پاکستان کی پہلی ایبلٹی ایکسپو کا آنکھوں دیکھا حال

319

عام طور پر کراچی ایکسپو سینٹر میں ہونے والے پروگرامات یا نمائشیں کاروبار، تفریح طبع، موڈ بدلنے یا کبھی کبھار کچھ معلوماتی حوالے سے منعقد ہوتی ہیں۔ اِس بار 25 فروری2017ء کے لیے مجھے خصوصی حکم دیا گیا کہ اس پروگرام کی تفصیلی رپورٹ بنانی ہے۔ خواہش تو تھی کہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ جاتا، مگر باوجود کوشش کے یہ ممکن نہیں ہوسکا جس کا افسوس مجھے اور شاید اُن سب کو ہوگا جو اس ایکسپو میں شرکت سے محروم رہ گئے (خصوصاً اس مختصر سی رپورٹ کو پڑھنے کے بعد)۔ تاہم اس بات کی خوشی ضرور ہوئی کہ میرے خاندان سے اس ایکسپو کے اصل مہمان سید انس علی شاہ نے شرکت کرکے اپنا حصہ ملادیا۔
گزشتہ کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر نے حکومتِ سندھ کے محکمہ خصوصی تعلیم کے اشتراک سے عظیم الشان نمائش کا انعقاد کیا۔ عام طور پر منتظمین کا شکریہ اور انتظامات پر بات آخر میں کی جاتی ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سے منتظمین نے جامع منصوبہ بندی کے ساتھ اس ایکسپو کو ممکن بنایا، جو خوبصورت انتظامات کیے، شرکاء (اسکولوں اور اداروں) کو جس تیاری اور جوش و خروش کے ساتھ دیکھا، اسٹیج سرگرمیاں، کھیلوں کا انعقاد سب کچھ انتہائی منظم، قابلِ دید اور قابلِ تعریف ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس ایکسپو کا افتتاح کرتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’’مجھے فخر ہے کہ آج میں نے ایسی کسی سرگرمی کا افتتاح کیا جس کا مقصد معذور افراد کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک جگہ جمع کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا تاکہ معذور افراد بھرپور مواقع سے استفادہ کرسکیں۔ ان میں مختلف این جی اوز، تعلیمی اداروں، حکومتی اداروں اور اسپیشل افراد کے مابین ایک مضبوط تعلق تھا۔‘‘ انہوں نے ایک احسن اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہر طرح کی معاونت اور باعزت شہری بنانے کے لیے حکومتِ سندھ آپ کی پشت پر موجود ہے‘‘۔ انہوں نے اُن تمام اداروں اور افراد کو قابلِ مبارک باد اور قابلِ تحسین قرار دیا جو معذور افراد کو مختلف ہنر سکھا کر، جینے کا طریقہ سکھا کر باعزت روزگار دلاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ منتظمین نے کم از کم کراچی کی سطح پر تمام اسٹیک ہولڈر اداروں کو جمع کردیا تھا، اس کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی ادارے شریک تھے۔ تین ہال میں اس ایکسپو کو سجایا گیا تھا جس میں ہال نمبر 1 اسٹالز کے لیے مختص تھا جس میں افراد باہم معذوری کی تیار کردہ شاندار، دیدہ زیب و خوبصورت مصنوعات شامل تھیں جن میں کپڑے، ہینڈی کرافٹ، پینٹنگ، اسکرین پرنٹنگ، بلاک پرنٹنگ کی مصنوعات و گھریلو استعمال کی اشیاء قابلِ ذکر ہیں۔ کئی لیبارٹریز، فزیو تھراپسٹ اور اس طرح کی معذوری میں علاج سے متعلق طبی اداروں نے بھی آگہی کے لیے اسٹال لگائے ہوئے تھے۔ کچھ اسٹالز پر تو باقاعدہ موازنہ کرکے مصنوعات رکھی گئی تھیں، یعنی وہ مصنوعات جو معذور بچوں نے بنائی تھیں، اور وہ بھی جو عام افراد کی تیار کردہ تھیں جنہیں ساتھ دیکھ کر کوئی بتا نہیں سکتا کہ یہ خصوصی بچوں نے بنائی ہیں۔
