(حخومت سندھ کی کارکردگی اور اٹارنی جنرل کا دعویٰ منظور میرانی ترجمہ:(اسامہ تنولی

192

’’کئی دنوں کے بعد کل ہمارے دوست ضمیر گھمرو کا کالم پڑھنے کو ملا۔ کالم پڑھنے کے بعد میں مسلسل اُس سندھ کو تلاش کرتا رہا جس سندھ میں اب 80 فیصد ملازمتیں اور ٹھیکے میرٹ پر ملنے لگے ہیں۔ ضمیر گھمرو جو اب ایڈووکیٹ جنرل سندھ ہیں، ایک پڑھے لکھے فرد اور اچھے وکیل ہیں۔ وہ اچھے وکیل ہیں اس لیے میں یہ اعتراف کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروں گا کہ وہ اس وقت جس پوزیشن پر ہیں، میرٹ پر ہیں۔ لیکن اگر وہ اکیلے میرٹ پر مقرر ہوئے ہیں تو یہ کس طرح تسلیم کرلیا جائے کہ سندھ میں 80 فیصد کام میرٹ پر چل رہا ہے؟ اگر وہ ازخود تن تنہا سندھ کا 80 فیصد ہیں، پھر تو ٹھیک ہے اور مان لیا جائے کہ حکومتِ سندھ کے سارے امور اب میرٹ پر چل رہے ہیں، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں ضمیر کے اُن سیکڑوں مضامین پر اعتبار کرنا پڑے گا جو موصوف اسی صفحہ پر پیپلزپارٹی حکومت کی کرپشن اور خراب طرزِ حکمرانی پر لکھ چکے ہیں۔ ضمیر نے اپنے مضمون میں یہ جملہ بھی تحریر کیا ہے کہ ’’صحت مند مخالفت اور تنقید سماج کو آگے بڑھاتی ہے‘‘۔ اس جملے نے میری حوصلہ افزائی کی کہ اگر ان کے آرٹیکل کے پس منظر میں، مَیں کوئی تنقید کروں گا تو اسے ضمیر ہضم کرلیں گے۔ کیونکہ یہ تنقید ضمیر پر نہیں بلکہ اُن کے لکھے گئے آرٹیکل کے مختلف نکات پر ہوگی۔
حکومتِ سندھ میرٹ پر عمل پیرا ہے؟
آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ ’’کرپشن اور میرٹ کی پامالی دراصل بدتر مینجمنٹ کا شاخسانہ ہے۔ جس ادارے میں بھی بہتر مینجمنٹ ہوگی، وہاں کرپشن اگر کلیتاً ختم نہ بھی ہو تب بھی کم ہوگی۔ اس کی مثال فیصل آباد الیکٹرسٹی کارپوریشن اور سکھر الیکٹرسٹی کارپوریشن کی پیش کی جاسکتی ہے۔ فیصل آباد میں بجلی کے لائن لاسز صرف 10 فیصد ہیں، جبکہ سکھر میں لگ بھگ 40 فیصد ہیں‘‘۔ کرپشن کم ہونے والی دلیل میں جن دو کمپنیوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ وفاق کے زیرانتظام آتی ہیں۔ اس لیے ان میں اگر کرپشن میں کوئی کمی واقع ہوئی بھی ہوگی تو اس میں سندھ حکومت کا کیا کمال؟ سندھ کے کسی ایک بھی محکمہ کی مثال دی جاتی جس کے ’’لائن لاسز‘‘ کم ہوئے ہوں۔ اسی تسلسل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’سندھ میں کمزور بیوروکریسی اور پولیس ہونے کی وجہ سے یہ تاریخی مسئلہ رہا ہے۔ لیکن اب یہ کلچر تبدیل ہوتا جارہا ہے‘‘۔ یعنی جو بھی بدانتظامی ہے وہ دراصل کمزور بیوروکریسی اور کمزور پولیس کے باعث ہے۔ اس بات سے صد فیصد اتفاق! لیکن اس کلچر کے تبدیل ہونے کی کوئی ایک بھی جھلک ہمیں سندھ میں کہیں دکھائی دیتی ہے؟ وہ کون سا افسر اور پولیس ذمہ دار ہے جسے کسی منتخب نمائندے کی ’’فرمائش‘‘ کے بجائے خالصتاً میرٹ پر تعینات کیا گیا ہو؟ محترم کالم نگار دیگر سیکڑوں بیوروکریٹس سے قطع نظر، صرف کراچی سمیت سندھ کے کسی ایک بھی ضلع کا ایسا ڈی سی یا ایس پی بتائیں جسے فی الواقع میرٹ پر مقرر کیا گیا ہو۔ اب آپ خود ہی بتائیں جو ڈی سی یا ایس پی میرٹ کے بجائے حلقہ کے منتخب نمائندے کی سفارش پر مقرر ہوا ہو وہ اگر کمزور نہیں ہوگا تو کیا انتظام میرٹ پر چلائے گا؟ تقرریوں اور تبادلوں کا یہ کلچر اُس وقت بھی تھا جب کالم نگار موصوف حکومت کی کلاس لیا کرتے تھے، اور سابقہ کلچر آج بھی برقرار ہے جب وہ خود اس ’’کلاس‘‘ کا حصہ بن چکے ہیں۔ راوی ’’ہر طرف چین ہی چین‘‘ تو لکھتے ہیں لیکن یہ چین ہے کہاں؟اس کا کوئی اتاپتا بھی تو ہو۔ کسی ضلع، کسی تعلقہ کا ایڈریس تو بتائیں جہاں لوگ بہ چشمِ خود میرٹ کی زیارت کرنے جاسکیں۔ اور تو چھوڑیئے کوئی ایسا محکمہ ہی بتادیجیے جس کا سیکرٹری، کوئی ڈی جی یا کوئی ایس او کسی وزیر صاحب کی مرضی کے بغیر آیا ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب محکموں کے وزراء اپنے امور میرٹ پر چلانے کے آرزومند ہوں۔ جب وزراء کو محکموں میں خدمت کرنے کے بجائے ’’روزی روٹی‘‘ کرنی ہو تو پھر وہ موئن جودڑو سے بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے افراد کو نکال لائیں گے جو زیادہ سے زیادہ ’’روزی روٹی‘‘ کرنے کے گُر جانتے ہوں۔ یہ امر تسلیم کہ اس کلچر کی بنیاد غیرجمہوری حکومتوں نے ڈالی، لیکن ہماری جمہوری حکومتوں نے اس بنیاد کو کمزور کرنے کے بجائے اسے اور زیادہ فروغ دیا اور پیپلزپارٹی نے اسے بام عروج پر پہنچا دیا ہے۔ پھر بھی محترم کالم نگار نہ جانے کیوں یہ فرما رہے ہیں کہ ’’کلچر تبدیل ہورہا ہے‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ اس بات کو لکھنے کے پس منظر میں آئی جی سندھ والا کیس ہو۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انہیں ہٹایا ہی اس بنیاد پر گیا تھاکہ ایک تو انہوں نے ملیر کے ایس پی راؤ انوار کو دوبارہ تعینات نہیں کیا، دوسرا یہ کہ محکمہ پولیس میں جن بھرتیوں کا حوالہ دیا گیا ہے، اس کے طریقہ کار پر بھی انہیں تحفظات تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل صاحب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ راؤ انوار کی دوبارہ تقرری واقعتا بھی میرٹ ہی پر ہوئی ہے یا پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی فرمائش پر؟ میں اے جی صاحب کی اس بات سے متفق ہوں کہ ’’اگر سیاسی تبدیلیوں کے لیے اپوزیشن ضروری ہے تو ٹھیک اسی طرح سے سماجی، علمی اور سیاسی تبدیلیوں کے لیے بھی اپوزیشن ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح سماجی، علمی اور بنیادی حقوق کے لیے متحرک میڈیا اور پریس، عدلیہ، سول سوسائٹی اور سیاسی عمل کا حصہ نہ ہونے والی پارٹیاں بھی ناگزیر ہیں‘‘۔ آئی جی سندھ والے کیس میں بھی اے جی صاحب کا یہ فارمولا اپناکام دکھا گیا، کیونکہ میڈیا اور سول سوسائٹی نے جس طور سے اے ڈی خواجہ کو جبری رخصتی پر بھیجنے کے حکومتی انداز پر ردعمل دکھایا، اسے نظرانداز کرنا کارِدارد بن چکا تھا حکومت کے لیے۔(یہ اور بات ہے کہ زرداری صاحب کی آمد کے بعد اے ڈی خواجہ کو تحفہ میں راؤ انوار کو مقرر کرنے کا مژدہ سنایا گیا)۔ افسران کے ان اعداد و شمار کی بھی ہم سے کہیں زیادہ اے جی صاحب کو خبر ہوگی جو صرف اس لیے لائن حاضر ہیں کیونکہ ان پر کسی منتخب نمائندے یا کسی وزیر، مشیر کی نظرِکرم نہیں ہے۔ میرٹ کے حوالے سے یہ تو بڑے افسران کی تقرریوں کی صورت حال ہے لیکن کیا اس حقیقت سے بھی انکار کیا جاسکتا ہے کہ تھانہ کے صوبیدار اور تپیدار کی تعیناتی بھی اسی وقت ہوپاتی ہے جب کوئی فرد علاقے سے منتخب نمائندوں کو ’’فرماں بردار‘‘ رہنے کی یقین دہانی کرواتا ہے، کیونکہ ’’سرکار کے سائیں‘‘ کو اپنی سیاست چلانے کے لیے لوگوں کو پولیس کے ہاتھوں گرفتار کروانا اور پھر انہیں چھڑوانا بھی پڑتا ہے اور غریبوں کی زمینوں کے کھاتے بھی اپنے نام پر کروانے پڑتے ہیں۔ کسی حلقہ میں اگر اس طرح کا کلچر تبدیل ہوا ہے تو ہماری معلومات میں بھی اضافہ کیجیے۔
بقول اے جی صاحب: ’’تعلیم اور پولیس میں اب ماسوائے این ٹی ایس کے نوکری نہیں مل سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ میں ایک ہلّے کے ساتھ ہی 60 فیصد ملازمتیں میرٹ پر ہوگئیں۔ بقیہ ہزاروں نوکریاں سندھ پبلک سروس کمیشن دیتا ہے اور اب جو کمیشن تشکیل دیا جارہا ہے اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ باقی جو کھاتے (محکمے) رہ جائیں گے ان میں بھی ٹیسٹ لازمی ہے، اور لگتا ہے کہ 80 فیصد نوکریاں سرکاری شعبے میں میرٹ پر ہوجائیں گی۔‘‘ بے شمار این ٹی ایس پاس نوجوان آج بھی احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں کہیں بھی مقرر نہیں کیا جارہا۔ ان نوجوانوں نے جنہوں نے ملازمتوں کے لیے این ٹی ایس پاس کیا ان کی جگہوں پر بجائے ان کے ’’بھوتاروں‘‘ کے آدمی سفارش پر مقرر کردیے گئے اور غریبوں کے بچے جنہوں نے ٹیسٹ پاس کیے تھے اب وہ بھلے سے احتجاج کرتے پھریں۔ میرا اندازہ ہے کہ بہ طور وکیل ایسے کیس اے جی صاحب کی نظر سے بھی گزرے ہوں گے۔ رہی بات سندھ پبلک سروس کمیشن کی، تو جب یہ کمیشن خود میرٹ پر تشکیل دیا جائے گا تب ہی وہ ملازمتیں بھی میرٹ پر دے سکے گا۔ اے جی صاحب کلچر تبدیل ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن پبلک سروس کمیشن میں جو تھوڑا بہت میرٹ تھا بھی، اس کے خاتمہ بالخیر میں خود پیپلزپارٹی کی سرکار کا ہاتھ رہا ہے۔ یعنی میرٹ پر مبنی کلچر کو بھی پیپلزپارٹی ہی نے تبدیل کیا ہے۔
