6 بارصدارتی انعام یافتہ علمی اور ادبی شخصیت(محمد طارق تنولی)۔۔۔ جیکب آباد

278

سندھ کے قدیم اور تاریخی شہر لاڑکانہ کی ایک اہم وجۂ شہرت یہاں کا بھٹو خاندان اور اس سے وابستہ سیاسی حوالہ ہے۔ اس نسبت نے اس شہرِ ’’بے نظیر‘‘ کے دیگر کئی قابلِ ذکر اور لائقِ توجہ پہلوؤں کو قدرے دھندلا دیا ہے۔ وگرنہ اسی شہر میں سندھ کا مشہور و معروف تعلیمی اور طبی ادارہ چانڈکا میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) اور اسپتال بھی ہے جس کی وجہ سے اس شہر کو ڈاکٹروں کا شہر بھی گردانا جاتا ہے۔ اسی شہر کے نواح میں ’’موہن جودڑو‘‘ کے شہرۂ آفاق آثارِ قدیمہ سے ذرا فاصلے پر علم و ادب اور تعلیم کی ایک مایہ ناز درس گاہ کیڈٹ کالج لاڑکانہ بھی واقع ہے جس نے اپنے سابق بانی پرنسپل پروفیسر شیخ محمد یوسف جیسی قدآور علمی اور ادبی شخصیت اور حد درجہ متحرک و فعال منتظم کی زیر قیادت مسلح افواج سمیت ہر شعبۂ حیات میں باقاعدہ طور پر تربیت یافتہ اور صحیح معنوں میں پڑھے لکھے افرادِ کار کی ایک ایسی بڑی کھیپ مہیا کرکے دی ہے جو ملک و قوم کی اپنے اپنے شعبے میں تندہی کے ساتھ خدمت سرانجام دینے میں مصروف ہے۔ اس فوجی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ نے معتدبہ تعداد میں پاک فوج میں شمولیت کے بعد ملک و قوم کے لیے اپنے خون کا نذرانہ تک پیش کیا ہے، جن میں ’’شہیدِ سلالہ‘‘ میجر مجاہد میرانی کا نام نامی سرفہرست ہے۔ اور ہاں، اسی لاڑکانہ شہر کے سرہو محلہ کے ایک گھر کے سادہ اطوار مگر علم و فضل میں یکتا ایک مکین، 6 بار اپنی تصانیف پر صدارتی انعام یافتہ 92 سالہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالہادی سرہو بھی ہیں جنہوں نے اپنی ساری حیاتِ مستعار تعلیم و تعلم کو فروغ دیتے ہوئے گزار دی ہے اور جو علم و ادب کے میدان میں اپنی نمایاں اور شاندار خدمات کے باعث لاڑکانہ کا ایک قابلِ فخر حوالہ اور نمایاں شناخت بن چکے ہیں۔ سرہو صاحب اس عالمِ پیری میں بھی اور اپنی ایک ٹانگ کے عملِ جراحی کے مرحلے سے گزرنے کے باوصف اب بھی پہلے کی طرح علمی اور ادبی میدان میں فعال اور متحرک ہیں اور اس وقت ’’لغت القرآن‘‘ کے موضوع پر سندھی اور انگریزی زبان میں تحقیقی کام کررہے ہیں، گویا ڈاکٹر صاحب موصوف نے علامہ اقبالؒ کے اس شعر کو حرزِ جاں بنالیا ہے کہ
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں
12 جولائی 1928ء کو لاڑکانہ کے کپڑوں کے ایک بڑے تاجر سیٹھ عبدالغفور مرحوم کے گھر جنم لینے والے نومولود کا نام تو باغ علی رکھا گیا تھا لیکن اسکول کے ریکارڈ میں بوقتِ داخلہ اسے تبدیل کرکے اس بچے کے نام کا اندراج عبدالہادی سرہیو کے نام سے کرایا گیا، اور پھر یہی نام تعلیمی، ادبی اور علمی دنیا میں بڑی شہرت کا حامل قرار پایا۔ عبدالہادی سرہیو نے اپنے محلہ کی مسجد سے ناظرہ قرآن مجید پڑھا اور چند سپارے بھی حفظ کیے۔ پرائمری کی تعلیم گورنمنٹ پرائمری شاہ محمد اسکول لاڑکانہ سے حاصل کی۔ میٹرک 1944ء میں میونسپل ہائی اسکول لاڑکانہ اور انٹر کا امتحان 1946ء میں سی اینڈ ایس کالج شکارپور کے ہاسٹل میں رہتے ہوئے بمبئی یونیورسٹی کے زیراہتمام پاس کیا۔ انہوں نے بعد ازاں 1948ء میں ہارون گوٹھ باقرانی لاڑکانہ میں واقع حفاظ کرام کے مدرسہ سے باقاعدہ طور پر قرآن پاک حفظ کیا۔ 1948ء میں سرہیو صاحب نے ایس ایم کالج کراچی سے بی۔ اے کا امتحان سندھ یونیورسٹی کے زیراہتمام پاس کیا۔ جس کے بعد انہوں نے ایم۔ اے عربی فرسٹ کلاس میں کرنے کے بعد فارسی اور مولوی اور عالم فاضل عربی کے امتحانات بھی ٹیچنگ کے ایک امیدوار کے طور پر پاس کیے۔