ہال نمبر2 میں مرکزی اسٹیج پر مستقل سرگرمیاں جاری تھیں جن میں مختلف اسکولوں کے بچے شاندار ٹیبلوز پیش کررہے تھے، جنہیں دیکھ کر آپ اس بات کا یقین ہی نہیں کرسکتے تھے کہ یہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔ خصوصاً ہم اُس وقت دنگ رہ گئے جب اسٹیج پر بابا بلھے شاہ کے مشہور صوفیانہ کلام پر خصوصی بچوں نے ٹیبلو پیش کیا اور بعد میں اسٹیج سے بتایا گیا کہ یہ پرفارمنس پیش کرنے والے طلبہ قوتِ سماعت سے محروم تھے جنہیں صرف وقتی اشاروں کی بنیاد پر اس کی پوری تیاری کرائی گئی جو کہ اتنی پرفیکٹ تھی کہ کسی لمحے ایک اسٹیپ بھی غلط یا آگے پیچھے نظر نہیں آیا۔ اس ہال میں مختلف سرکاری و نجی اسکولوں، ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز اور معذور افراد کے لیے قائم این جی اوز نے اسٹال لگائے تھے جو شرکاء کو آگاہی فراہم کررہے تھے۔ ساتھ ہی ایک جاب فیئر کا بھی اس ہال میں انعقاد کیا گیا تھا جہاں معذور افراد کی اُن کی صلاحیتوں کے مطابق مختلف سرکاری و غیر سرکاری نوکریوں کے لیے رجسٹریشن کی جارہی تھی۔ ہال نمبر3 میں اسپیشل اولمپکس کا سماں تھا۔ جی ہاں اولمپکس۔۔۔ کراٹے، فٹ بال، والی بال، ٹیبل ٹینس اور بہت سارے کھیل۔۔۔ اور یہ کھیل، کھیل رہے تھے خصوصی بچے۔ جتنا جوش و خروش، خوشیوں، مسکراہٹوں، نعروں، تالیوں اور زندگی سے بھرپور یہ ہال تھا اُس کا احاطہ کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ والدین، جن سے بات ہوتی رہی وہ سب اتنے خوش تھے کہ میں بتا نہیں سکتا۔ عام طور پر ان افراد کو گھروں پر تفریح طبع کے لیے زیادہ سہولیات میسر نہیں ہوتیں، مگر یہاں آکر تمام افراد باہم معذوری (PWD) جتنا خوش نظر آئے وہ دیدنی تھی۔
خصوصی بچوں کے ماہر نیورولوجسٹ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے سینئر ڈاکٹر عاطف سعید انجم سے بھی یہاں ملاقات ہوئی، وہ ایکسپو کے انعقاد پر خاصے خوش نظر آئے۔ ڈاکٹر عاطف سعید کی بچوں کے علاج اور اس طرح کے امراض میں آگاہی کے حوالے سے خصوصی خدمات ہیں، اور وہ بچوں کی دماغی صحت سے متعلق کئی اداروں سے بھی وابستہ ہیں اور خدمت کے جذبے سے سرشار پاکستان میں ایک بڑی مثال ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس ایکسپو کے نتیجے میں والدین کو اچھی رہنمائی مل سکتی ہے کیونکہ یہاں تمام اقسام کی بیماریوں و معذوری کے علاج سے متعلق ادارے موجود ہیں، ایک چھت کے نیچے اتنا استفادہ ایک انمول خزانے سے کم نہیں، کیونکہ ہر مرض کے لیے علاج بھی الگ ہے اور ادارے بھی الگ ہوتے ہیں۔ بچوں کی صلاحیتوں کو جس طرح نکھارا جارہا ہے وہ بھی قابلِ تعریف ہے۔ یہاں موجود گارمنٹس، ہاؤس اسٹف، ہینڈی کرافٹ کے نمونے دیکھ کر اُن بچوں کی حوصلہ افزائی ہمارا فرض ہے۔ والدین کو پیغام دیتے ہوئے ڈاکٹر عاطف نے کہاکہ ایسے کسی مسئلے کی موجودگی میں والدین بروقت علاج کے لیے رجوع کریں گے تو آئندہ آنے والے مسائل کم سے کم ہوں گے۔
