(افغانوں اور پشونوں کی گرفتاریاں اور مرودم شماری کا تنازع(اخوند زادہ جلال نور زئی

230

پورے ملک میں افغان اور پشتون عوام کی پکڑ دھکڑ کا توہین آمیز سلسلہ جاری ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ جب بھی ملک کے کسی مقام پر دہشت گردی کا سانحہ رونما ہوتا ہے، گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بلوچستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی پر مردم شماری کے التوا کے لیے احتجاج ہورہا ہے۔ نواب زادہ لشکری رئیسانی نے 18فروری کو جرگہ طلب کیا تھا۔ ادھر حکومت نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں مزید قیام میں 2017ء تک توسیع کردی ہے۔ اب یہ خود افغان باشندوں پر بھی منحصر ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا احساس کریں، پاکستان کے اندر درپیش مسائل و مشکلات کا ادراک کریں اور اپنے وطن افغانستان کی راہ اپنائیں۔ لاہور اور سیہون خودکش بم دھماکوں کے بعد پنجاب اور سندھ کے اندر رہائشی آبادیوں، کاروباری مراکز اور عام شاہراہوں پر پشتون عوام کو روکا جاتا ہے۔ جامہ تلاشی ہوتی ہے۔ دکانوں سے اٹھا کر تھانوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز ریلیز ہورہی ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں پشتون تاجروں اور مزدوروں کو انتہائی تضحیک اور توہین کے ساتھ حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ان پر لاٹھیاں برسائی گئی ہیں۔ مُکوں اور گھونسوں کے ساتھ گھسیٹا گیا ہے۔ تن کے کپڑے پھاڑ دیے گئے ہیں۔ یہ سب وہاں کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کررہے ہیں۔ یقیناًبلوچستان اور خیبر پختون خوا کے عوام میں اس ناشائستہ اور خلافِ قانون رویّے اور سلوک پر برہمی بلکہ انتہائی غم و غصے کا اظہار ہورہا ہے۔ مقامی پشتون اور افغان مہاجر کی تفریق کیے بغیر امتیازی اور ہتک آمیز رویہ روا رکھا گیا ہے۔ وہاں کی پشتون آبادیوں میں پولیس کے چھاپے پڑرہے ہیں۔ تاجروں کا اندراج کیا جا رہا ہے۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں محنت مزدوری کرنے والے پشتون عوام کو اس اندھے انتقام کا سامنا ہے۔ سندھ کی اُن آبادیوں تک کو استثنا نہیں دیا گیا جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی وہاں آباد ہوچکی تھیں۔ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ حراست میں لیے جانے اور بے عزتی کے خوف سے مقامی پشتون گھروں سے باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس توہین کا اُن صاحبِ حیثیت لوگوں کو بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے جن کی ان علاقوں میں عشروں سے بڑی بڑی زمینداریاں اور کاروبار ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ سلوک جو ملک کے باشندوں سے کیا جارہا ہے، کیا انہیں زیب دیتا ہے؟ اور کیا ان غیر اخلاقی اقدامات سے پشتون عوام کے دلوں میں نفرت پیدا نہیں ہوگی؟ یقیناًیہ طرزعمل پنجاب اور سندھ حکومت کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گا۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو ان اقدامات کا نوٹس لینا چاہیے، بطورِ خاص جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کو۔۔۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی سندھ اور پنجاب کی حکومتوں سے وضاحت طلب کریں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان اسمبلی میں اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو تنبیہ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ سچی بات ہے کہ ان اقدامات سے نسلی و قومی امتیاز و تفاوت کی نشاندہی ہورہی ہے اور لامحالہ اس طرزِعمل سے نسلی بنیادوں پر نفرتوں کو مہمیز ملے گی۔
