(اصلی بادشاہ کون ؟(صائم خان

384

شہر قائد کا سفر یاد رہے گا وقاص احمد،کوئٹہ
8جنوری 2017 کا تازگی سے بھرا روشن دن ڈوب رہا تھا، اندھیرا چہار سُو پھیل چکا تھا، اور ڈوبتے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے روشنیوں کے برقی قمقمے جل اُٹھے تھے۔ روشنیوں کے کچھ چراغ ہم بہن بھائیوں کی آنکھوں میں بھی جل بجھ رہے تھے، کیوں کہ ہم سب اپنے پیارے قائدؒ کے شہرکراچی کی سیر کو جارہے تھے۔ ٹیکسی جب ہم سب کو لے کر کوئٹہ سے نکلی تو ہماری گھڑی شام7:30 کا وقت بتارہی تھی۔ ہم گھر سے اڈے تک ’’دی نالج اسکول‘‘ کی ٹیکسی میں گئے۔ وہاں پہنچ کر کراچی جانے والی بس کی آرام دہ سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ گاڑی اسٹارٹ ہوچکی تھی۔ اس کا ہلکی آواز والا انجن ہولے سے غرّایا، ڈرائیور نے جلدی جلدی گیئر بدلے اور گاڑی سڑک پر فرّاٹے بھرنے لگی۔ ہم اپنے ساتھ جو کھانا گھر سے لے کر گئے تھے، وہ کھایا۔ رات ہوچکی تھی۔ بس ایک ہوٹل کے قریب جا رُکی، وہاں بھی کچھ کھایا پیا۔
علی الصبح 6 بجے ہم معہ فیملی کراچی پہنچ گئے۔ وہاں سے ٹیکسی میں بیٹھ کر کنگ اسٹون گیسٹ ہاؤس گئے۔ فجر کی نماز کا وقت ہوچلا تھا، وضو کرکے پہلے نماز پڑھی۔ بارگاہِ ایزدی میں سر جھکانے کا مزا ہی الگ ہے جو آدمی کو دُنیا کے ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کراچی پہنچتے ہی سب سے پہلے رب سے ملاقات ہوئی اور اس ملاقات نے سفر کی ساری تھکن دور کردی۔
ہم سب بہن بھائیوں کو کراچی کا نیلا ساحل دیکھنے کا شوق تڑپا رہا تھا۔ چناں چہ کچھ ہی دیر بعد سب تیار ہوکر ابو کی سربراہی میں ساحلِ سمندر پر پہنچ گئے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، شور مچاتی بڑی بڑی لہریں، پاؤں کے نیچے سمندر کی نرم نرم گیلی ریت۔۔۔ واللہ! مزا ہی آگیا۔ ہم سب بہن بھائی پانی میں خوب کھیلے کودے، ریت پر بھاگے، دوڑے، تصویریں بھی بنوائیں۔ ساحل پر ہم نے موٹے موٹے پہیّوں والی موٹر سائیکل بھی چلائی تو اقبال نے کار چلانے کا شوق پورا کیا۔ اس کے بعد سب نے اونٹوں کی سواری کی۔ امی جان، بہن اور میں اونٹ پر بیٹھے، جب کہ اقبال نے گھوڑے کی سواری سے لُطف اُٹھایا۔ سمندر دیکھنے کے بعد ہم سب ہوٹل آگئے۔ رات عشا کی نماز پڑھی،کھانا کھایا اور پھر باتیں کرتے کرتے سوگئے۔ صبح اُٹھ کر وضو کیا اور سب سے پہلے مالکِ کائنات کے حضور حاضری دی۔
نماز کے بعد ناشتا تیار تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ڈیفنس گئے۔ وہاں حرم فورم کی ڈائریکٹر ناصرہ الیاس صاحبہ کے گھر ہماری دعوت تھی۔ اُن کا گھر نہایت صاف سُتھرا اور ہوادار ہے۔ ابو نے بلوچستان میں تعلیم سے متعلق باتیں کیں، جب کہ امی نے حج و عمرے سے متعلق سوالات کے جوابات حاصل کیے۔ پھر چائے پی کر ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور المصطفیٰ ہوٹل گئے، کمرا بُک کیا، سامان رکھا، تھوڑی دیر آرام کیا، پھر شاپنگ کرنے نکل گئے۔ شاپنگ کے بعد واپس ہوٹل آگئے، رات کا کھانا کھایا اور سوگئے۔