اسلام آباد سے تشریف لائے ہوئے وہیل چیئر پر موجود لالہ جی سعید اقبال سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ خصوصی بچوں کے لیے بین الاقوامی ماہنامہ ’’پاکستان اسپیشل‘‘ کے مدیر منتظم ہیں۔ 1981ء میں صدر جنرل ضیاء الحق کی بیٹی کی معذوری کا سن کر انہوں نے اُن سے پہلی ملاقات کی اور خصوصی افراد کے مسائل پر تفصیلی بات کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا اور نہ صرف معذور افراد کے لیے کوٹہ مختص ہوا بلکہ معذور افراد کے لیے سرکاری عمارتوں میں ریمپ کی منظوری کرائی۔ اُن کے مطابق 45 لاکھ خصوصی بچے ہیں جن میں سے صرف دس ہزار ہیں جو اسکولوں میں رجسٹرڈ ہیں۔ انہوں نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیاکہ خدمت کارڈ میں معذوروں کے لیے مقرر کردہ 1200 روپے کا وظیفہ بھیک کی مانند ہے جسے خصوصی افراد کی بیماری، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر بڑھانے کی ضرورت ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کا جذبہ، زندگی جینے کا سلیقہ بتاتے ہوئے کراچی انڈی پینڈنٹ لیونگ سینٹر کے عظیم علی نے بتایا کہ پاکستان میں جو معذور افراد ہیں وہ انتہائی کم سہولیات کے ہوتے ہوئے بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کے افراد سے کہیں آگے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ہمیں خصوصی افراد کو نیا نام PWD(Person with Disabilities) افراد باہم معذوری دیا گیا ہے۔ نوکری کے دوران مسائل کا ذکر کرتے ہوئے اہلِ کراچی کی حوصلہ افزائی خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اندرون سندھ مٹیاری سے تشریف لائے ہوئے ایک دوست نے بتایا کہ وہ نوکری کے لیے خاصے پریشان رہے ہیں، یہاں کچھ اداروں نے ایسے افراد کی نوکری کے لیے اسٹال لگائے ہیں جہاں رجسٹریشن بھی کرائی گئی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ خصوصی تعلیم کے اسٹال پر ڈاکٹر شگفتہ نے اپنے شعبے میں مختلف مضامین کی تدریس کے حوالے سے بتایا کہ گریجویٹ، ماسٹرز اور ڈپلومہ کی سطح پر تدریسی پروگرام جاری ہیں، اور اس اسٹال کے ذریعے یہ شعبہ ملک بھر کی این جی اوز، اداروں، اسکولوں، والدین سب کو فاصلاتی تعلیم کے ذریعے ایک جگہ سے نصابی و دیگر تربیتی سرگرمیوں سے آگاہی دینے کے لیے لگایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایشیا پیسفک ریجن میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پاکستان ڈس ایبل فاؤنڈیشن کے چیئرمین شاہد احمد میمن سے اُن کے اسٹال پر ملاقات ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے1963ء میں پہلی مرتبہ نابینا افراد کے حقوق کے لیے احتجاج ریکارڈ کرایا، جب سے آج تک مستقل متحرک ہیں۔ نابینا افراد میں شاہد صاحب وہ پہلے فرد ہیں جنہوں نے تین مضامین میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے لیکچرار بھرتی ہوئے۔ ابتدا میں اس حوالے سے آگہی نہ ہونے کے برابر تھی، لوگ نابینا افراد کو قبول ہی نہیں کرتے تھے، مایوسی کا ماحول اتنا زیادہ تھا کہ بتا نہیں سکتا۔ اللہ کے بھروسے پر ہم نے کام کیا اور آج الحمدللہ اس حوالے سے خاصا شعور عوام میں بھی بیدار ہوا ہے اور لوگ جان گئے ہیں کہ نابینا ہونا اب کوئی کمی نہیں، اللہ پر توکل اور بھروسے کے بعد آنے والی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرکے ہی پھولوں کی سیج میسر ہوگی۔ آج ہزاروں نابینا افراد بین الاقوامی مقابلوں میں بھی پیش پیش ہیں اور معاشرے کا کارآمد حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اسپراگلیٹس اکیڈمی کے اسٹال پر ڈاکٹر روبینہ نے اسپراگلیٹس میں اپنے زیر علاج بچوں کا پس منظر بتاتے ہوئے کہاکہ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جو اپنے مسائل سے سب سے زیادہ لڑرہے ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں بالکل نارمل نظر آتے ہیں مگر جب بات کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ بہت سارے مسائل کا شکار ہیں، بات کرنے میں الفاظ کی کمی، عمومی چیزوں سے بہت زیادہ خوف کھانا، سیکھنے میں مشکلات، حد سے زیادہ شرمیلا پن، بچوں میں سماجیانہ کا عمل درست نہ ہونے کی صورت میں اس بیماری کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ والدین عمومی طور پر ان چیزوں کو بہت زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے اور کسی طور پر یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ بروقت علاج نہیں کراتے اور مسئلہ بیماری کی شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔
اڈاریو کالج برائے ڈیف کے طالب علم فہد جمیل سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے گزشتہ سال 2016ء میں انٹر میڈیٹ بورڈ کراچی میں اسپیشل کیٹگری میں پہلی پوزیشن کے ساتھ گولڈ میڈل حاصل کیا تھا، اس کے علاوہ اُنہوں نے پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے بھی اپنے مختلف سائنسی ماڈلز کی بنیاد پر گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے شعبہ دماغ و اعصاب کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے اس ایکسپو کو بہت بڑی کاوش قرار دیا اور منتظمین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہاکہ ملک بھر میں ایک محتاط اندازے کے مطابق50لاکھ افراد ہیں جو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔یہ افراد ہمارے معاشرے کا مؤثر اور کار آمد حصہ بن سکتے ہیں۔ اس طرح کے پروگرامات معاشرے کے ڈس ایبل افراد کو آگے بڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یہاں نابینا، قوتِ سماعت و گویائی سے محروم، دماغی بیماریوں میں مبتلا، پولیو سے متاثرہ افراد موجود ہیں جو نہایت جوش و خروش سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر رہے ہیں۔
انفرا اسٹرکچر، نوکریاں اور صحت کے بارے میں مسائل یہاں افراد سے گفتگو میں معلوم ہوئے۔ ہماری ملاقات چھوٹے (پستہ) قد والے افراد اور اُن کی ویلفیئر کے ذمہ داران سے ملاقات ہوئی۔اسمال پیپلز ویلفیئر کے چیئر مین محمد حنیف نے ہمیں بتایا کہ پیر آباد کراچی میں ہم نے دفتر بنایا ہے اور فنڈ کے شدیدمسائل درپیش ہیں۔ ڈیڑھ سو افراد صرف کراچی میں رجسٹرڈ ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پستہ قد لوگ انتہائی باصلاحیت اور محنتی ہیں کوئی رکشہ چلاتا ہے، سلائی کڑہائی کا کام کرتا ہے، نوکری، مزدوری بھی کرتا ہے۔ وہ خود بھی عباسی شہید ہسپتال میں بطور پیون ملازمت کرتے ہیں۔اسکے علاوہ پستہ قد لوگوں میں کچھ ڈاکٹرزبھی ہیں، کوئی انجینئر ہیں سابق مرحوم چیف جسٹس کا بھی پستہ قد کا حوالہ انہوں نے دیا۔ محمد حنیف نے بتایا کہ اندرون سندھ تک اُن کانیٹ ورک پھیل چکاہے، لوگ رجسٹر ہو رہے ہیں مگر چونکہ ہمارے پاس داد رسی کے لیے کوئی فنڈ یا حکومتی توجہ تا حال میسر نہیں تاہم ہم نے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ یہ ایک اندرونی سیل کا مسئلہ ہے جو کہ ابتدائی حالت میں قابل علاج ہے۔
nn

حصہ