سرہیو صاحب نے اپنا پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ بہ عنوان “Ethical Teaching of Holy Quran” اپنے دور کی نامور علمی اور ادبی شخصیات ڈاکٹرہالیپوتو اور علامہ مولانا غلام مصطفی قاسمی کی زیرنگرانی مکمل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ جن کی علمیت اور قابلیت، نیز رعب دار شخصیت کا انہوں نے گہرا اثر قبول کیا جس کا تذکرہ وہ اب بھی کیا کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت کا باقاعدہ آغاز1951ء میں گورنمنٹ ٹریننگ کالج مٹھیانی ضلع نوشہرو فیروز سے کیا، جہاں وہ فارسی پڑھانے کے لیے مامور ہوئے تھے۔ 1953ء میں کراچی سے B.T کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہیں گورنمنٹ ٹریننگ کالج لاڑکانہ میں فارسی زبان کے لیکچرر کے طور پر تعینات کیا گیا۔ اب تو ہمارے ہاں کالجوں میں فارسی اور عربی کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ متروک ہوگیاہے اور انہیں لبرل اور روشن خیال حکمران طبقے نے اپنی طرف سے تقریباً ’’خارج البلد‘‘کردیا ہے۔ اس ’’نئی روشنی‘‘ سے قبل لیکن اُس زمانے میں ان دینی، تہذیبی اور علمی سرمائے سے مالامال زبانوں اور ان کے اساتذہ کرام کی بڑی ضرورت ، اہمیت اور وقعت ہوا کرتی تھی۔ بہرکیف سرہیو صاحب کئی دہائیوں تک علم و ادب کے چراغ روشن کرتے رہنے کے بعد بالآخر 11 جولائی 1988ء کو اپنی مدت ملازمت پوری کرکے گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج لاڑکانہ سے ریٹائر ہوگئے، اور اس طرح ان کی زندگی کا ایک اہم ترین دور بحسن وخوبی تکمیل کو پہنچا۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالہادی سرہیو اردو، سندھی، عربی، فارسی اور انگریزی زبان پر یکساں دسترس رکھتے ہیں۔ ان کے بلامبالغہ سینکڑوں شاگرد ملک اور بیرونِ ملک مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک خاص تعداد مختلف تعلیمی اداروں میں پیشۂ تعلیم سے بھی وابستہ ہے۔ اب تو ان کے شاگردوں کے بھی شاگرد سلسلۂ تعلیم و تعلم سے منسلک ہوکر علم کی شمعیں فروزاں کرنے میں مصروف ہیں۔ گویا اس طرح سے سرہیو صاحب بجا طور پر ’’استاذ الاساتذہ‘‘ کے لقب کے سزاوار قرار پاتے ہیں۔ موصوف شروع ہی سے مطالعے کے بے حد شائق تھے اور ان کی عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ اس ’’دشت کی سیّاحی‘‘ میں بیت چکا ہے۔ انہوں نے بطور ادیب، شاعر اور محقق اپنے کام کی بدولت بڑی نیک نامی اور شہرت کمائی ہے۔ ان کی تاحال مختلف دینی، علمی، ادبی اور اصلاحی موضوعات پر سندھی، اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبان میں 40 سے زائد کتب اشاعت پذیر ہوکر سندِ پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ سرہیو صاحب کی اولین تصنیف ’’نصیحت نامہ‘‘ کے عنوان سے 1970ء میں منصۂ شہود پر آئی تھی اور پھر چل سو چل۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کی حسب ذیل کتب کو صدارتی انعام یافتہ قرار دیا جاچکا ہے:
