(ڈونلڈ ٹڑمپ کی صدارت اور بدلتا عالمی منظڑ(پروفیسر خورشید احمد

227

(دوسرا حصہ)
*ویت نام میں، ملک کا امیرترین شخص ایک دن میں اس سے کہیں زیادہ کما لیتا ہے جتنا کہ وہاں کا غریب ترین فرد10برسوں میں کماپاتا ہے۔
اس صورتِ حال کے لیے حکومتوں اور کمپنیوں کے پالیسی سازوں کو کم از کم جزوی طور پر تو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ کرۂ ارض پر ہونے والے حالیہ سیاسی واقعات نے ایک اور بڑی تقسیم تفریق کاری کو جنم دیا ہے اگر ہم عدم مساوات سے نبٹنا چاہتے ہیں تو اس کی طرف فوری طور پر توجہ منعطف کرنا بہت ضروری ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق بریگزٹ (Brexit) (1) سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کی کامیابی تک، نسل پرستی میں پریشان کْن اضافہ اور مین سٹریم سیاست سے وسیع پیمانے پر مایوسی اور بددلی تک، اس بات کے روزافزوں اشارے مل رہے ہیں کہ مال دار ملکوں میں زیادہ لوگ اب اسٹیٹس کو برداشت کرنے کے لیے مزید آمادہ نہیں ہیں۔ یہ آخر اسے برداشت کریں بھی تو کیوں، جب کہ تجربے سے یہ اشارے ملے ہیں اس کی وجہ سے جو کچھ حاصل ہو رہا ہے، وہ جامد معاوضے، غیرمحفوظ ملازمتیں اور صاحبِ ثروت اور نادار لوگوں میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ چیلنج جس کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مثبت متبادل (Alternative) تعمیر کیا جائے، ایسا نہیں جو تقسیم در تقسیم کو ہوا دے۔
واضح رہے کہ آج دنیا بھر میں صرف آٹھ افراد اتنی دولت کے مالک ہیں جتنی دنیا کے 3ارب 30کروڑ کا مقدر ہے اور ان میں آٹھ میں سے چھے افراد امریکی ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ 2010ء میں دنیا کی 50 فی صد آبادی کی دولت کے برابر دولت کے مالک افراد کی تعداد 388 تھی، جو 2015ء میں 62 رہ گئی تھی اور 2016ء کے آخر میں اب دولت کا یہ ارتکاز اورسمٹاؤ صرف آٹھ افراد تک ہوگیا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کا تصور کر کے اللہ تعالیٰ سے گریہ کیا تھا کہ
کب ڈْوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دْنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات!
شاطرانہ ذہانت کا استعمال:
ڈونلڈ ٹرمپ نے ’تبدیلی‘ کے نعرے کو بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے، حالاں کہ اس کا تعلق اسی سفاک سرمایہ دار طبقے سے ہے، جو اس ہوش ربا استحصال کا ذمہ دار ہے۔ اس نے امریکا میں باہر سےآکر آباد ہونے والے پردیسیوں اور عالم گیریت کو، سفیدفام آبادی کی غربت اور معاشی ابتری کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ پھر اس نظام کو بدلنے اور امریکا کے معاشی اور سیاسی حکمران طبقے کو چیلنج کرکے اپنے کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی قوت کو استعمال کر کے اقتدار کے محافظوں اور طاقت کے روایتی کارگزاروں اور دلالوں (brokers) کو ایک طرف دھکیل کر عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
یہ امریکی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کہ ایک ایسا شخص جسے نہ اعلیٰ تعلیم کا اعزاز حاصل ہے، نہ کوئی سیاسی یا انتظامی تجربہ اس کے دامن میں ہے، جس کا پورا کردار یا پراپرٹی ڈیلر یا ڈویلپرکا سا ہے، یا ٹی وی کے ہنرمند بازی گر (entertainer ) کا سا۔ جس کی اپنی امریکیت کی عمر بھی کچھ زیادہ طویل نہیں ہے۔ جس کا دادا جرمنی سے امریکا مہاجرت کرکے آیا تھا۔ جس کی تیسری بیوی کی پیدایش سلاوینیطا (Salavinita) کی ہے اور جسے امریکی شہریت 2005ء میں حاصل ہوئی ہے۔ اس نے متوسط طبقے کی معاشی بدحالی اور مہاجرت کرنے والے (immigrants) لوگوں کو جن میں: میکسی کن ، لاطینی امریکی، چینی، برعظیم پاک و ہند، افریقہ اور عرب دنیا سے آنے والے نوامریکی لوگوں کو جن کی تعداد اس وقت آبادی کا ۴۱ فی صد سے زیادہ نہیں ہے، انھی کو نشانہ بناکر اور زیرزمین نفرت اور خوف کے لاوے کو پکاکر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ووٹ کی طاقت کے ذریعے امریکا کے مقتدر طبقات کو چیلنج کیا ہے۔ خود اپنی پارٹی کے روایتی قائدین کے چھکے چھڑا دیے اور بالآخر صدارت پر براجمان ہوگیا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ اس کی سیاست قوم کو تقسیم کرنے سے چمکی ہے اور اس نے تمام اقلیتوں اور خصوصیت سے مسلمانوں کو ہدف بناکر قربانی کا بکرا (scapegoat) بنا کر اپنا مقصد حاصل کیا ہے۔ امریکا کے انتخابات میں سیاسی گرماگرمی تو ہمیشہ ہی ہوتی تھی، لیکن 2016ء کے انتخابات میں جس طرح نفرت، غصے، خوف اور انتقام کا دور دورہ رہا، وہ غیرمعمولی واقعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات اور انتقالِ اقتدار کے بعد بھی تناؤ اور تصادم کی فضا موجود ہے۔
امریکا کی سوسالہ تاریخ میں انتخابات کے بعد اور صدارتی حلف برداری کی تقریب اور اس کے بعد مظاہروں کی وہ کیفیت کبھی رونما نہیں ہوئی جو اس بار ہوئی ہے اور اس کے تھمنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس لیے کہ صدرٹرمپ نے لوگوں کو جوڑنے اور انتخابی معرکے کے ٹکراؤ کو پیچھے چھوڑ کر نئے اتحاد اور قومی یک جہتی اور مشترکات پر قوم کو جمع کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا ہے۔ اس کے برعکس رنگ و نسل کی بنیاد پر اس تقسیم کو ملک ہی نہیں عالمی سطح تک پھیلا کر اپنے ایجنڈے پر عمل، اس کا ہدف نظر آرہا ہے جو دنیا کو اور زیادہ غیرمحفوظ بنائے گا اور تصادم اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا باعث ہوگا۔
اس انتخاب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جمہوریت میں قیادت کے لیے ازبس ضروری ہے کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہو اور ان کے مسائل، ان کے متعلقات (concerns)، ان کی مشکلات، ان کے عزائم اور تمناؤں کا صحیح ادراک ہو۔ پھر وہ زبان استعمال کی جائے جسے عوام سمجھتے ہوں اور جو ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر سکے اور ان کو سیاسی تائید، تحرک اور ووٹ کی قوت سے تبدیلی کے لیے اٹھا سکے۔
صدر ٹرمپ نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ عوام خصوصیت سے محروم طبقات کے جذبات کوسمجھا اور ان کو اپنے سیاسی عزائم کے لیے متحرک اور استعمال کیا۔ اسے اندازہ تھا کہ زمینی معاشی حقائق کیا ہیں؟آبادی کے تناسب میں جو تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور ان کو سفیدفام آبادی کس طرح محسوس کر رہی ہے۔ ان پر اس کی نگاہ تھی۔ پھر اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ کوئی کھل کر اسے ایشو بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے ایک طاقت کے روایتی مراکز کی مخالفت مول لے کر، اس طبقے کی تائید حاصل کی جو اس کی کامیابی کے لیے ذریعہ بن سکتا تھا، کہ جن سے خود اس کو اپنی سوچ بھی جِلدکی رنگت اور مذہب سے نسبت سے ہم آہنگ تھی۔
چیلنج کا جواب یا مہارتوں کا استعمال