صبح اُٹھ کر وضو کیا اور ربّ العزت کے دربار میں حاضری دی، پھر دوسرے ہوٹل جاکر ناشتا کیا۔ وہاں سے ہم ٹیکسی لے کر Arabian Sea country Club گئے۔ وہاں تھوڑی دیر آرام کیا۔ ظہر کی نماز کے بعدکھانا تناول کیا، پھر سوئمنگ پول گئے۔ وہاں ٹھنڈے اور گرم پانی، دونوں ہی طرح کے پول ہیں۔ ہم سب بہن بھائی خوب نہائے۔ وہاں ہم نے ویڈیوز بنائیں، تصویریں بھی لیں اور خوب انجوائے کیا۔ نہانے کے بعد واپس ہوٹل آگئے۔ جمعۃ المبارک کی نماز پڑھی، پھر ایک گھنٹے کے لیے سوگئے۔ شام میں اُٹھ کر عصر کی نماز پڑھی، گرم گرم چائے پی، پھر کمپیوٹر پر کچھ گیم کھیلے، ٹینس کا بھی لُطف اُٹھایا۔ ابو سب کو ساتھ لے کر ہاکی کے میدان میں گئے، وہ دیکھا، پھر ٹیکسی میں بیٹھ کر ہم گلشن حدید مولوی امین اللہ صاحب کے گھر گئے۔ وہ وہاں ایک مسجد میں امام و خطیب ہیں اور بہت اچھے انسان ہیں۔ ان کے گھر چائے پی۔ پھر وہاں سے ابو کے ساتھ احبابِ جمعیت کے پروگرام کنکٹ کراچی میں گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب بھی آئے تھے، اُن کی اچھی سی تقریر تھی، وہ سُنی۔ پھر بحریہ پارک گئے، کراچی میوزیم کی سیر کی اور میوزیم میں موجود اشیا سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو الرّیان ہوٹل، صدرگئے۔ ہم سلمان آصف صدیقی صاحب کے گھر بھی گئے۔ وہ ERDC ادارے کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہاں ہماری دعوت تھی، کھانا کھایا۔ باتیں ہوتی رہیں۔
رات بھیگتی جارہی تھی، وقت گزرنے کا احساس ہوا تو جسم میں تھکن کا بھی احساس جاگ اُٹھا، چناں چہ ہوٹل میں جاکر سوگئے۔ صبح اٹھ کر بارگاہِ الٰہی میں حاضری دی، ناشتا کیا، ابو کے ساتھ اسٹیٹ بینک میوزیم گئے۔ وہاں پرانے زمانے کے سِکّے، پینٹنگز، ڈاک ٹکٹ دیکھے، علامہ اقبالؒ کے بچپن سے بڑے ہونے تک کے دور کی تصاویر نے حیران کیا۔ اقبالؒ بچپن میں کتنے پیارے تھے۔ بڑے ہوکر تو وہ مسلم دُنیا کے پیارے شاعر بن گئے اور ’’شاعرِ مشرق‘‘ کہلائے۔ شاعر مشرق کا ایک شعر زبان پر مچل رہا ہے، آپ ساتھی اجازت دیں تو آپ لوگوں کو بھی سنا دیتے ہیں:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سُلطانی کے گنبد پر
تُو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
وہاں گیم بھی کھیلا، پھر سِکّے ڈھالنے والی مشین دیکھی۔ کینٹین میں چائے پی۔ قائداعظمؒ کے میوزیم گئے۔ قائدؒ کا بیڈ روم دیکھا، ان کی خوب صورت تصاویر دیکھیں۔ وہاں ان کا فون بھی رکھا ہوا تھا۔ فاطمہ جناحؒ کا الگ روم تھا۔ پھر وہاں سے دوسرے میوزیم گئے۔ وہاں قرآن پاک کے مختلف قدیم نادر نسخے تھے، جو بہت ہی پیارے لگ رہے تھے۔ اور بھی بہت سی ثقافتی چیزیں دیکھیں۔ علامہ اقبالؒ کی کرسی بھی دیکھی۔ ملک کی آزادی کے لیے قربانیاں دینے والوں کی تصویریں لالٹین میں لگی ہوئی تھیں۔ پھر پارک گئے، وہاں مختلف جہاز وغیرہ دیکھے، پائلٹ روم بھی دیکھا، جہاں پائلٹ کا سامان رکھا ہوا تھا۔
اس تھکادینے والی سیر کے بعد واپس ہوٹل پہنچے، سامان پیک کیا، پھر گھر کے لیے کوئٹہ روانہ ہوگئے۔ سفر خوش گوار رہا۔ قلات، مستونگ اور کوئٹہ میں برف باری کے حسین مناظر دیکھتے ہوئے بالآخر صبح 9 بجے گھر پہنچ گئے۔
کراچی کا سفر ہم سب کو یاد رہے گا۔ شہرِ قائد کے لوگ بہت پیارے لگے، بہت محبت والے ہیں۔ میں نے جو چیزیں کتابوں میں پڑھی تھیں، وہاں جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھیں، جس سے علم میں اور بھی اضافہ ہوا۔ وہاں جو سیر کی، اس سے لُطف اُٹھانے کے ساتھ ساتھ بہت سے فوائد بھی حاصل ہوئے۔ دیکھا جائے تو اس سفر سے بہت ساری معلومات حاصل ہوئیں اور سیر کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا۔ اس سارے سفر کے بعد میری خواہش ہے کہ میرے پیارے صوبے بلوچستان میں بھی پارک، اسکول، سیر کی جگہیں کراچی کی طرح بنیں تاکہ یہاں کے بچے بھی اُن سب چیزوں سے لطف اُٹھا سکیں!!
nn