ستم دیکھیے کہ بلوچستان کے اندر بھی افغان مہاجرین کے قیام پر بلوچ سیاسی جماعتوں کے احتجاج کی آڑ میں قومی و نسلی نفرتوں کو ہوا دی جارہی ہے۔ افغان مہاجرین کا مردم شماری میں اندراج روکنا حکومت کا کام ہے اور جن افراد نے شناختی کارڈ حاصل کررکھے ہیں، ان کے شناختی کارڈوں کی منسوخی بھی نادرا اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر پشتون سیاسی جماعتیں اس بات پر اڑی ہوئی ہیں کہ افغان باشندوں نے پاکستانی شناختی کارڈ سرے سے حاصل کیے ہی نہیں، تو میرے خیال سے یہ بھی مبنی برانصاف دعویٰ اور بات نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ افغان باشندے ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی دستاویزات حاصل کرچکے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ کہ مردم شماری کے ایشو پر سیاست کو منفی رخ دینے کی کوششیں ہورہی ہیں، صوبے کی تقسیم کی باتیں چل نکلی ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ بولان پختون خوا وطن کی تقسیم کی حد ہے، تو کوئی کہتا ہے کہ پشتون الگ صوبے کا مطالبہ کریں، لیکن ان کی حد جلوگیر یعنی کچلاک تک ہے۔ تاریخ اور حقائق میں پڑے بغیر محض اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ افغان مہاجرین کی موجودگی کی آڑ میں خدارا صوبے کے عوام کے درمیان قائم بھائی چارے کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ بعض لکھاری آگ پر برابر تیل چھڑکنے کی سعی کررہے ہیں۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام اس
(باقی صفحہ 41 پر)
حقیقت کو تسلیم کریں کہ بلوچستان کے اندر افغان باشندے پاکستانی دستاویزات بنواکر گھل مل چکے ہیں۔ چنانچہ یہ مسئلہ بنیادی طور پر قانونی و انتظامی ہے اور مردم شماری میں افغانوں کے اندراج کو روکنے کے لیے قانون کا سہارا بہتر راستہ ہے۔ اس بابت سیاسی بحث و مباحثہ اور چپقلش سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
نواب زادہ لشکری رئیسانی نے اس تناظر میں قومی یکجہتی جرگہ طلب کیا تھا جس میں سیاسی و قبائلی عمائدین شریک ہوئے، جن میں نمایاں سردار اختر مینگل، مولانا محمد خان شیرانی، سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، ڈاکٹر عبدالمالک کاسی، سردار کمال خان بنگلزئی، بسم اللہ خان کاکڑ، جمعیت علماء اسلام کے قائم مقام امیر مولانا عبدالقادر لونی، بی این پی عوامی کے نائب صدر سید احسان شاہ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ تھے۔ غرض اس جرگہ میں جاری کیا گیا اعلامیہ صائب تھا۔ سرِدست مطالبہ یہ سامنے آیا کہ غیر ملکیوں کی مردم شماری میں شمولیت روکی جائے اور بلوچستان کے جن اضلاع میں آپریشن یا امن وامان کے باعث بلوچ خاندان دوسرے علاقوں کو نقل مکانی کرچکے ہیں، ان کی دوبارہ آبادکاری یقینی بنائی جائے۔ یقیناًغیر مقامی افراد کا قیام اور پاکستانی شہریت کا حصول سنگین سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا باعث بنا ہے۔ لہٰذا مقامی افراد کے مفادات کا تحفظ بہرصورت ضروری ہے۔ چنانچہ حکومت صوبے میں شفاف اور غیر متنازع مردم شماری یقینی بنائے۔ رہی بات افغان مہاجرین کی، تو وہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے پاکستان آئے ہیں۔ ان افغان باشندوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اگر کوئی افغان باشندہ کسی جرم یا دہشت گردی میں ملوث پایا گیا ہو تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کی آبادیوں پر دھاوا بولا جائے، ہر افغان شخص کو سڑکوں اور چوراہوں پر تشدد اور نفرت کا نشانہ بنایا جائے۔

حصہ