گلوبلائزیشن جسے امریکی انتظامیہ نے اپنے مفاد کی خاطر ’تقدیس‘ کے درجے پر پہنچادیا تھا اور اس کے خلاف بات کرنا گویا کفر کے مترادف ہوگیا تھا، ٹرمپ نے اسے کھل کر چیلنج کیا اور اس کے نتیجے میں جو مسائل مقامی یا قومی سطح پر پیدا ہوئے تھے، ان کو مبالغہ آمیز حد تک نمایاں کیا۔ مسائل کا ٹھیک ٹھیک ادراک کرنا، تبدیلی کے نعرے کو صحیح انداز میں اپنانا اور اس کی علامت بن جانا، مقتدر قوتوں کو چیلنج کرنا اور عوام کو یہ اعتماد دینا کہ ان قوتوں سے ٹکر لینے کی ہمت اور صلاحیت چیلنج کرنے والے میں موجود ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ پھر یہ سارا کام روایتی ذرائع ابلاغ کے ساتھ غیرروایتی ابلاغ کے ان تمام ذرائع کو استعمال کر کے انجام دیا، جن سے بلاواسطہ عوام تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کا استعمال بڑی مہارت سے کیا۔ ۰۳لاکھ سے زائد افراد اس کے twitter کے ساجھی تھے۔
ٹرمپ کی مہم کے سلسلے میں تحقیق کرنے والوں نے چند بڑی اہم چیزوں پر روشنی ڈالی ہے جو قابلِ غور ہیں:
ان کا کہنا ہے کہ راے عامہ کے تمام ہی جائزے اس بنا پر صحیح تصویر پیش کرنے میں ناکام رہے کہ ٹرمپ کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی تائید کو صرف ووٹ کی شکل میں ظاہر کیا اور انتخاب سے پہلے یا انتخاب کے روز راے عامہ کے سروے (exit poll) تک میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔ چونکہ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کا تھا، اس لیے یہ راستہ تک اختیار کیا گیا۔
خواتین کے ووٹ نے بھی ایک غیرمتوقع کردار ادا کیا۔ سب کا خیال تھا کہ ٹرمپ نے خواتین کے بارے میں جو نازیبا باتیں کہی ہیں، ان کی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد اس سے متنفر ہوگئی ہوگی۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہوا اور خواتین ووٹروں کی 53 فی صد نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ ہیلری کلنٹن کا خاتون ہونا بھی اس کے کام نہیں آسکا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے وابستگی یا قربت کا تاثر اس کے لیے ووٹ کی راہ میں حائل ہوگیا اور خواتین ووٹروں نے محض خاتون ہونے کے ناتے نسوانی خوداختیاریت (Feminism)کے نعروں کے زیراثر ووٹ کو استعمال نہیں کیا۔
یہ انتخابات امریکی معاشرے کی اخلاقی حالت اور سماجی اقدار کو سمجھنے کا بھی ایک آئینہ ہیں۔ ذاتی زندگی اور پبلک لائف کو الگ الگ دائروں میں محصور کرنا سیکولر معاشرے کی ریت ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب سیاسی قیادت کے لیے کچھ خاص اخلاقی اقدار کا حامل ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مذہب اور ریاست کی تقسیم کو تسلیم کرنے کے باوجود کچھ اخلاقی صفات اور کردار کی کچھ خاص خوبیوں کو سیاسی قیادت کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ فرد کی جنسی زندگی کے بارے میں عام معاشرے میں خواہ کتنی بھی رواروی اور آزاد خیالی ہو، مگر سیاسی قیادت سے ایک خاص کردار کی توقع ہوتی تھی۔
یہ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں تک امریکی صدارتی اْمیدوار کی اگر کسی بداخلاقی اور مالی معاملات میں بے قاعدگی کی بات منظرعام پر آتی تھی، تو کم از کم صدارتی اْمیدوار کے لیے راہ کھوٹی ہوجاتی تھی۔ لیکن اب نوبت بہ اینجا رسید کہ ایک درجن سے زائد خواتین برملا دست درازی کی شکایت کرتی ہیں، مگر نہ صدارتی اْمیدوار میدان چھوڑتا ہے اور نہ ووٹروں پر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ حالاں کہ30، 40 سال پہلے تک یہ روایت تھی کہ ایسے حالات میں صدارتی اْمیدوار خود بخود دست کش ہو جاتا تھا۔
(جاری ہے)

اخلاقی اْمور کمیٹی کی اہمیت اور کردار
