(سندھ میں سستی موت(مجاہد چنا

228

سندھ زبوں حالی کا شکار ہے۔ اطلاعات مظہر ہیں کہ تھر میں ماہ رواں سے تاحال 18 بچے لقمۂ اجل بن چکے ہیں او ریہ المناک سلسلہ مزید جاری رہنے کا اس لیے بھی شدید خطرہ موجود ہے کہ ہمارے ’’نوجوان‘‘ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی جو یہ بظاہر تو متحرک دکھائی دینے کی بہت کوشش کرتے ہیں تاہم عملاً سارے صوبہ سندھ سمیت سندھ تھر میں بھی ان کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کے لیے تاحال ایسے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے سندھ میں سابق ضعیف العمر وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ او رموجودہ ’’نوجوان‘‘ وزیراعلیٰ موصوف کی وزارت علیا کے مابین اہل سندھ کو کسی نوع کا کوئی عدم فرق معلوم ہوسکتا۔ گزشتہ چار برس میں تھر کے 2250 معصوم بچے محض خوراک کی قلت او رطبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی جان کی بازی ہارچکے ہیں کیا اتنی بڑی تعداد میں پھول جیسے معصوم بچوں کی ہلاکتیں ہمارے حکمران طبقہ کے دردل پر دستک دینے اور ان کے جذبۂ انسانیت کو بیدار کرنے اور جنجھجوڑنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ معمولی امراض کی شکایت پر بھی بیرون ملک جاکر علاج کروانے والے پی پی اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کا کیا یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ وہ ہمیشہ اسی طرح سے زندہ سلامت اور برسراقتدار رہ کر غریب اہل وطن کا راستحصال اور استیصال کرتے رہیں گے اور سرکاری ٹیکسز کی رقومات سے اپنا اور اہل خانہ کا برطانیہ اور امریکہ کے مہنگے ترین اسپتالوں میں مفت علاج کراتے رہیں گے؟ سابق صدر زرداری اور ان کے حواریوں کو عوامی مسائل و مصائب کو حل کرنیس ے کہیں زیادہ اپنی تجوریاں بھرنے سے غرض ہے۔ تھر میں قحط سالی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ انگریزوں کے عہد حکومت مین بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خوراک اور پانی کی قلت ہوجایا کرتی تھی لیکن ’’کافر‘‘ انگریز تھر کے انسانوں اور جانوروں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے خاطر خواہ پیشگی منصوبہ بندی کرکے بڑی تعداد میں انسانی جانیں بچانے میں کامیاب ہوجایا کرتے تھے نیز جانوروں کی خوراک کمی دور کرنے کے لیے بیرون علاقہ سے چارہ منگوایا جاتا تھا۔ لیکن اس جدید اور ترقی یافتہ سائنسید و رمیں ہمارے حکمران ٹولہ کی بے حسی اور سنگ دلی کے باعث تھر کے معصوم بچے محابہ اپنی جانیں ہار رہے ہیں عوام کو جان و مال کے حوالے سے تحفظ فراہم کرنا اور طبی سہولیات دینا حکومت اوقت کا فریضہ ہوتا ہے لیکن اگر آج صوبہ سندھ کے ایک عام فرد سے رائی لی جائے تو وہ برملا یہ کہہ اٹھتا ہے کہ ’’حکومت ہے کہاں؟‘‘گزشتہ دنوں حکومت سندھ نے قدیم آثار قدیمہ ’’موئن جوڈرو‘‘ کو بچانے کے لیے ایک کئی روزہ سیمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں بیرون ملک سے بھی ماہرین آثار قدیمہ منگوائے گئے تھے اور ’’موئن جوڈرو‘‘ میں ہونے والے مذکورہ سیمینار میں ملک اوربیرون ملک سے شرکت کرنے والے ان ماہرین نے ’’موئن جوڈرو‘‘ کے آثاروں کو بچانے کے لیے اپنی اپنی تجاویزپیش کی تھیں۔ کیا یہ ایک بہت بڑا المیہ اور ستم ظریفی کی انتہا نہیں ہے کہ صوبہ سندھ کی ایک بڑی زندہ آبادی صاف پانی‘ خوراک اور طبی سہولیات سے یکسر محروم ہے او رہمارے سنگ دل حکمران بجائے اہل صوبہ کے مسائل کے خاتمہ کے لیے ’’موئن جوڈرو‘‘ کے قدیم آثار کو بچانے کے لیی ان پر کروڑوں روپے صرف کررہے ہیں درآں حالیکہ امرواقعہ ت ویہ ہے کہ بہ قول سندھی اخبارات کے معروف کالم نگاروں کے ’’موئن جوڈرو تو ھپر بھی باوجود 5 ہزار سال پیشتر تعمیر ہونے اور پھر اجڑنے کے آج بھی موجودہ صوبہ سندھ سے اپنی ٹاؤن پلاننگ میں بہت بہتر دکھائی دیتا ہے ہمارے حکمرانوں نے تو سندھ کی موجودہ حالت زار ’’موئن جوڈرو‘‘ کے قدیم آثار سے بھی کہیں بدتر بناڈالی ہے۔‘‘ تھر تو میڈیا کے سبب فوکس بنا ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی تا کشمور اہل سندھ بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہیں۔ اور تو اور انہیں پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ صوبہ سندھ کی اسی حالات زار کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاسکتان کے یہ ریمارکس کہ ’’سندھ میں عوام کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے‘ یہاں لوگ زندہ کیسے ہیں؟ سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر جو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا بھی آبائی مسکن ہے بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہے اور اس کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرمریضوں کے لیے قصاب بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ سکھر اورلاڑکانہ کو تو ماڈل اضلاع ہونا چاہیے تھا تاہم صورتحال اس کے برعکس ہے۔ لاڑکانہ کے سرکاری اسپتالوں میں بھی سندھ اور بلوچستان سے آنے والے مریضوں کو بجائے طبی سہولیات کے دھکے اور گالیاں تک ڈاکٹرز سے سننے کو ملتی ہیں او ریہ سب کچھ آئے روز سندھی میڈیا کے توسط سے سامنے آتا رہتا ہے لیکن پی پی کے منتخب عوامی نمائندے ہیں کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔ صوبہ سندھ کے ایک ضلع میں تو نوبت بہ ایں جارسد کہ 20 خاکروب بھرتی کیے گئے جو بعد ازاں 18 ویں گریڈ میں افسر بن گئے اسی طرح ضلع گھوتکی کے ایک سرکاری اسپتال میں جس کا سالانہ بجٹ 6کروڑ روپے ہے 64 افراد صرف ایک ہی برداری کے بھرتی کردہ ہیں اور مریضوں پر ایک روپے تک خرچ نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے بھی معزز جج صاحب کو یہ فرماناپڑا کہ ’’کیا حکومت سندھ اپنے عوام سے نفرت کرتی ہے؟‘‘ تھر سمیت صوبہ بھر میں عوام کو خوراک ‘ طب اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیی حکومت سندھ کو ضروری اور ٹھوس اقدامات فوراً کرنے ہوں گے۔ اگرچہ ایں خیال است‘ محال است‘ وجنوں‘ کیوں کہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے عملی اقدامات صرف مخلص اور خوف خدا رکھنے والی قیادت ہی کرسکتی ہے۔

حصہ