(کرپشن کے خلاف صدر کا وعظ (سید تاثیر مصطفی

185

دھیمے مزاج کی شہرت رکھنے والے اور دھیمے لہجے میں گفتگو کے عادی صدر ممنون حسین پہلی بار اس انداز میں بولے ہیں کہ اسے ادب اور احتیاط کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی ’’چھپر پھاڑ کر بولنے‘‘ ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ان کا لب و لہجہ بتارہا ہے کہ بہت عرصے سے ضبط اور انتظار کرنے کی پالیسی پر گامزن تھے مگر اب مجبوراً پھٹ پڑے ہیں۔
صدرِ مملکت کی یہ گفتگو ایسے موقع اور حالات میں سامنے آئی ہے جب وفاقی حکومت پاناما کیس میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ پنجاب میں جاری فوج اور رینجرز کا آپریشن پنجاب حکومت کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ خیبر پختون خوا اسمبلی پنجاب میں پختونوں کی گرفتاریوں کے خلاف متفقہ قراردادیں منظور کررہی ہے اور یہ صوبہ پنجاب کی بجلی بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر پیپلزپارٹی پارلیمانی مشاورتی اجلاسوں کے بائیکاٹ پر ہے، اور جن سیاسی جماعتوں نے توسیع سے اتفاق کیا ہے وہ اجلاس کے بعد بھانت بھانت کی بولیاں بول رہی ہیں، جبکہ بلاول بھٹو زرداری پاناما کیس کے فیصلے کے بعد نئی حکمت عملی کا اعلان کرنے جارہے ہیں۔
ایک طرف یہ حالات ہیں اور دوسری جانب صدرِ مملکت دوٹوک انداز میں کہہ رہے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے کرپٹ افراد کا بلاتفریق محاسبہ کرنا ہوگا۔ صدرِ مملکت ایک جانب محاسبے کی بات کررہے ہیں اور دوسری جانب بلاتفریق محاسبے پر زور دے رہے ہیں، جبکہ موجودہ حکومت پر الزام ہی یہ ہے کہ وہ نہ تو کرپٹ افراد کا محاسبہ کررہی ہے اور نہ ہی بلاتفریق محاسبے کا اہتمام کرتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں الزام لگاتی ہیں کہ صدر ممنون حسین کی جماعت کی حکومت اگر کسی کا محاسبہ کرتی ہے تو وہ یا تو انتقام پر مبنی ہوتا ہے یا پھر سودے بازی کے لیے ہوتا ہے۔
صدر ممنون حسین نے ایوانِ صدر میں ہونے والی ایک تقریب میں جو کچھ کہا وہ قوم کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے، ساتھ ہی یہ حکومت کے لیے انتباہ بھی ہے۔ ان کی اس تقریر میں کرپشن کے مافیا اور اُس کے نیٹ ورک کی موجودگی اور اس کی طاقت کی جانب بھی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے اور محاسبے کے طریقے بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ جبکہ تقریر میں عدالتوں پر تنقید بھی ہے اور صدرِ مملکت نے اپنی بے بسی کا بھی اعتراف کیا ہے۔
صدر ممنون حسین نے جو کچھ کہا اور یاد رہے کہ یہ سب کچھ انہوں نے ایوانِ صدر میں کہا، وہ سو فیصد درست ہے، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، اور مملکت کے آئینی سربراہ سے کسی غیر ذمہ داری کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ صدر کا مزاج اور ماضی بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ باتیں دوسرے بہت سے لو گ ایک عرصے سے کررہے ہیں لیکن صدر جیسے ذمہ دار اور حقیقتاً شریف النفس شخص کی زبان سے ان باتوں کا آنا کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ صدر قوم کا درد بھی رکھتے ہیں اور اپنی پارٹی اور اس کی قیادت کے خیرخواہ بھی ہیں۔ اس لیے ان کی گفتگو نظرانداز کرنے والی نہیں ہے بلکہ ہر اعتبار سے قابلِ غور اور قابلِ تشویش ہے۔
صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں جو شخص جتنا کرپٹ اور بدعنوان ہوگا وہی لمبی لمبی تقریریں کرتا پھرے گا۔ صدر نے اس بات میں ایک خاص نفسیاتی رجحان کی بات کی ہے جس کا آغاز پاکستان میں 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی دور میں ہوا۔ اور شریف برادران، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے ادوار میں یہ تیزی سے آگے بڑھتا رہا۔ پہلے کرپٹ اور بدعنوان شخص خاموش رہتا تھا۔ وہ معاشرتی نفرت اور حقارت کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا، اس کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کی بدعنوانی اورکرپشن چھپی رہے، لوگوں کو اس کا علم نہ ہو۔ لیکن بھٹو دور اور بعد کے ادوار میں کرپٹ اور بدعنوان افراد اپنی کرپشن پر فخر کرنے لگے۔ وہ اس کا جگہ جگہ اظہار کرنے لگے۔ ان کا رہن سن، وضع قطع، لباس، پوشاک، کوٹھیاں، گاڑیاں اور اندازِ زندگی چیخ چیخ کر بتانے لگا کہ ان کے پاس ان کے معلوم اور جائز ذرائع کی دولت کثیر مقدا رمیں موجود ہے جس کی نمائش سے وہ خوفزدہ بھی نہیں۔ پھر آہستہ آہستہ پورا معاشرہ ان کرپٹ افراد کی شان و شوکت اور کوٹھیوں، کاروں سے متاثر ہونے لگا۔ عام لوگوں کی خواہش ہونے لگی کہ ان کے ساتھ تعلقات اور دوستی ہو۔ ان سے رشتہ داریاں بنیں۔ چنانچہ ان سے فیصلے کرائے جانے لگے۔ یہ کرپٹ لوگ سرپنچ ہوگئے۔ یہی لوگ یا ان کے بال بچے سیاست میں لوٹے ہوئے پیسے کی بدولت داخل ہوئے اور اسی بنیاد پر چھا گئے۔ یہ معاملہ آج انتہا کو پہنچ چکا ہے۔
صدر نے انتہائی غصے میں کہا کہ ان کرپٹ لوگوں کو کوئی شرم ہوتی ہے نہ حیا ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام اداروں کے اندر افسران کو کرپشن اور حرام خوری کی عادت ہوچکیہے۔ یعنی اب اس لعنت سے کوئی محکمہ بھی بچا ہوا نہیں ہے اور افسر اب کرپشن اور حرام خوری ایک معمول کی عادت اور کارروائی کے طور پر کردیتے ہیں۔ صدر نے اس موقع پر اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر ایک اہم بات کی کہ کرپٹ افسران نے ایسا نیٹ ورک بنایا ہوا ہے کہ وہ نظام کو کسی بھی صورت ٹھیک ہونے نہیں دیتا۔ یعنی یہ افسران، لوٹ مار انفرادی سطح پر ہی نہیں کررہے بلکہ تمام کرپٹ افسران نے مل کر ایک نیٹ ورک بنالیا ہے جو اتنا مضبوط ہے کہ پورے نظام ہی کو ٹھیک نہیں ہونے دیتا، یعنی اگر کبھی نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کسی سطح سے کی جاتی ہے تو یہ مضبوط نیٹ ورک اسے ناکام بنادیتا ہے۔
صدر نے کرپشن مافیا اور کرپٹ نیٹ ورک کی ایک وجہ بھی بتائی کہ ہمارے ہاں حق لینے کے لیے اب سفارش اور رشوت کا کلچر فروغ پاچکا ہے، اپنا حق لینے کے لیے کوئی نہیں لڑتا، لوگ سفارش اور رشوت دے کر حق لینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ صدر کی اس بات میں بڑی گہرائی ہے کہ معاشرے میں کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف مزاحمت کی سکت نہیں رہی۔ معاشرے میں اپنے حق کے لیے لڑنے کی مزاحمت ختم ہوگئی ہے، یا تو معاشرے نے کرپشن کو ایک ناگزیر مجبوری سمجھ کر قبول کرلیا ہے یا یہ رجحان لوگوں میں مضبوط ہورہا ہے کہ اِدھر رشوت دے کر اپنا کام نکلواؤ اور اُدھر جہاں تمہارا زور چلتا ہے وہاں رشوت اورلوٹ مار کرکے اس کا ازالہ کرلو۔ چنانچہ اب لوگ ناجائز ہی نہیں جائز کاموں کے لیے، اپنے حق کے لیے بھی رشوت اور سفارش کا سہارا تلاش کرنے لگے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس کے بغیر ان کا کام نہیں ہوسکے گا اور وہ کہیں اس کے لیے شکایت لے کر جائیں گے تو کوئی ان کی دادرسی نہیں کرے گا۔
صدر مملکت نے اس خرابی کا ایک حل بھی تجویز کیا ہے کہ ہمیں بدعنوان افراد کو احساس دلانا ہوگا کہ وہ کرپشن چھوڑ دیں۔ اور اگر وہ باز نہ آئیں تو انہیں اپنی محفلوں اور تقریبات میں بلانا چھوڑ دیں۔ کاش ہم ایسا کرسکیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج تو صورت حال یہ ہے کہ کرپٹ افراد خاندان اور محلے بلکہ معاشرے کے لیے معزز ترین افراد بن گئے ہیں۔ ہم انہیں نہ صرف منت سماجت کرکے اپنی تقریبات میں بلاتے ہیں بلکہ انہیں اسٹیج کی رونق بناتے ہیں، ان سے فیتے کٹواتے ہیں، ان سے اپنے تنازعات کا فیصلہ کراتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ انہیں اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے نکاح میں وکیل اور بیٹوں بھتیجوں کی شادیوں میں گواہ بنائیں۔ بدقسمتی سے اب ان کرپٹ افراد کو محض ان کے پیسے اور طاقت کی وجہ سے مسجد کمیٹیوں کا صدر تک بنایا جارہا ہے۔ اب تو سیاسی جماعتوں میں ایسے افراد کو ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے، انہیں عہدے دیے جارہے ہیں اور انہیں انتخابی عمل میں داخل کیا جارہا ہے۔ آج گھروں اور کنبوں میں بھی کرپٹ تھانیدار کی تو عزت ہے مگر دیانت دار اسکول ٹیچر کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اگر آج ہم ایسے لوگوں کا جن کی کرپشن ہمارے علم میں ہے، سماجی بائیکاٹ کردیں، انہیں صدر کی تجویز پر تقریبات میں بلانا بند کردیں، انہیں یہ احساس دلائیں کہ ان کی کرپشن ہمارے لیے قابلِ نفرت ہے، وہ معاشرے کے ناسور ہیں، شہری ایسے کرپٹ امیدواروں کو ووٹ دینا بند کردیں، اُن شادیوں اور تقریبات سے اٹھ آئیں جہاں کرپٹ افراد کو پروموٹ کیا جارہا ہے تو یہ افراد اور ان کے اہلِ خانہ یقینی طور پر عوام کی اس نفرت کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ کاش کہ ایسا کرسکیں کہ صدرِ مملکت سے درخواست کریں کہ وہ اس تحریک کی قیادت سنبھالیں، اس کام کا آغاز اپنے گھر سے کریں۔ اپنی ذاتی اور گھریلو تقریبات میں معلوم کرپٹ لوگوں کو مدعو نہ کریں۔ کسی کرپٹ فرد کی دعوت میں شرکت سے انکار کردیں اور ہمت کرکے کرپٹ افراد کا ایوان صدر میں داخلہ بند کردیں۔ ایسے افراد سے تعلقات اور ملاقاتوں سے صاف انکار کردیں۔ صدر ایسا کر گزرے تو پوری قوم اس راہ پر چل سکتی ہے، لیکن اس کام کا آغاز صدرِ مملکت کو کرنا ہوگا جو ایک نیک نام انسان بھی ہیں اور بااختیار شخصیت بھی۔
صدر مملکت نے آخری بات بڑے دکھ سے کہی ہے۔ انہوں نے اپنی ذاتی معلومات، تجربے اور مشاہدے کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے نشان دہی کی کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے اندر کرپٹ افراد کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہے جسے توڑنے کے لیے انہوں نے ذاتی طور تجویز دی کہ ان کمپنیوں کے سربراہان کو تبدیل کردیا جائے، لیکن اس پر تاحال کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ صدر کا یہ دکھ ایک فرد کا نہیں پوری قوم کا دکھ ہے۔ صدر خود غور کریں کہ ان کمپنیوں میں موجود کرپٹ افراد خصوصاً ان کے سربراہان کو کس نے تعینات کیا ہے، اورکیوں تعینات کیا ہے۔ یہ نیٹ ورک اتنا مضبوط نہیں، اس کے رابطے بہت گہرے ہیں، یہ رشوت دے کر تعینات ہوتے ہیں، انہیں ان سے رشوت لینے والے کیسے ہٹائیں! وہ تو اس لوٹ مار سے مسلسل حصہ وصول کررہے ہیں۔ دوسرے اس میں صدر کی بے بسی کا اظہار ہے کہ ان کی اپنی جماعت کی حکومت اپنے آئینی صدر کی تجویز بھی ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اگرچہ اس بے بسی کی کہانی خاصی طویل ہے۔ صدر فضل الٰہی چودھری، صدر رفیق تارڑ اور دوسرے صدور بھی اتنے ہی بے بس تھے۔ یہ صرف نام کے صدر تھے، ان کے پاس اختیارات کوئی نہیں تھے۔ یہ وزیراعظم کے سامنے مجبورِ محض تھے۔ یہی حال گورنروں کا ہے۔ پنجاب کے ایک گورنر سائلین سے کہتے تھے کہ آؤ مل کر دعا کریں کہ تمہارا کام ہوجائے، کیونکہ میں صرف یہی کرسکتا ہوں۔ تحریک انصاف کے موجودہ رہنما چودھری سرور نے بھی گورنر پنجاب کے عہدے سے اسی بے بسی اور بے اختیاری کے باعث استعفیٰ دیا تھا۔ اس لیے صدر یا تو اپنے اختیارات کے لیے وزیراعظم سے بات کریں یا کوئی ایسا طریقہ تلاش کریں کہ بیوروکریسی ان کے احکامات پر عملدرآمد کی پابند ہوجائے۔ بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، اس لیے صدر ان ہی اختیارات کے ساتھ اپنا وقت عزت کے ساتھ پورا کرلیں تو بہتر ہے۔
nn

حصہ