(بھارت کے نام چین کا پیغام دوستی(سید عارف بہار

254

بھارت‘ چین اور بھارت‘ پاکستان تعلقات اس وقت مخاصمت اور مخالفت کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔ بالادستی، پچھاڑ اور نیچا دکھانے کی ایک میراتھن جاری ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ خوفناک مخاصمت کی ان فضاؤں میں اچانک موافقت کے بادل سایہ فگن ہورہے ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ترکی میں اچانک اشاروں کنایوں کے ذریعے بھارت کو خیرسگالی کا پیغام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ اچھا ہمسایہ بن کر رہنا چاہتے ہیں۔۔۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہیں کرنی چاہئیں۔۔۔ بھارت سے بڑے پیمانے پر تجارت چاہتے ہیں۔۔۔ بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ ہے۔ میاں نوازشریف کے بیان کے چند دن بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اترپردیش میں بہت بھولپن کے ساتھ جوابی اشاروں کی زبان میں ہی کہا کہ بھارت نے کبھی پڑوسی ملک کا برا نہیں چاہا۔۔۔ امن کی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔۔۔ پاکستان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔۔۔ ہم خطے میں امن اور ترقی چاہتے ہیں۔۔۔ غربت اور جہالت کے خلاف مشترکہ طور کمربستہ ہونا چاہتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان اشاروں کی زبان، اور پیغام اور جوابی پیغام کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا پاک بھارت امن کی کونپل دوبارہ پھوٹ پڑے گی؟ اشاروں کی زبان کا یہ تبادلہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے حکومت نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو نظربند کردیا، جس پر بھارت نے نہایت محتاط ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ وہ دیکھیں گے کہ یہ نظربندی حقیقی ہے یا مصنوعی؟ اس کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے فرانس میں حافظ محمد سعید کو خطرہ قرار دیا اور ان کی تنظیم کے خلاف مزید اقدامات اُٹھانے کا عندیہ دیا۔ ایک طرف پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادتوں کے درمیان اشاروں اور کن اکھیوں سے پیغام رسانی ہوئی تو دوسری طرف دونوں طرف کی فوجی قیادتوں کے لہجوں کی سختی پوری طرح برقرار رہی۔ پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایک اور ’’راحیل شریف‘‘ کی شبیہ میں ڈھلتے دکھائی دئیے۔ ان کے لہجے میں وہی کھنک اور سختی عود کرآئی جو بھارت کے حوالے سے ان کے پیش رو کا خاصہ اور شناخت تھی۔ جنرل باجوہ نے ایک مرحلے پر کہا کہ پاکستان مشرقی سرحد پر خطرات سے غافل نہیں، اور یہ کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال سے توجہ ہٹانے کے لیے کنٹرول لائن پر فائرنگ کررہا ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے کشمیر کے عام لوگوں کو سختی سے متنبہ کیا کہ وہ فوج کے ساتھ تصادم میں آپریشنوں میں رکاوٹ نہ ڈالیں، ان کے ساتھ بھی عسکریوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔ یہ اس بات کی دھمکی تھی کہ بھارت کشمیر کی تحریک کو کچلنے کے لیے زیادہ بے رحمی سے طاقت کا استعمال کرے گا۔
