(گوہر ملسیانی مرحوم(ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

576

دینی اور تحریکِ اسلامی کے حلقوں میں بطور شاعر، نعت گو اور بطور نثر نگار بخوبی متعارف،گوہر ملسیانی 25 فروری کو رات دس بجے خانیوال میں انتقال کر گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کرے، آمین۔
پیشے کے لحاظ سے وہ مدرس اور معلم تھے۔ برسوں سرکاری اسکولوں میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ سرکاری ملازمت سے سبک دوشی کے بعد چند دوستوں کی مدد سے صادق آباد میں پنجاب ہائر سیکنڈری اسکول آف سائنس کا آغاز کیا۔ مقصد طلبہ کو سائنس کی معیاری تعلیم دینا اور ان کی دینی و اخلاقی تربیت تھا۔ 8،9 برس تک یہ سلسلہ کامیابی سے چلا، پھر2003ء میں پیرانہ سالی کے سبب وہ اسکول کی ذمہ داریوں سے دستکش ہوگئے اور اپنی توجہ قلم و قرطاس پر مرکوز دی۔ چنانچہ ان کی تصانیف و تالیفات کا غالب حصہ آخری 13، 14 برسوں کی یاد گار ہے۔ انھوں نے نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا۔ نظم اور غزل کے ساتھ نعت بھی خوب خوب لکھی۔ چنانچہ نظم و غزل کے پانچ مجموعوں ’’شوقِ شہادت زندہ ہے‘‘، ’’چمن زارِ حقائق‘‘، ’’جلتی رتوں کی یاد‘‘، ’’آفتابِ آگہی کا سلسلہ‘‘ اور ’’رعنائیاں‘‘کے ساتھ نعت کے پانچ مجموعے ’’مظہرِ نور‘‘،’’متاعِ شوق‘‘، ’’جذباتِ شوق‘‘، ’’ارمغانِ شوق‘‘، اور ’’چشمۂ رحمت‘‘ بھی ان کی یادگار ہیں۔
وہ ایک اچھے ادیب اور تنقید نگار بھی تھے۔ ’’تفہیماتِ نعت‘‘ ان کی تنقیدی کتاب ہے۔ ایک تذکرہ انھوں نے ’’عصرِ حاضر کے نعت گو‘‘ کے عنوان سے بھی مرتب کیا۔ ’’حرمین شریفین کی فضاؤں میں‘‘ کے عنوان سے سفرنامۂ حج بھی تحریر کیا۔ ادبِ اطفال کے سلسلے میں نظم و نثر کی 9 کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ اقبالیات سے انھیں خاص شغف تھا۔ اقبالیاتی مضامین کے دو مجموعے ’’اقبال، علامہ اقبال کیسے بنے‘‘، ’’اقبال اور معارفِ اسلام‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ اور تیسرا مجموعہ’’اقبال کی فکری جہتیں‘‘کے نام سے مرتب کررہے تھے۔ ان کی تصانیف اور تالیفات کی تعداد چھتیس کے قریب ہے۔
گوہر ملسیانی کا اصل نام میاں طفیل محمد تھا۔ وہ 15 جولائی 1934ء کو ضلع جالندھر (بھارت)کے معروف قصبے ملسیان میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد صادق آباد میں مقیم ہوئے، آخری زمانے میں خانیوال میں آگئے تھے۔
حصولِ تعلیم کے لیے کئی برس تک لاہور میں مقیم رہے۔ گورنمنٹ سنٹرل ٹریننگ کالج میں پروفیسر اسحاق جلال پوری اور پنجاب یونی ورسٹی میں پروفیسر مشتاق الرحمن صدیقی، ڈاکٹر اقبال ظفر اور ڈاکٹر عبدالخالق (شعبہ فلسفہ) سے مقدور بھر اکتساب کیا۔
راقم کو 1978ء میں ان سے تعارف حاصل ہوا۔ وہ تنظیم اساتذہ پاکستان کی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے اور راقم نے بھی اسی غرض سے سرگودھا سے لاہور کے لیے رختِ سفر باندھا تھا۔ اس کے بعد بارہا ملاقاتیں ہوئیں۔ 1990ء کی دہائی میں جب وہ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے ایم فل اقبالیات کررہے تھے تو انھوں نے راقم کو اپنے مقالے (ضربِ کلیم، ابتدائی تین ابواب، تعلیقات و حواشی) کا نگران (Supervisor) بنانا پسند کیا۔
ان کی نثری تحریریں زیادہ تر طلبہ کے اکتساب اور عام قارئین کے استفادے کے لیے ہیں۔ انھوں نے بڑے سادہ مگر علمی اور ادبی انداز میں تنقیدی توضیحات پیش کی ہیں۔ معلم اور مدرس ایک معنی میں اور ایک حد تک خطیب بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے اسلوب میں خطابت کی ہلکی سی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ وفات سے تقریباً ایک سال قبل فروری 2016ء میں گوہر صاحب نے اپنے مجموعۂ مضامین ’’اقبال اور معارفِ اسلام‘‘کا جو دیباچہ لکھا تھا، اس کا حسبِ ذیل اقتباس ان کے مخصوص اسلوب کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’مسلمانوں کے زوال کے حقائق کو پاکر [علامہ اقبال] ملت اسلامیہ کو باوقار اور صاحبِ اقتدار بنانے کے لیے اپنے خطبات اور شعری تخلیقات کی کہکشاں سجانے لگے۔ ’’اسرار و رموز‘‘ سے لے کر ’’ارمغانِ حجاز‘‘ تک تمام فارسی اور اردو کلام جہاں فکر و فن کی رعنائیاں لیے ہوئے ہے، وہاں فصاحت و بلاغت کی یکتائیاں لیے ہوئے ہے، بلکہ حکمتِ قرآن کی دانائیاں اور حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آشنائیاں بھی لیے ہوئے ہے۔ ایک جمال ہے جو ان کے اشعار میں چمکتا ہے، ایک جلال ہے جو ان کے افکار میں دمکتا ہے، ایک اور بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ان کی تخلیقات میں کہیں مایوسی نہیں ہے، امیدوں کے چراغ جلتے ہیں جو طمانیت کا حسین و دل ربا رنگ رکھتے ہیں‘‘۔
اقبالیات کے فروغ کے لیے وہ عمر بھر کوشاں رہے۔ 1969ء میں جب وہ صادق آباد میں صدر معلم تھے، انھوں نے’’مجلس اقبال‘‘کے نام سے ایک علمی و ادبی تنظیم قائم کی۔ مقصود فکرِ اقبال کی نشر و اشاعت تھی۔ اس مجلس کے ذریعے انھوں نے جلسوں اور تقریروں کے ساتھ ساتھ اسکولوں کے طلبہ کے درمیان کلامِ اقبال پڑھنے کے مقابلوں کا اہتمام بھی کیا۔ دورِ متعلمی کے تیس برسوں میں جہاں اور جس حیثیت میں موقع ملا، وہ اقبال کے پیغام کو نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ بچوں کے لیے انھوں نے ’’اقبال کی نظمیں‘‘کے عنوان سے ایک کتاب بھی شائع کی۔
ان کی علمی اور ادبی خدمات پر ایم اے اردو کا ایک مقالہ بعنوان ’’گوہر ملسیانی، شخصیت اور شاعری‘‘ بہاول پور یونی ورسٹی میں لکھا گیا۔ اسی طرح ایم فل اردو کا ایک اور مقالہ ’’گوہر ملسیانی کی نثری خدمات‘‘ کے عنوان سے اسی یونی ورسٹی میں تحریر کیا گیا۔ علاوہ ازیں سبطِ جمال پٹیالوی نے ’’گوہر ملسیانی، شخصیت اور فن‘‘ کے نام سے ایک بہت عمدہ کتاب تصنیف کی جس میں بڑی جامعیت کے ساتھ مرحوم کی شخصیت اور ان کی شعری و نثری خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ قدر شناسی کی یہ ایک اچھی مثال ہے۔ آٹھ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے دیباچے میں ڈاکٹر نجیب جمال نے مرحوم کے بارے میں بہت عمدہ بات کہی ہے۔ لکھتے ہیں :’’تخلیقی اعتبار سے وہ مولانا حالی کی اس روایت سے وابستہ نظر آتے ہیں، جس میں شائستگی، اخلاق، سادگی، ہمواری اور نرمی کو ایک نیکی کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح معروف ادیب اور ماہنامہ ’’نعت رنگ‘‘کے مدیر جناب صبیح رحمانی نے گوہر صاحب کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے: ’’انھوں نے ادب کی مختلف جہتوں میں بڑے اہم کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ وہ ادب کے ایک مجاہد قلم کار ہیں اور پاکستانی اہلِ قلم کے اس اوّلین کارواں میں شامل ہیں جس کی مساعیِ جمیلہ نے اسلامی ادب کی ایک تحریک کو جنم دیا۔ اور آج اسلامی ادب کی اساسی اصنافِ سخن میں حمد و نعت، تخلیقی ادب کی معیاری اور مقداری اعتبار سے سب سے زیادہ معرضِ وجود میں آنے والی اصناف ہیں۔‘‘
ہر شخص کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کوہ ہمالیہ کو سر کرے، نہ ہمیں ہر ایک سے یہ توقع رکھنی چاہیے۔ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے جتنی صلاحیت دی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اُس نے اس صلاحیت کو کس کام میں اور کس انداز میں صرف کیا ہے۔ گوہر ملسیانی نے پایانِ عمر اپنی بہترین صلاحیتوں کو دعوتِ خیر و فلاح میں صَرف کیا۔وہ عمر بھر نیکی،بھلائی، شرافت اور خیر کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔دنیاوی اعتبارسے انھوں نے ایک کامیاب زندگی گزاری۔ امیدِ واثق ہے کہ بفضلِ تعالیٰ وہ آخرت میں بھی سر خرو ہوں گے۔ nn

حصہ