ان کی تحریر کردہ چند دیگر معروف کتب کے نام یہ ہیں:
(1) اسرار نامہ
(2) قانونِ اسلام
(3) جگ سدھار صلی اللہ علیہ وسلم
(4) ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم(اردو)
(5) سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم (عربی)
(6) مکی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
(7) اسوۂ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم
(8)”The great Revolution of Prophet (P.B.U.H) of
(9 ) بارن جو ادب
(10) تحریک پاکستان
انہیں اپنی تصنیفات پر ’’پاکستان رائٹرز‘‘ لاہور، ’’سندھ یونیورسٹی‘‘ جامشورو، ’’سیرت کانفرنس‘‘ اسلام آباد، ’’وزارت تعلیم‘‘ اسلام آباد، ’’وزارت مذہبی امور‘‘ اسلام آباد اور ’’سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ‘‘ جامشورو کی جانب سے بھی اعزازات اور انعامات سے نوازا جاچکا ہے۔ لیکن سب سے بڑا اعزاز اور انعام تو جس کا اوپر بھی ذکر ہوچکا، درحقیقت ان کے وہ بے شمار شاگرد ہیں جو ہر شعبے میں اپنے اپنے انداز اور طریقے سے ملک و قوم کی خدمت بجا لانے میں مصروف ہیں۔ یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔ ڈاکٹر سرہیو طبعاً اور مزاجاً ایک سادہ اطوار، مخلص اور ملنسارشخصیت ہیں۔ حق اور سچ بات منہ پر کہہ دینے کے خوگر ہیں۔ عالموں، ادیبوں اور شاعروں کے قدردان واقع ہوئے ہیں۔ نوآموز لکھنے والوں کی ہمت اور حوصلہ افزائی میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ اس پیرانہ سالی میں بھی ان کا بیشتر وقت حسب سابق علمی اور ادبی امور کی انجام دہی میں ہی صرف ہوتا ہے۔ جب ان سے پسندیدہ شعراء اور مصنفین کے بارے میں دریافت کیا گیا تو موصوف کا جواب کچھ یوں تھا
’’میں نے شاعروں اور ادیبوں کا باہم موازنہ کبھی نہیں کیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر سے میرا دوستی اور خلوص و محبت کا رشتہ استوار ہے۔ بعض سے باہمی خط کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ میری نظر میں بہتر ادیب اور شاعر وہ ہے جو حق اور سچ بات کی پاسداری کرے اور بدی یا برائی کو ختم کرنے میں اپنا مثبت کردار سرانجام دے۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر عبدالہادی سرہیو کو اپنے اساتذہ کرام میں سے غلام حسین عباسی مرحوم اور محمد ہارون تنیو کا مشفقانہ انداز اور پڑھانے کا طریقہ بے حد پسند تھا۔
پسندیدہ کتاب: کلام پاک، سنتؐ اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کتب۔
سچ تو یہ ہے کہ اس دورِ قحط الرجال میں ڈاکٹر صاحب موصوف جیسی علمی اور ادبی شخصیت کا دم غنیمت بلکہ بسا غنیمت ہے۔ انہی جیسے علم و عمل کے معدودے چند روشن چراغوں نے ہمارے معاشرے میں بتدریج بڑھتی ہوئی تاریکی اور اندھیرے کو پورے طور سے چھا جانے سے روک رکھا ہے۔
اللہ پاک انہیں تادیر سلامت رکھے۔ آمین
nn

حصہ