اشاروں کی زبان کے تبادلے سے چند ہی دن پہلے ایک اہم سرگرمی ہوئی، جس کا تعلق خطے میں دو متحارب مگر اُبھرتی ہوئی معیشتوں چین اور بھارت کے درمیان تنازعات اور موجودہ کشمکش کے پائیدار حل کی پہلی مؤثر کوشش سے تھا۔ یہ بھارت کے سیکرٹری خارجہ جے شنکر اور چین کے نائب منتظم مشیر برائے امور خارجہ زہینگ یسوئی کے درمیان ہونے والی ملاقات تھی جسے پہلا اسٹرے ٹیجک ڈائیلاگ کہا گیا۔ اخبار نے اس ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکام کچھ کامیابیوں کے باوجود مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہیں۔ بھارت نے چین سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ اور جیشِ محمد کے سربراہ کے حوالے سے شکوے کیے۔ چینی نمائندے نے ان معاملات کو دوطرفہ نہیں بلکہ ہمہ پہلو کہا۔ گویا کہ یہ چین اور بھارت کے درمیان محدود معاملات نہیں بلکہ ان کے کئی اور فریق ہیں اور ظاہر ہے پاکستان ان میں سرفہرست ہے۔ گویاکہ چین بھارت کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے تنازعات کو بھی سامنے رکھنا چاہتا ہے۔ ایسا نہیں کہ چین بھارت کے ساتھ اپنے مسائل حل کرکے پاکستان اور بھارت کے مسائل کو ان کے حال پر چھوڑ دے۔ چینی اخبار لکھتا ہے کہ بھارت اور چین دونوں اقتصادی دیو ہیں لیکن دونوں معیشتوں کا فرق سمجھنا چاہیے۔ اس فرق کو سمجھنا دونوں ملکوں کو ترقی کے نئے ادوار سے آشنا کرسکتا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ چین نے اقتصادی ترقی کے سفر میں امریکہ سے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ چین بھارت کو یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ اپنی معیشت کا فرق محسوس کرکے فرنٹ سیٹ پر قبضہ جمانے کی روش ترک کردے اور خطے میں چین کی اقتصادیات کو نمبر ون تسلیم کرکے تعاون اور دوستی کا راستہ اختیار کرے۔ اخبار نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ذکر کیے بغیر لکھا ہے کہ کچھ حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد اس منصوبے پر پیش رفت ہوسکتی ہے جس کا تعلق چین، بھارت، بنگلہ دیش اور میانمار اقتصادی راہداری کے مجوزہ منصوبے سے ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اس فرق کو سمجھتا ہے یا وہ امریکہ اور مغربی ملکوں کے شہ دلانے پر فرنٹ سیٹ پر قبضہ جمانے کی بے مقصد کوششیں جاری رکھتا ہے؟ چین نے بھارت کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے، عین ممکن ہے کہ بھارتی فیصلہ سازوں کا ایک حلقہ چین کی طرف سے دوستی کے بڑھے ہوئے اس ہاتھ کو تھامنے پر آمادہ ہورہا ہو۔
اس ملاقات کو دونوں ملکوں کے درمیان ایک خوش کن آغاز کہا جارہا ہے، مگر اس کا اصل احوال اور نچوڑ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ترجمان گلوبل ٹائمز نے بیان کیا ہے۔ اس دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے الجھی ہوئی ڈور یعنی کشمیر کے حوالے سے بھارت کے اندر سے کچھ اور حوصلہ افزا اور معتدل آوازیں بلند ہونے کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔ ایسی ہی ایک آواز کانگریسی لیڈر چدم برم کی ہے۔ سابق وزیر داخلہ اور کانگریس کے لیڈر چدم برم نے نئی دہلی میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ بھارت کشمیر کھو دینے کے قریب پہنچ چکا ہے اور بھارتی فوج کے سربراہ کی طرف سے فوجی آپریشنوں میں مداخلت کرنے والے عام لوگوں کو دھمکی اس ٹوٹتے اور کمزور ہوتے ہوئے تعلق کے لیے آخری تنکا ثابت ہوگئی ہے۔ اس کے لیے چدم برم نے انگریزی محاورہ Last straw استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خطرناک بات ہے کہ وادئ کشمیر کے سات ملین لوگ خود کو بھارت سے دور اور الگ تھلگ سمجھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی فوج نے برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں طاقت کا ظالمانہ استعمال کیا جو ایک خوفناک غلطی تھی۔
