(انبیاء کے واقعات سنانے سے قراان کا مقصد(سید مہر الدین افضل

3176

( ماخوذ اَزحاشیہ نمبر:50)
رکوع 8 آیت نمبر 59 تا 64 ارشاد ہوا:۔ ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔اس نے کہا ’’اَے بَرادرانِ قوم، اَللہ کی بندگی کرو، اس کے سِوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دِن کے عَذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘ اس کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا ’’ہم کو تو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔‘‘ نوحؑ نے کہا ’’اَے برادرانِ قوم، میں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہوں، بلکہ میں ربّ العالمین کا رَسول ہوں، تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں، اَور مجھے اَللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے، جو تمہیں معلوم نہیں ہے۔ کیا تمہیں اِس بات پرتعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعے سے تمہارے ربّ کی یاد دہانی آئی تاکہ تمہیں خبردار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے؟‘‘ مگر انہوں نے اس کو جھٹلادیا۔ آخرِکار ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی، اور ان لوگوں کو ڈبو دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا، یقیناًوہ اندھے لوگ تھے۔
وہ انبیا جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے:۔
مسند احمدؒ کی روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا آئے، جن میں 315 صاحب کتاب تھے۔ قرآن مجید میں ہمیں حضرت محمدؐ کے علاوہ 25 انبیا کا ذکر ملتا ہے، جِن کے نام ہیں۔۔۔ حضرت آدمؑ ، حضرت نوحؑ ، حضرت ادریسؑ ، حضرت الیسعؑ ، حضرت ہودؑ ، حضرت صالحؑ ، حضرت شعیبؑ ، حضرت اِبراہیمؑ ، حضرت اِسماعیلؑ ، حضرت اِسحاقؑ ، حضرت لوطؑ ، حضرت یعقوبؑ ، حضرت یوسفؑ ، حضرت موسیٰؑ ، حضرت ہارونؑ ، حضرت داودؑ ، حضرت سلیمانؑ ، حضرت عزیرؑ ، حضرت اِلیاسؑ ، حضرت اَیوبؑ ، حضرت ذلکفلؑ ، حضرت یونسؑ ، حضرت ذکریاؑ ، حضرت یحییٰؑ ، حضرت عیسیٰؑ ، ان انبیا کے ذکر کا اہم سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے سب سے پہلے سننے والے عرب، اِن میں سے کافی لوگوں کو اللہ کا پیغمبر مانتے تھے خاص کر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو وہ اپنا جدَّ اَعلیٰ مانتے تھے اور اِن کے وارث ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور اِسی نسبت سے بیت اللہ کے متولِّی تھے، اور اسے اپنے لیے بڑا اعزاز مانتے تھے، اور اس نسبت کی وجہ سے کچھ امتیازی حقوق بھی رکھتے تھے۔ آج بھی آسمانی مذاہب کے ماننے والے ان لوگوں کو اللہ کا پیغمبر اور برگزیدہ انسان مانتے ہیں، مثلا آج دنیا میں حضرت نوحؑ کی برائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ طوفان نوح کے بعد سے آج تک ہزار ہا برس سے دنیا ان کا ذکر خیر کر رہی ہے۔۔ قرآن مجید میں اِن میں سے بعض کا ذکر تفصیل سے آیا ہے اور بعض کا مختصر، اِن کے ذکر میں انسانوں کی تاریخ کے اہم واقعات بتائے گئے ہیں۔
انبیا کے واقعات سنانے سے قرآن کا مقصد کیا ہے؟
قرآن مجید تاریخی وا قعات کو قصّہ کہانی بنا کر ہماری دلچسپی پیدا کرنے کے لیے بیان نہیں کر تا بلکہ سبق دینے کے لیے کرتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ تاریخی واقعات کے بیان میں وہ قصّے کے صرف ان اہم حِصّوں کو پیش کرتا ہے جو اِس کے مقصد سے تعلق رکھتے ہیں، باقی تمام تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ قرآن ایک پیغمبر کے قصّے کو کئی سورتوں میں بیان کرتا ہے اور ہر جگہ ایک نیا سبق دینا چاہتا ہے۔۔۔ اس سبق کی مناسبت سے واقعے کی تفصیلات بھی مختلف طور پر پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ الاعراف میں حضرت نوحؑ کے قصے کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ جب کہ سورہ عنکبوت آیت نمبر 14 میں جہاں یہ قصّہ اس غرض کے لیے بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی جائے وہاں خاص طور پر دعوتِ نوحؑ کی طویل مدّت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اپنی چند سال کی تبلیغی کوشش اور محنت کو نتیجہ خیز ہوتے نہ دیکھ کر بددل نہ ہوں اور یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ کہ جو دعوت سیدنا محمدؐ پیش کر رہے ہیں، یہی دعوت سیدنا نوحؑ نے پیش کی تھی، اور تمہارا رد عمل بھی وہی ہے جو قوم نوحؑ کا تھا، اب تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو قوم نوحؑ کا ہوا تھا۔۔۔