(پاناما کس فیصلے کے بعد نئی سیاسی صٖ بندی ہوگی؟(میاں منیر احمد

185

پاناما کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ اس کیس میں ہر فریق کو دلائل دینے کا موقع اور وقت دیا گیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے قرار دیا گیا کہ تفصیلی فیصلہ دستاویزات کا جائزہ لے کر جاری کیا جائے گا۔
پاناما کیس کی سماعت مکمل ہونے سے فریقین کی طرف سے میڈیا میں ایک دوسرے پر زبان درازی اور بیانات کی سنگ باری سے ملک میں جو ایک ہیجان کی کیفیت تھی اس سے اب نجات ملی ہے۔فیصلہ جو بھی آتا ہے اس کے نتائج دوررس ہوں گے۔ پاناما پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین کیس ہے۔ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فیصلے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کو اس کیس میں فریقین کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات اور ان کی شہادتوں کی روشنی میں بہرصورت میرٹ پر ہی فیصلہ کرنا ہے جس کے تحت ایک فریق کے لیے خوشی اور دوسرے کے لیے ناکامی اور غم کی فضا بنتی ہے تو یہ فریقین کا اپنا معاملہ ہے، عدالت یقیناًدستاویزات کا بغور، مفصل اور تسلی سے جائزہ لے کر فیصلہ صادر کرے گی۔ اگرچہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے بارے میں قبل ازوقت کچھ لکھنا یا کہنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن امکان یہی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کوئی معیار ضرور طے کرے گی جس کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ججوں کے خلاف زیر سماعت کارروائی ایک مثال قرار پاسکتی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں لاہور ہائی کورٹ کے ججوں جسٹس مظہر سندھو، مظاہر نقوی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سماعت زیر التواء ہے۔ جسٹس مظہر سندھو تو مستعفی ہوچکے ہیں، دیگر دو ججوں کو طلب کیا گیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے خلاف الزامات کی سماعت کھلی عدالت میں چاہتے ہیں لیکن فیصلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہی کریں گے۔ وہ ضرور عدلیہ میں احتساب کو انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے لیے ایک اچھی مثال کے طور پر پیش کرنا چاہیں گے۔ ملک میں ٹیکسوں کے نظام میں پائے جانے والے خلاء اور آف شور کمپنیوں کے بارے میں کوئی قانون نہ ہونے پر بھی سپریم کورٹ تمام حالات کا جائزہ لے کر آگے بڑھے گی، لیکن یہ بات تو تقریباً واضح ہے کہ سپریم کورٹ پاناما کیس میں کسی بھی فریق کو کلین چٹ نہیں دے گی۔ ایف بی آر، نیب اور ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کے لیے کوئی نہ کوئی گائیڈ لائن ضرور واضح کرے گی۔ اگر اس کا مختصر ترین الفاظ میں ذکر کیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف اپنا الزام ثابت نہیں کرسکی اور نوازشریف اپنی صفائی پیش نہیں کرسکے۔ دونوں فریقوں کی جانب سے عدالت میں پیش کی جانے والی دستاویزات مسلسل ابہام پیدا کرتی رہیں، اور عدالت کو دریا کے پار اترنے کے بعد ایک نئے دریا کا سامنا رہا۔ اب عدالت ان دستاویزات کی روشنی میں ہی فیصلہ لکھے گی۔
عدالت کا فیصلہ جو بھی ہو، اس فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل بڑھ جائے گی اور نئے سیاسی اتحاد تشکیل پاسکتے ہیں، اور مسلم لیگ (ن) کے اندر موجود خاموشی بھی ٹوٹ جائے گی۔ اس کی صفوں میں سے باغی نئی راہ اپنا سکتے ہیں۔ اپوزیشن کی صف بندی کے لیے امکانی صورتِ حال یہ ہوسکتی ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گی۔ دونوں جماعتیں پنجاب میں سیاسی اتحاد کے بجائے غیر اعلانیہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد دونوں جماعتوں میں پائی جانے والی خاموش مفاہمت آگے بڑھے گی اور پیپلزپارٹی بھی اس کا حصہ بن رہی ہے، لیکن ابھی ان تینوں جماعتوں میں سیاسی تعاون کی عملی شکل نہیں بن سکی ہے، تاہم اس جانب آہستہ آہستہ پیش رفت ہورہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ناراض اور نظرانداز کیے جانے والے افراد بھی ان جماعتوں کی سیاسی شراکت داری کی بس میں سوار ہوجائیں گے۔ ملک میں مردم شماری بھی ہورہی ہے، اگلے عام انتخابات تک مردم شماری کے نتائج سامنے آجائیں گے، لہٰذا اس کی روشنی میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بھی بڑھ جائیں گی۔ پارلیمنٹ میں ایک آئینی پیکیج کے ذریعے پارلیمنٹ کی نشستوں میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ نئے حلقے بن جانے کی توقع پر تمام سیاسی جماعتوں کے پاس امیدواروں کے لیے لولی پاپ ہوگا، اسی لیے مستقبل قریب میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا موسم بھی گرم رہنے کا امکان ہے۔ رہ گئی بات قوم پرست جماعتوں کی۔۔۔ تو ان جماعتوں سے وابستہ شخصیات کا سیاسی دائرۂ اثر بہت محدود ہے اور ان کی سیاست اپنے حلقوں سے شروع ہوتی ہے اور وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ جماعتیں محدود تعاون دے سکتی ہیں اور دوسری جماعتوں سے محدود سیاسی تعاون ہی لے سکتی ہیں۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے پاس پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ووٹ نہیں ہیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی کو اندرون سندھ میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ تمام وڈیرے اب اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ٹھٹہ کے شیرازی برادران اور نوشہرو فیروز کا جتوئی خاندان بھی سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک انتہائی ذمہ دار اور پارٹی کے پالیسی ساز ادارے کے رکن نے بتایا کہ ’’پیپلزپارٹی سندھ میں سولو فلائٹ کرے گی اور پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے جارہی ہے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تفصیلات طے کی جارہی ہیں۔‘‘ مسلم لیگ کے دیگر چھوٹے دھڑے پرویزمشرف کی جانب دیکھ رہے ہیں، لیکن پرویزمشرف کے فیس پر ملک میں نہ کوئی ووٹ لے سکتا ہے اور نہ سیاسی مقبولیت کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا مسلم لیگ کے چھوٹے دھڑے اپنی سیاسی بقا کے لیے کوئی بھی ماسک اپنے چہرے پر چڑھا سکتے ہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے وزیراعظم نوازشریف کے انتہائی قریبی ساتھی بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو کٹ ٹو سائز کیا جاسکتا ہے جس کے لیے انتخابی حلقوں کے متوقع کامیاب امیدواروں کے لیے نئی ’’سیاسی بستیاں‘‘ بنائی جاسکتی ہیں۔ جن شخصیات نے حکومت کے خلاف عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے کی حمایت اور سرپرستی کی تھی وہ آج بھی اسلام آباد میں سرگرم عمل ہیں، ان کے تھنک ٹینک کام کررہے ہیں، بہت سے کالم نگار ان کے پے رول پر ہیں، مختلف میڈیا ہاؤسز کی باہمی چپقلش کے پیچھے بھی یہی شخصیات اور ان کے تھنک ٹینک ہیں۔ اس تناظر میں اگر مسلم لیگ (ن) کے حالیہ اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات سامنے آتی ہے کہ شاید یہ تھنک ٹینک اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کے درمیان دوریاں پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں، کیونکہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات ایک محاذ ایسا ہے جہاں نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ محاذ بلاشبہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے انتہائی اہم ہے اور کسی بھی قیمت پر اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام آباد کے اہم حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ افغان معاملات میں وزیراعظم نوازشریف کا محمود خان اچکزئی پر بہت زیادہ انحصار مسائل کی وجہ ہے۔ افغانستان میں بھارت کی مکروہ کارروائیاں نظرانداز کرنے پر اسلام آباد کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ محمود خان اچکزئی کا مؤقف ہے کہ ’’ہمیں کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا ملک ہمارے دشمن کو جگہ دے، اور ہمارا دشمن وہاں سے کارروائی کرے اور ہم عدم مداخلت کے اصول کا تعویذ گلے میں لٹکائے پھرتے رہیں، یہ کہاں کی دانش مندانہ سفارت کاری اور حب الوطنی ہے؟ نائن الیون کے بعد بلاشبہ ہماری مشرقی سرحد بھارت اور مغربی سرحد افغانستان کے حوالے سے ان ملکوں کی جانب سے ہمارے گرم تعاقب کی زد میں رہی ہے اور حکومت ان مسائل کے مقابلے کے لیے کوئی قابلِ عزت اور قابلِ اعتماد پالیسی نہیں دے سکی۔
nn

حصہ