بھارت کے سابق وزیر نے آج کے کشمیر کی بالکل ٹھیک عکاسی کی ہے۔ اس سے پہلے ایک اور سابق وزیر یشونت سنہا کی سربراہی میں جاری رپورٹ میں بھی بھارتی فوج کی طرف سے بے محابا تشدد کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا تھا کہ کشمیر کی مائیں موت کے خوف سے آزاد نسلوں کو جنم دے رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی کشمیری زبان میں ایک تقریر کی وڈیو کلپ بھی ان دنوں میڈیا میں زیربحث ہے جس میں وہ دوٹوک انداز میں کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کے نوجوان نوکریوں، اسمبلی کی رکنیت اور وزارتوں کے لیے نہیں آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، ان کی آواز کو سنا جانا چاہیے۔ کشمیری نوجوان آزادی کے لیے اپنا خون بہا رہے ہیں۔ کشمیر کے ڈوگرہ لیڈر اور پنتھرز پارٹی کے سربراہ پروفیسر بھیم سنگھ نے بھی کہا ہے کہ پتھر کے جواب میں گولی انتہائی ظالمانہ رویہ ہے۔ وہ خود زمانۂ طالب علمی میں سیاسی جدوجہد کے دوران انتظامیہ اور پولیس پر پتھر برساتے مگر اس کا جواب گولی سے نہیں ملتا تھا۔ بھیم سنگھ بائیں بازو کے سوشلسٹ مزاج راہنما ہیں اور وہ سری نگر میں حریت قیادت سے ملاقاتیں بھی کررہے ہیں۔ یہ سب کسی حریت پسند کی آوازیں نہیں بلکہ اُن لوگوں کی گواہی ہے جو یا تو بھارتی شہری ہیں، اس کے نظام سے مختلف اوقات میں فیضیاب ہونے والے ہیں، یا پھر جموں و کشمیر کے ایسے باشندے ہیں جو کل تک خود کو فخر سے بھارتی شہری قرار دیتے تھے۔
چین اور بھارت کے درمیان اسٹرے ٹیجک ڈائیلاگ کی ابتدا ہوچکی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے تنازعات اس ڈائیلاگ کا لازمی جزو ہیں۔ چین نے کچھ مسائل کوBilateral کے بجائے Multilateral کہہ کر صاف پیغام دیا کہ چین اور بھارت کے کچھ معاملات پاکستان کو بیچ میں رکھ کر حل کرنا پڑیں گے۔ بھارت کو بلوچستان،کراچی اور قبائلی علاقوں میں بدترین شکست ہورہی ہے۔ان علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال ہوچکی ہے۔بھارت کا آخری کارڈ پاکستان اور چین کو افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا تک پہنچنے سے روکنا تھا۔ بھارت کو اس میں جزوی کامیابی تو ہوئی مگر پاکستان نے افغانستان کو بائی پاس کرتے ہوئے خنجراب کے ذریعے وسط ایشیائی ریاستوں سے روابط کا طریقہ ڈھونڈ لیا، جس سے بھارت کی اسٹریٹجی عملی بساط پر پٹ چکی ہے۔ بھارت کی اسٹریٹجی کو بہت سے محاذوں پر شکست دینے کے بعد ہی پاکستان کی فوجی قیادت نے بھارت کو کچھ عرصہ قبل سازشیں چھوڑ کر اقتصادی راہداری منصوبے سے مستفید ہونے کی پیشکش کی تھی۔ چین اور بھارت کے درمیان مخاصمت اور دشمنی کی حدوں سے گزرتی ہوئی مسابقت کے موافقت میں تبدیل ہونے کا بظاہر تو امکان نہیں، مگر یہ ناممکن بھی نہیں۔ مغرب بھارتی قیادت کو مصنوعی طریقے سے چین کے مقابل کھڑا کرنے کی کوششیں ترک کردے تو یہ معجزہ رونما بھی ہوسکتا ہے اور اس سے جنوبی ایشیا میں ایک نئے دور کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔
nn

حصہ