اب آیئے ٹھیکوں کے امور میں میرٹ کی بات پر۔ یہ تو سب دیکھتے ہیں کہ روزانہ سندھ حکومت ٹھیکوں کے لیے سیکڑوں ٹینڈر شائع کراتی ہے، لیکن اس امر سے بھی شاید ہی کوئی انکار کرسکے گا کہ ٹھیکے کس کس کو دینے ہیں؟ یہ بات پہلے ہی سے طے کرلی جاتی ہے اور ٹینڈر شائع کرانے والی رسم پوری کی جاتی ہے۔ جنہیں کام نہیں دیا جانا ہوتا اُن کے لیے تو راہیں اس قدر تنگ کردی جاتی ہیں کہ وہ نیلامی میں شرکت کرنے کے لائق بھی نہیں رہتے۔ ناقابلِ واپسی رقم کے ساتھ جو فارم بھر کے دینا پڑتا ہے وہ بھی فقط انہی کو ملتا ہے جن کے متعلق کوئی وزیر یا مشیر سفارش کرتا ہے۔ یعنی ٹھیکوں کی نیلامی (Bid) عام نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی خاص آدمیوں ہی کے لیے ہوا کرتی ہے۔ سندھ میں نجانے کتنی ایسی اسکیمیں ہوں گی جو محض کاغذات تک ہی مکمل مل سکیں گی اور برسرِزمین ان کا کہیں کوئی وجود دکھائی نہیں دے گا۔ آپ سارے سال کے اخبارات اٹھا کر ان میں ٹینڈر پڑھ کر دیکھ لیجیے، اگر ان سب ٹھیکوں پر عملدرآمد ہوجائے تو ترقی کے حوالے سے ایک برس کے اندر ہی سندھ کا نقشہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آجائے۔ لیکن اس کے برعکس سندھ روزبروز موئن جودڑو کے کھنڈرات میں بدلتا چلا جارہا ہے۔ کئی ایسی اسکیمیں بھی ہیں جو برس ہا برس سے چلی آرہی ہیں مگر مکمل ہونے کا نام تک نہیں لیتیں۔ ہر سال ان کے بجٹ میں اضافہ بھی ہوتا ہے لیکن پھر بھی گڑھا ہے کہ بھرتا ہی نہیں۔ مثلاً گورکھ کی طرف جانے والا راستہ تقریباً25 سال سے زیر تعمیر ہے لیکن معاملہ آج تک وہیں کا وہیں ہے۔ ہر برس کے بجٹ میں اس کے لیے رقم بھی مختص کی جاتی ہے اور اس میں ہر مرتبہ اضافہ کیا جاتا ہے، لیکن جب نیت ہی نہیں تو راستہ کیوں کر اور کیسے تعمیر ہوگا؟ جب آپ من پسند افراد کو ایسے ٹھیکے دیں گے تو آخر وہ کس طرح سے مکمل ہوپائیں گے؟ یہ ٹھیکہ آپ کسی بیرونی یا غیرملکی کمپنی کو دے کر دیکھ لیجیے، خود معلوم ہوجائے گا کہ وہ اسے کتنے قلیل عرصے میں مکمل کرکے دکھادے گی، اس کا معیار بھی ایسا نہیں ہوگا جس طرح یہاں ہوتا ہے کہ اگر ایک ماہ روڈ بنتا ہے تو دوسرے ماہ وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اے جی صاحب کے مطابق ٹھیکے دینے کا طریقۂ کار اب بہتر کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی کچھ ٹھیکیدار اورکمپنیاں اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جب سب کچھ سرکار کے ہاتھ میں ہے اور پھر بھی اگر ٹھیکے دینے کا عمل متاثر ہورہا ہے تو اس میں لامحالہ ہاتھ بھی پسِ پردہ سرکار ہی کا ہوگا، کیونکہ اس نے طریقہ کار ہی اتنا کمزور وضع کیا ہے کہ اس کے من پسند ٹھیکیدار اور کمپنیاں اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔
وفا ق کی زیادتیاں:
اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی حکومت اٹھارہویں ترمیم سے قبل اور بعد میں بھی کئی معاملات میں سندھ سے ناانصافی کا ارتکاب کرتی چلی آرہی ہے۔ مثلاً اس حوالے سے ان نمایاں اور خاص ناانصافیوں کا اے جی صاحب موصوف نے بھی ذکرکیا ہے کہ ’’سندھ کا بیشتر سرمایہ (رقم) این ایف سی کے ذریعے مرکز لے لیتا ہے‘‘۔ سندھ سرکار کا کہنا ہے کہ اب مرکز اشیاء پر سیلز ٹیکس بھی سندھ کے حوالے کرے جس سے سندھ کو اپنا 60 فیصد سرمایہ واپس مل سکے گا، کیونکہ اشیاء اور سیلز ٹیکس کا تخمینہ لگ بھگ 1700 ارب ر وپے ہے اور سندھ کو اس میں سے نصف رقم مل سکتی ہے۔ اسی طرح آئین کے تحت سندھ کی قدرتی گیس، تیل کا حقِ ملکیت بشمول بندرگاہ سندھ کے پاس ہونا چاہیے، لیکن مرکز ان اداروں پر بھی جبراً قبضہ کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح دیگر کئی اور ادارے مثلاً ایواکیوٹرسٹ، ای او بی آئی، زکوٰۃ اور عشر کی وصولی، بجلی اور پانی کے معاملات پر مرکز سندھ سے برسرپیکار ہے۔ سندھ کا جو کیس مرکز کی جانب ہے، اس کی سب حمایت کرتے رہے ہیں اور بلاشبہ اے جی صاحب بھی آئینی دلائل کے ساتھ مرکز کی طرف سندھ کے حقوق کے کیس پر لکھتے رہے ہیں، سندھی پریس اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اے جی صاحب اس کے متعلق جو خامہ فرسائی کرتے رہے اسے بھی عوام کے ہاں پذیرائی ملی ہے۔ لیکن مرکز کے ان ناانصافیوں پر مبنی ذکر کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سندھ کا جو کیس سندھ کی طرف باقی رہتا ہے اسے خاطر ہی میں نہ لایا جائے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ’’اگر مرکز ہمارا سرمایہ، بندرگاہ، تیل اور دیگر لگ بھگ 50 ادارے ہمیں (سندھ کو) واپس کردے تو روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوسکتے ہیں اور اس صورت میں سندھ کا کوئی بھی فرد بے روزگار نہیں رہے گا۔‘‘ یعنی سارا کیس وفاق کی گردن میں تو یہ ادارہ واپس نہیں ڈال رہا۔ اس لیے لوگ بے روزگار ہیں۔ سندھ حکومت کا کوئی بھی جرم نہیں ہے۔ وفاق سے سندھ کے حقوق لینا اور حکومتِ سندھ کے ہاتھوں سندھ کے عوام کے حقوق سے انحراف کرنا دوالگ الگ معاملات ہیں۔ لہٰذا اس کو دیکھنا بھی اسی پس منظر میں چاہیے۔ یہاں لوگوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں تو اس میں بھلا وفاق کا کیا قصور؟ تھر میں جو بچے لقمۂ اجل بنتے رہتے ہیں کیا یہ بھی وفاق کررہا ہے؟ اہلِ سندھ گٹروں کا پانی پینے پر مجبور ہیں کیا یہ سب کچھ بھی وفاق کے گلے میں ڈالا جائے گا؟ سندھ میں جو کرپشن ہورہی ہے اس کے لیے بھی کیا وفاق نے مجبور کیا ہے؟ وفاق کی طرف سندھ کا جو حساب کتاب ہے اسے لازمی طور پر ہونا چاہیے، لیکن اس حساب کتاب میں اہلِ سندھ کا سندھ سرکار اور پیپلزپارٹی کی طرف جو حساب کتاب باقی رہتا ہے اسے بھی قطعی طور پر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ لوگوں کو وہی سندھ دکھایئے جو حقیقت میں ہے۔ خیالی سندھ کے حقائق اظہر من الشمس ہیں۔‘‘
nn

حصہ