(عمر تہزیبوں کے تصادم کے تصور کا سفر(ابراہیم

251

تاریخ کا چکر پھر اہم دوراہے پر آپہنچا ہے۔ ایک راہ ’راست‘ پر جارہی ہے، مگر پُرخار ہے۔ دوسری ’گُم‘ راہ ہے، مگرخوشنما ہے۔ ایک راہ پر عالمگیر انسانی تہذیب کا امکان روشن ہے، دوسری راہ پر سب کچھ انسان کُش ہے۔ ایک احیاء پذیر ہے، دوسری انحطاط پذیر ہے۔ دونوں جانب حالات و واقعات بناؤ اور بگاڑ کے تناسب کا تعین کررہے ہیں۔
معروف برطانوی مؤرخ اور دانشور آرنلڈ ٹوائن بی اپنی شہرۂ آفاق Study of History میں لکھتے ہیں کہ جب قائدین تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ہوجاتے ہیں، تہذیبیں زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ قوم پرستی، تشدد پسندی، جابرانہ نظام، اورکٹھ پتلی اقلیت کی ظالمانہ حاکمیت کے بڑے بڑے گناہ تہذیبیں ڈبو دیتے ہیں۔ تہذیبوں کا قتل نہیں ہوتا، یہ خودکشی کرتی ہیں۔ تاریخ روحانی قوتوں سے ازسرنو تشکیل پاتی ہے۔
1948ء کی تصنیف Civilization on Trial کے باب ISLAM, THE WEST, AND THE FUTURE میں ٹوائن بی لکھتے ہیں کہ اسلام اور مغرب میں حالیہ تصادم نہ صرف ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدید ہے، بلکہ یہ دنیا کو مغرب زدہ بنانے کی مہم کا اسلامی ردعمل بھی ہے۔ اس وقت اسلام دیوار سے لگا مغرب کا سامنا کررہا ہے، اس بار حالات صلیبی جنگوں کے دور سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ ممکن ہے مسلم دنیا نیند سے جاگ جائے، خواہ یہ اصحابِ کہف کی سی نیند ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ ماضی میں منگولوں اور صلیبیوں کے خلاف اسلامی تہذیب نے کامیاب احیاء کیا ہے۔ اگر موجودہ دنیا میں نسل پرستی کی بنیاد پر انسانوں میں بڑا تصادم ہوا، تو شاید اسلام تاریخی کردار دوبارہ ادا کرسکے۔
آرنلڈ ٹوائن بی کا تہذیبوں کے عروج و زوال پر یہ حاصلِ مطالعہ کسی پسندیدہ نتیجے یا نتائج کے لیے سند یا تصدیق کی خاطر نہیں، بلکہ زمینی حقائق سے مطابقت کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہوچکا ہے۔ تہذیبوں کے عروج و زوال پر یہ ایسا پہلا یا واحد نکتہ نظر نہیں ہے، مگرمغرب میں انوکھا ہے۔ علامہ اقبال کی فکر کا ایک اہم پہلو یہی رہا ہے، کہ ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی‘‘۔ مغربی تہذیب کی خودکشی اور اسلامی تہذیب کا احیاء فکرِمودودی کا مغز ہے۔ بالخصوص ماسکو کی گلیوں میں کمیونزم کی دربدری کا قصہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
غرض ٹوائن بی کے مضمون سے آج تک مغرب میں خودکشی کی تکرار اور مسلم دنیا میں احیاء کی کشمکش کلیۂ عروج و زوال کا ٹھوس تجربہ رہا ہے۔ آج دونوں صورتیں کافی نمایاں ہوچکی ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد، قیام پاکستان سے اسلامی تحریکوں کی روحانی قوت پذیری تک، اور اب واقعات کی انقلابی ہم آہنگی تک، جمال عبدالناصرکی ظالم عدالت سے امریکی قید خانوں کی پُرجلال خاموشیوں تک اسلامی تہذیب کی روحانی قوتیں توانا ہورہی ہیں۔ روشن روحوں کا انقلابی قافلہ رواں دواں ہے۔
رواں ماہ مصرکے نابینا عالم شیخ عمرعبدالرحمان امریکہ کی جیل میں رحلت فرما گئے۔ شیخ پر1993ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر دہشت گردی کا الزام تھوپا گیا تھا۔ دہشت گرد ڈراموں کا یہ نیا نیا آغاز تھا، سیموئل ہن ٹنگٹن کے ’’تہذیبوں میں تصادم‘‘ کا نیا نیا شہرہ تھا، اور سوویت یونین نیا نیا ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا۔ سو، بہت آسانی سے ایک معذور معلم زندگی بھرکے لیے قید خانے میں دھکیل دیا گیا تھا۔ برس ہا برس عزیمت کا روحانی پیکر نورکا استعارہ بنا رہا۔ آج وہ بصیرت تاریخ پر انمٹ اثرات مرتب کرچکی، جو بصارت کی دجل سازیوں سے محفوظ رہی۔
بلاشبہ، دو دہائیوں سے مادی مصائب و آلام پر اسلامی تہذیب کی روحانی قوتیں توانا تر ہوئی ہیں۔ ایسی ہی ایک روحانی قوت ڈلاس کی کال کوٹھری میں نور کا سفر طے کررہی ہے۔ عافیہ صدیقی کی پاکیزہ روح تاریخ کی مادی تعبیر خس و خاشاک کررہی ہے۔ یقیناًبنگلہ دیش سے مصر، اور امریکی زنداں کی دیواروں سے لگے اجسام کمزور ہیں، مظلوم ہیں، بے زور ہیں، اور ناحق ستائے جارہے ہیں۔ مگر روشن روحوں کا انقلابی سفر سید قطب کی عظیم شہادت سے عبدالقادر ملا کی شہادت تک، اور غلام اعظم کی رحلت سے شیخ عبدالرحمان کی وفات تک، اور محمد مرسی کے نالۂ نیم شب سے عافیہ کے کلام قرآن تک، تاریخ کی تشکیلِ نوکررہا ہے۔ یہ نئی تاریخ اسلام کا عروج اور مغرب کا زوال ہوگا۔
nn

حصہ