بلو کا بھالو کلام : ابنِ انشا
انتخاب: ادینہ عامر
مشہور ہے، ایک بادشاہ اقتدار اور دولت کے گھمنڈ میں غریبوں سے بات کرنا بھی پسند نہ کرتا۔ اس کے بُرے رویّے کی وجہ سے عوام اسے ناپسند کرتے تھے۔ ایک دن بادشاہ شکار میں ہرن کے پیچھے گھوڑا دوڑاتا دوڑاتا اتنی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب پیچھے رہ گئے۔ ہرن تو کسی جھاڑی میں غائب ہوگیا، جب کہ بادشاہ راہ بھٹک کر ایک وادی میں جانکلا۔ ابھی وہ گھوڑے سے اُترنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں ایک کسان نے اس کے گھوڑے کی رکاب پکڑلی۔ اس کی شکل ہو بہو بادشاہ سے ملتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ اس کی پوشاک اور حالت غریبوں جیسی تھی۔ اس نے بادشاہ سے کہا: میں تین دن سے حضور کی ڈیوڑھی پر بھوکا پیاسا چلا آرہا ہوں، مگر کوئی میری فریاد نہیں سنتا۔ بادشاہ نے غریب کو میلے کچیلے کپڑوں میں دیکھا تو نفرت سے ناک بھوں چڑھائی اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ میں ذلیل آدمیوں سے بات نہیں کرتا۔ غریب کسان پھر بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ یہاں تک کہ بادشاہ ایک تالاب پر پہنچ کر گھوڑے سے اُترگیا۔ اسے گرمی لگ رہی تھی، باگ ڈور ایک درخت سے اٹکائی، تاج اور کپڑے اُتارکر ایک طرف رکھے اور نہانے کے لیے تالاب میں اُتر گیا۔ یہ تالاب ایسے نشیب میں تھا کہ نہانے والے کو اوپر کا آدمی نظر نہ آتا تھا۔ جب بادشاہ تالاب میں اُتر چکا تو غریب کسان نے اپنے کپڑے اُتار دیے اور بادشاہ کے کپڑے پہن، تاج سر پر رکھ، شاہی گھوڑے کو ایڑ لگا، رفوچکر ہوگیا۔ کسان بادشاہ تھوڑی ہی دورگیا تھا کہ اسے بادشاہ کے وزیر اور سپاہی مل گئے، جنہوں نے اصلی بادشاہ سمجھ کر اسے نہایت ادب سے سلام کیا اور یہ بھی بے جھجھک شاہی محل میں جا پہنچا۔
اب اِدھر کی سنیے۔ اصلی بادشاہ تالاب سے نہاکر باہر نکلا تو کپڑے، تاج اور گھوڑا کچھ بھی موجود نہ تھا۔ بہت گھبرایا، مگر اب کیا ہوسکتا تھا! ناچار غریب کسان کے میلے کپڑے پہنے اور کئی دن تک فاقے کرنے اور بھٹکنے کے بعد شہر پہنچا۔ سفر کی صعوبتوں سے اس کی حالت ابتر ہوگئی۔ جس سے بات کرتا، فقیر سمجھ کرکوئی منہ نہ لگاتا، اور جب وہ کہتا کہ میں تمہارا بادشاہ ہوں تو لوگ اسے پاگل سمجھ کر ہنس دیتے۔ دو تین ہفتے اسی طرح گزر گئے۔ جب اس پاگل کا قصّہ بادشاہ کی ماں نے سنا تو اسے بلوا کر اس کے سینے پر تل کا نشان دیکھا، پھر اس کی سچائی کی تصدیق کی۔
کسان نے اصلی بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر کہا: کیا تم وہی شخص ہو جو دولت اور حکومت کے گھمنڈ میں غریبوں کی فریاد نہیں سنتا تھا؟ تمہارا گھمنڈ اُتارنے کے لیے میں نے یہ سوانگ بھرا۔ اگر تم وہ گھمنڈ چھوڑ کر رحم و انصاف کا وعدہ کرو تو میں تمہارا تاج و تخت واپس کرنے کو تیار ہوں، ورنہ ابھی قتل کا حکم بھی دے سکتا ہوں۔ یہ سن کر بادشاہ نے عاجزی اور ندامت کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کی اور کسان اسے تاج و تخت دے کر گھر چلا گیا۔ اُس دن کے بعد واقعی بادشاہ کا گھمنڈ دور بھاگ گیا۔ اس نے اپنی بُری عادتیں چھوڑ دیں اور رعایا کو اصل بادشاہ بن کر دکھایا!!
nn