آج ہمارے لیے یہ پیغام ہے کہ حضرت نوحؑ کے صبر کو دیکھیں جنہوں نے لمبی مدت تک دل توڑ دینے والے حالات میں دعوتِ حق کی خدمت انجام دی اور ذرا ہمت نہ ہاری۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ شروع میں حق کے دشمن چاہے کتنے ہی کامیاب ہوں، مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے، جو اللہ سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے، مقصدِ حق کے لیے کام کرتے ہیں۔ اور یہ کہ اللہ کے فیصلے میں دیر چاہے کتنی ہی لگے، مگر فیصلہ آخرِ کار ہو کر رہتا ہے، اور وہ لازماً اہل حق کے حق میں اور اہل باطل کے خلاف ہوتا ہے۔
آج عذاب کیوں نہیں آتا؟:۔
اِس موقع پر ایک اور شک بھی دلوں میں کھٹکتا ہے جسے دور کرنا ضروری ہے۔ جب ہم قرآن میں بار بار ایسے واقعات پڑھتے ہیں کہ فلاں قوم نے نبی کو جھٹلایا اور نبی نے اسے عذاب کی خبر دی اور اچانک اس پر عذاب آیا اور قوم تباہ ہوگئی، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کے واقعات اب کیوں نہیں پیش آتے؟ اگر چہ قومیں گرتی بھی ہیں اور ابھر تی بھی ہیں، لیکن اس عروج و زوال کی نوعیت دوسری ہوتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ ایک نوٹس کے بعد زلزلہ یا طوفان یا صاعقہ آئے اور قوم کی قوم کو تباہ کر کے رکھ دے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ حقیقت میں اخلاقی اور قانونی اعتبار سے اس قوم کا معاملہ جو کسی نبی کی براہ راست مخاطب ہو، دوسری تمام قوموں کے معاملے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جس قوم میں نبی پیدا ہوا ہو، اور وہ بلا واسطہ اس کو خود اسی کی زبان میں خدا کا پیغام پہنچائے، اور اپنی شخصیت کے اندر اپنی صداقت کا زندہ نمونہ اس کے سامنے پیش کر دے، اس پر خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہے۔۔۔ اس کے لیے معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور خدا کے پیغمبر کو دو بہ دو جھٹلا دینے کے بعد وہ اس کی مستحق ہو جاتی ہے کہ اِس کا فیصلہ اسی وقت چُکا دیا جائے۔ یہ نوعیتِ معاملہ ان قوموں کے معاملے سے بنیادی طور پر مختلف ہے جن کے پاس خدا کا پیغام براہ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچاہو۔ پس اگر اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے جیسے انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں پیش آئے ہیں تو اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، اِس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ مگر اِس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ اب ان قوموں پر عذاب آنے بند ہو گئے ہیں جو خدا سے پھری ہوئی اور فکری و اخلاقی گمراہیوں میں بھٹک رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ایسی تمام قوموں پر عذاب آتے رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تنبیہی عذاب بھی اور بڑے بڑے فیصلہ کن عذاب بھی لیکن کوئی نہیں جو انبیا علیہِم السلام اور کتبِ آسمانی کی طرح، ان عذابوں کے اخلاقی معنی کی طرف انسان کو توجہ دلائے۔ بلکہ آج صرف ظاہر کو دیکھنے والے سائنس دانوں، اور حقیقت سے ناواقف تاریخ دانوں اور فلسفیوں، کا ایک بڑا گروہ انسانوں کے دل و دماغ پر مسلط ہے، جو اس قسم کے تمام واقعات کی وضاحت فزکس کے قوانین یا تاریخی اسباب سے کر کے ان کو بھلا وے میں ڈالتا رہتا ہے، اور انہیں کبھی یہ سمجھنے کا موقع نہیں دیتا کہ۔۔۔ اوپر کوئی خدا بھی موجود ہے، جو غلط کار قوموں کو پہلے مختلف طریقوں سے ان کی غلط کاری پر متنبہ کرتا ہے، اور جب وہ اس کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے آنکھیں بند کر کے، اپنی ٹیڑھی چال پر اصرار کیے چلی جاتی ہیں تو آخر کار انہیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ اِس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہی ہے۔ قوم نوح کے ساتھ جو کچھ ہوا اِسی قانون کے مطابق ہوا اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے مزے لوٹنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔ اِس معاملے سے ہر ایک کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے۔
اَللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اِس فہم کے مطابق، دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین۔

حصہ