب کو حل کرنے سے کہیں زیادہ اپنی تجوریاں بھرنے سے غرض ہے۔
تھر میں قحط سالی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ انگریزوں کے عہدِ حکومت میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خوراک اور پانی کی قلت ہوجایا کرتی تھی، لیکن ’’کافر‘‘ انگریز تھر کے انسانوں اور جانوروں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے خاطر خواہ پیشگی منصوبہ بندی کرکے بڑی تعداد میں انسانی جانیں بچانے میں کامیاب ہوجایا کرتے تھے، نیز جانوروں کی خوراک کی کمی دور کرنے کے لیے بیرونِ علاقہ سے چارہ منگوایا جاتا تھا۔ لیکن اس جدید اور ترقی یافتہ سائنسی دور میں ہمارے حکمران ٹولے کی بے حسی اور سنگ دلی کے باعث تھر کے معصوم بچے اپنی جانیں ہار رہے ہیں۔ عوام کو جان و مال کے حوالے سے تحفظ فراہم کرنا اور طبی سہولیات دینا حکومتِ وقت کا فریضہ ہوتا ہے، لیکن اگر آج سندھ کے ایک عام فرد سے رائے لی جائے تو وہ برملا یہ کہہ اٹھتا ہے کہ ’’حکومت ہے کہاں؟‘‘
گزشتہ دنوں حکومتِ سندھ نے قدیم آثار قدیمہ ’’موئن جودڑو‘‘ کو بچانے کے لیے ایک کئی روزہ سیمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں بیرونِ ملک سے بھی ماہرینِ آثارِ قدیمہ منگوائے گئے تھے، اور ’’موئن جودڑو‘‘ میں ہونے والے مذکورہ سیمینار میں ملک اور بیرونِ ملک سے شرکت کرنے والے ان ماہرین نے ’’موئن جودڑو‘‘ کے آثاروں کو بچانے کے لیے اپنی اپنی تجاویز پیش کی تھیں۔ کیا یہ ایک بہت بڑا المیہ اور ستم ظریفی کی انتہا نہیں ہے کہ سندھ کی ایک بڑی زندہ آبادی صاف پانی، خوراک اور طبی سہولیات سے یکسر محروم ہے اور ہمارے سنگ دل حکمران بجائے اہلِ صوبہ کے مسائل کے خاتمے کے ’’موئن جودڑو‘‘ کے قدیم آثار کو بچانے کے لیے ان پر کروڑوں روپے صرف کررہے ہیں درآں حالیکہ امر واقع تو یہ ہے کہ بقول سندھی اخبارات کے معروف کالم نگاروں کے ’’موئن جودڑو تو پھر بھی باوجود 5 ہزار سال پیشتر تعمیر ہونے اور پھر اجڑنے کے، آج بھی موجودہ صوبہ سندھ سے اپنی ٹاؤن پلاننگ میں بہت بہتر دکھائی دیتا ہے، ہمارے حکمرانوں نے تو سندھ کی موجودہ حالتِ زار ’’موئن جودڑو‘‘ کے قدیم آثار سے بھی کہیں بدتر بناڈالی ہے۔‘‘
تھر تو میڈیا کے سبب فوکس بنا ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی تا کشمور اہلِ سندھ بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہیں۔ اور تو اور انہیں پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ سندھ کی اسی حالتِ زار کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے یہ ریمارکس ہیں کہ ’’سندھ میں عوام کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے، یہاں لوگ زندہ کیسے ہیں؟‘‘
سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر جو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا بھی آبائی مسکن ہے بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہے اور اس کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کے لیے قصاب بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ سکھر اورلاڑکانہ کو تو ماڈل اضلاع ہونا چاہیے تھا، تاہم صورت حال اس کے برعکس ہے۔ لاڑکانہ کے سرکاری اسپتالوں میں بھی سندھ اور بلوچستان سے آنے والے مریضوں کو بجائے طبی سہولیات کے دھکے اور گالیاں تک ڈاکٹروں سے سننے کو ملتی ہیں، اور یہ سب کچھ آئے روز سندھی میڈیا کے توسط سے سامنے آتا رہتا ہے، لیکن پی پی کے منتخب عوامی نمائندے ہیں کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سندھ کے ایک ضلع میں تو نوبت بہ ایں جارسد کہ 20 خاکروب بھرتی کیے گئے جو بعد ازاں 18 ویں گریڈ میں افسر بن گئے۔ اسی طرح ضلع گھوٹکی کے ایک سرکاری اسپتال میں جس کا سالانہ بجٹ 6کروڑ روپے ہے، 64 افراد صرف ایک ہی برادری کے بھرتی کردہ ہیں اور مریضوں پر ایک روپیہ تک خرچ نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے بھی معزز جج صاحب کو یہ فرمانا پڑا کہ ’’کیا حکومتِ سندھ اپنے عوام سے نفرت کرتی ہے؟‘‘
۔۔۔مجاہد چنا۔۔۔

حصہ