بِلّو کا بھالو
کس کا ہے خالو
قد اس کا چھوٹا
پیٹ اس کا موٹا
باہر سے بُدّھو
اندر سے کھوٹا
لال اس کی ٹوپی
دھانی لنگوٹا
راشن میں کھائے
گھر بھر کا کوٹا
منہ اس کا دن بھر
رہتا ہے چالو
بِلّو کا بھالو
صورت میں بھالو
رنگت میں کالو
ناک اُس کی گاجر
گال اُس کے آلو
اوڑھے یہ گودڑ
کھائے کچالو
نام اس کا پوچھو
راجا رسالو
اے بھائی کالو
بِلّو کے بھالو
راجا رسالو
تو کس کا خالو
nn

بوجھو تو جانیں
* تین قیدی اپنے آپ کو جیل کا سب سے پُرانا قیدی ثابت کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ پہلے نے کہا:
میں یہاں اُس وقت آیا تھا، جب ٹرین نئی نئی ایجاد ہوئی تھی۔
دوسرے نے کہا:
میں اُس وقت یہاں آیا تھا، جب لوگ گھوڑوں پر سفر کرتے تھے۔
تیسرے قیدی نے معصومیت سے کہا:
یہ گھوڑے کیا ہوتے ہیں؟
( علیان خان )
*ایک شخص تالاب پر نہانے گیا۔ تالاب کے سامنے بورڈ پر لکھا تھا: پیچھے دیکھیں۔ اس شخص نے پیچھے دیکھا تو لکھا پایا: دائیں دیکھیں۔ اس نے دائیں دیکھا تو وہاں لکھا تھا: اب اپنے بائیں طرف دیکھیں۔ اس نے بائیں طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا: آپ نہانے آئے ہیں یا اِدھر اُدھر دیکھنے؟
(سفیان خان )
* ایک انگریز نے ایک یہودی سے پوچھا:
تم یہودی اتنا روپیہ کس طرح کما لیتے ہو؟
یہودی نے کہا:
ہم ایک خاص قسم کی مچھلی کھاتے ہیں۔ وہ مچھلی عقل کے لیے نہایت مفید ہے۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایک مچھلی دے سکتا ہوں، مگر تمہیں اس کی قیمت 20 ڈالر ادا کرنی ہوگی۔
انگریز نے بیس ڈالر یہودی کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ یہودی نے اسے ایک چھوٹی سے مچھلی دی اور کہا، کھالو۔
انگریز نے جیسے ہی مچھلی منہ میں رکھی، اسے زور سے اُبکائی آئی۔ مچھلی منہ سے نکال کر ایک طرف پھینکی اور چیخ کر بولا:
اس بدذائقہ مچھلی کے تم نے 20 ڈالر اینٹھ لیے، اتنی رقم میں تو چھ سات بڑی مچھلیاں آسکتی تھیں۔
یہودی چالاکی سے مُسکرایا اور مکاری سے بولا:
دیکھی مچھلی کی تاثیر۔ پہلے ہی نوالے میں تمہیں عقل آگئی۔
(ریان خان)
nn

پھولوں کی دنیا کے پھولوں، کلیوں، اور ستاروں کی مانند چمکتے دمکتے دوستو! کبھی میں بھی تمہاری طرح پیارا سا بچّہ ہوا کرتا تھا اور تم لوگوں کی طرح اپنا بچپن انجوائے کیا کرتا تھا۔ خیر، اب اب وہ حسین دور رخصت ہوا۔ اب میں بڑا ہوگیا ہوں اور کرکٹ کی دنیا میں خوب کھیلا کُودا ہوں۔ میں نہیں کہتا، میرے چاہنے والے کہتے ہیں کہ میں کرکٹ کا بڑا کھلاڑی رہا ہوں۔ آج کل میں پاکستانی ٹیم میں نہیں، لیکن تمام پاکستانیوں کے دلوں میں ضرور رہتا ہوں اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہوں گا۔ یہ میرے بچپن کی تصویر ہے۔ کیا آپ میرا نام بُوجھ سکتے ہیں؟ میرا نام اور میرے بارے میں معلومات اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں۔
nn

حصہ