(اقصادی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس(میاں منیر احمد

234

اقتصادی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس اسلام آباد میں ہوا، جس میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سمیت آٹھ ممالک کے سربراہانِ حکومت اور نمائندے شریک ہوئے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچے تو وزیر منصبوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے اسلام آباد کے نورخان ایئربیس پر ان کا استقبال کیا۔ مہمان صدر کو 21 توپوں کی سلامی اور گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ اجلاس میں تمام دس رکن ملک شریک ہوئے جن میں افغانستان، آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان، ایران، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں، جبکہ چین کا نمائندہ خصوصی اجلاس میں شریک ہوا۔ پانچ سربراہانِ مملکت، تین سربراہانِ حکومت اور ایک نائب وزیراعظم نے اجلاس میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس کے لیے راولپنڈی اسلام آباد میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ جڑواں شہروں میں عام تعطیل رہی جبکہ اسلام آباد میٹرو سروس صرف صدر سے فیض آباد تک چلی، جبکہ فیض آباد سے سیکرٹریٹ تک چلنے والی میٹرو سروس کو بند کردیا گیا۔ اسلام آباد میں جاری ای سی او سربراہ اجلاس کی سیکورٹی کے پیش نظر شہر بھر میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی، اور انتہائی غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ پارلیمنٹ ہاؤس، ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم اور جہاں معزز مہمان ٹھیرائے گئے اُس مقام سے دس کلومیٹر کے علاقے کو ریڈ زون بنادیا گیا، اور سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے۔ کمرشل عمارتوں پر سیکورٹی اہل کار تعینات کیے گئے تھے اور شہر میں داخلے کے راستوں پر جگہ جگہ چیک پوسٹیں بنائی گئیں۔
کانفرنس میں شرکت کے لیے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان دو سو ارکان کے وفد کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تھے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں تمام معزز مہمانوں کو اسلام آباد آمد پر خوش آمدید کہا اور توقع ظاہر کی کہ اسلام آباد اعلامیہ رکن ملکوں کے مؤقف کی ترجمانی کرے گا، تنظیم رکن ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کو مزید مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نے خصوصی پیغام بھی جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ امن و استحکام سے خوشحالی کے اہداف حاصل ہوسکتے ہیں۔ ریلوے، شاہراہیں، تیل و گیس کی پائپ لائنیں خطے کو قریب لارہی ہیں، مواصلات کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہورہی ہے، ہم پُرامن ہمسائیگی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا تاریخی کردار ادا کریں، ہمیں موجودہ دور کے اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے 13ویں سربراہی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم پاکستان نے ترکمانستان، ترکی، ایران، تاجکستان اور آذربائیجان کے صدور سمیت دیگر شرکا کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں چین اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کی شرکت پر مشکور ہیں، سی پیک سے جنوبی اور وسطی ایشیا کا خطہ منسلک ہوگا، پاکستان کی معیشت کی بہتری کا عالمی ادارے اعتراف کررہے ہیں، ای سی او فورم حقیقی ترقی کا خواب پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر کے بغیر اقتصادی ترقی ممکن نہیں۔ نوازشریف کا کہنا تھاکہ سی پیک کو معاشی سرگرمیوں کے لیے تسلیم کیا جاچکاہے، 20 کروڑ آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کی بڑی مارکیٹ ہے، پاکستان کے اقتصادی اشاریے درست سمت میں گامزن ہیں، ہم خطے میں ٹرانسپورٹ اور تجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ای سی او تنظیم بڑے خطے کا احاطہ کرتی ہے، دنیا کی 52 فیصد تجارت یہاں سے ہوتی ہے، یہ خطہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے، مشترکہ خوشحالی کے لیے رابطوں کا فروغ ضروری ہے، سربراہ اجلاس میں انہیں مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز ہوگی۔ ای سی او تنظیم کا مقصد رکن ملکوں کے عوام کا تحفظ ہے۔ ای سی او 2025ء کے اہداف کا تعین کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مشترکہ ثقافتی ورثہ ہمارا اثاثہ ہے۔ ای سی او ایک نئے اقتصادی بلاک کی تشکیل عمل میں لائے گی۔ ای سی او کے 13 ویں اجلاس کی میزبانی پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔ ای سی او سربراہ اجلاس کا موضوع خطے کی خوشحالی کے لیے روابط کا فروغ ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکی نے علاقائی ترقی کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے ہیں، علاقائی ترقی کے ان منصوبوں میں شرکت کے لیے رکن ممالک کو دعوت دیتا ہوں۔ خطے کی ترقی کے لیے علاقائی روابط بہت ضروری ہیں اور علاقائی روابط کے فروغ کے لیے ترکی اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ رکن ملکوں کو حقیقی ترقی کے لیے توانائی کے منصوبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علاقائی ترقی کے منصوبوں میں شرکت کے لیے رکن ممالک کے علاقائی روابط ضروری ہے اور علاقائی روابط کے فروغ کے لیے انقرہ اپنا کردار بھی ادا کررہا ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ21 ویں صدی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت کا دور ہے اور مستقبل میں مواصلاتی روابط سے یورپ اور ایشیا منسلک ہوں گے۔ ای سی او اجلاس سے تنظیم کے طویل المدتی پروگرام پر عملدرآمد میں مدد ملے گی، مغرب تک رسائی کے لیے مشرقی مواصلاتی ذرائع مؤثر اور مختصر ترین ہیں، اقتصادی سرگرمیاں مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہورہی ہیں کیونکہ ای سی او ممالک سے گزرنے والا راستہ مغرب کے لیے مختصر ترین روٹ ہے، اقتصادی تعاون تنظیم کے ممالک میں رابطوں کا فروغ مواصلاتی شعبے میں ترقی کا باعث بنے گا، جب کہ روابط کا فروغ ایشیائی ممالک کے روشن مستقبل اور ترقی کی ضمانت ہے۔
تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ اقتصادی تعاون تنظیم جغرافیائی لحاظ سے بہت اہم ہے اور ای سی او فورم سے مختلف شعبوں میں تعاون کی نشاندہی ہوگی۔ مشترکہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور بنیادی ضرورتوں پر توجہ دینا ہوگی۔ جب کہ رکن ملکوں کی ترقی تاجکستان کی پالیسی کا حصہ ہے۔ خطے میں قابلِ تجدید توانائی کے وسائل موجود ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے، جبکہ مستقبل کی ضروریات کے لیے پانی کے وسائل کو محفوظ بنانا ہوگا، رکن ملکوں میں مناسب شراکت داری پر بھی توجہ کی ضرورت ہے اور ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ مشترکہ حکمت عملی سے قدرتی آفات کے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ افغانستان اور خطے کے مسائل کے حل کے لیے ہر مکمل تعاون کریں گے۔ ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے وژن 2025 پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔ ای سی او ممالک کو علاقائی اور عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ وسط ایشیائی ممالک کی راہداری کے لیے افغانستان انتہائی اہم ملک ہے اور افغانستان میں امن وامان پورے خطے کے مفاد میں ہے۔
صدرِ ترکمانستان قربان علی بردی محمدوف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن کے فروغ کے لیے بھرپور تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خطے کے ممالک کو قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کو بروئے کار لانے پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ نئی اقتصادی راہداریوں کی تعمیر سے معاشی ترقی اور عالمی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن پورے خطے کی معاشی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان میں امن علاقائی، عالمی اور خود افغان عوام کے مفاد میں ہے۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ای سی او کو سیاسی تنازعات کا شکار نہ ہونے دیا جائے۔
ازبک نائب وزیراعظم الغ بیگ روزوکلوف نے کہا کہ خطے میں پائیدار ترقی کے لیے امن ناگزیر ہے۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ازبکستان بہترین صلاحیتوں کا مالک ہے اور تعمیراتی سامان اور ٹرانسپورٹ کی برآمدات میں بھی مقام رکھتا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
اقتصادی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل حلیل ابراہیم کا کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ اس سے خطے کے ملک قریب آئیں گے اور معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی۔
یاد رہے کہ ای سی او رکن ممالک کی یہ تنظیم 1985ء میں ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی تھی۔ اس تنظیم نے علاقائی تعاون برائے ترقی یعنی آر سی ڈی کی جگہ لی جو 1962ء میں قائم ہوئی اور 1979ء میں اس کی سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔ 1992ء کے موسم خزاں میں افغانستان سمیت وسط ایشیا کے سات ممالک آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو بھی تنظیم کی رکنیت دی گئی۔ رکن ممالک کے درمیان 17 جولائی 2003ء کو اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم تجارتی معاہدے (ECOTA) پر دستخط کیے گئے۔ اس تنظیم کے تمام رکن ممالک موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) کے بھی رکن ہیں جبکہ 1995ء سے ای سی او کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ بھی حاصل ہے۔ آرسی ڈی کے تحت تینوں ممالک میں رابطہ قائم کرنے کے لیے شاہراہ آرسی ڈی بھی قائم کی گئی تھی جو کہ پاکستان میں N-25 کہلاتی ہے اور سندھ کو بلوچستان سے منسلک کرتی ہے، اور اس سے آگے پاکستان کو ایران اور ترکی سے بھی جوڑتی ہے۔ حال ہی میں اس شاہراہ کو گوادر سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔
بلاشبہ یہ کانفرنس اقتصادی تعاون کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ای سی او ممالک توانائی کے وسائل اور معدنیات سے مالامال ہیں۔ صنعت اور متحرک انسانی وسائل بھی ای سی او ممالک کا اثاثہ ہیں۔ ہمارا مشترکہ ثقافتی تاریخی ورثہ اس سے بھی بڑھ کر قابلِ قدر سرمایہ ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے بھی کانفرنس کو بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس میں افغانستان کے اعلیٰ حکام کی عدم موجودگی افغانستان کا اپنا فیصلہ ہے، تاہم افغان سفیر کی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک خطے میں ترقی اور امن کے لیے مل کر کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، افغانستان ای سی او کا اہم رکن ہے اور ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، کیونکہ یہ خطے کے لیے اہم ہے۔
nn

حصہ