امریکا ہی نہیں، مغربی دنیا کے تمام ہی جمہوری ممالک میں سیاسی قیادت کے لییاخلاقی مضبوطی (integrity) ایک لازمی صفت تھی۔ سر آئی ورجے نگز (Jennings) اپنی کتاب Cabinet Goverment میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سیاسی قیادت اور پارلیمان کے ارکان کے لیے یہ صفت ہر دوسری صفت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ امریکا کا ایک مشہور پارلیمانی مشیر اسٹیو سمڈٹ (Steve Schmidt) جس نے بہت اہم انتخابی مہموں کی نگرانی کی ہے صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ قیادت میں صداقت او ر حق پرستی جمہوریت کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔ (ملاحظہ ہو نیویارک ٹائمز، 31جنوری 2017ء میں ڈیوڈہارسٹر کا صفحہ اوّل کا مضمون: Trump and his long history of untruths)
آج بھی دنیا کی بیش تر پارلیمنٹوں میں ’اخلاقی امور کمیٹی‘ ایک اہم کمیٹی ہوتی ہے، جو پارٹی کی وفاداری اور گروہی عصبیت سے بالا ہوکر آزادانہ کام کرتی ہے۔ امریکی کانگرس میں بھی ’اخلاقی امورکمیٹی‘ آج بھی موجود ہے۔ گو یہ اور بات ہے کہ اب اس میں بھی تبدیلی لانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ واضح رہے ایک وقت وہ بھی تھا جب امریکا کے قانون میں ملک کی شہریت کے لیے بھی اچھا کردار ایک لازمی شرط تھی۔ 1760ء کے شہریت کے قانون میں جہاں ہرشہری کے لیے آزاد ’سفیدفام مرد و عورت‘ہونا ضروری تھا (کہ غلام اورسیاہ فام اس زمانے میں شہری نہیں بن سکتے تھے) وہاں دو مزید شرائط یہ بھی تھیں، یعنی: ’اچھا اخلاقی کردار اور کم از کم دوسال سے امریکا میں قیام‘۔
لیکن اب اخلاقی اقدار اور کردار قصۂ پارینہ بن چکے ہیں اور اس صدارتی انتخاب میں یہ بات بہت ہی کھل کر سامنے آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی دولت کس طرح کمائی، ٹیکس ادا کیے یا نہیں؟ بار بار دیوالیہ ہوکر قرض داروں سے کیسے نجات پائی؟ ٹرمپ یونی ورسٹی میں طلبہ سے لاکھوں ڈالر غلط بیانی سے کس طرح حاصل کیے؟{ FR 893 } ___یہ سب کھلے حقائق ہوتے ہوئے بھی انتخاب میں غیرمتعلق ہی رہے۔ حتیٰ کہ صدارت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد بھی مطالبے کے باوجود ٹیکس کا ریکارڈ پیش کرنے سے انکار اور اپنے یہودی داماد کو وائٹ ہاؤس کی انتظامیہ میں اہم کردار دینے اور بین الاقوامی سیاست، خصوصیت سے اسرائیل سے امریکا کے تعلقات کی نگہداشت کے لیے ذمہ داریاں سونپنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ اہم سیاسی دانش ور اس پر چیخ پکار کر رہے ہیں اور مفادات کے ٹکراؤ کی دہائی دے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی شخصیت، ان کا اندازِ گفتگو، ذاتی اخلاق، معاشرتی معاملات، طریق تجارت، کاروباری دیانت اور معاملات میں عدم شفافیت کے بارے میں جو شہرت ہے، اسے امریکی جمہوریت کا غارت گرِحسن ہی کہا جاسکتا ہے۔
نومبر کے صدارتی انتخابات کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ اس انتخاب میں مقابلہ’کون بہتر ہوگا؟‘ کی بنیاد پر نہیں بلکہ کون کم خراب ہوگا کی میزان پر ہوئے۔ گویا ٹرمپ کی کامیابی کا اصل سبب ہیلری کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ناکامی ہے۔ پھر ایک اور بڑا اہم سبب خود طریق انتخاب ہے جس پر انگلی اْٹھائی جارہی ہے۔ ہیلری کو ڈیموکریٹک پارٹی کی ساری غلطیوں کے باوجود 38 لاکھ ووٹ زیادہ ملے مگر ریاستی بنیاد پر ہونے والے الیکٹورل کالج اور اس کے متعین ووٹ کے نظام کی وجہ سے صدارتی انتخابی ادارے میں ٹرمپ صاحب کو اکثریت حاصل ہوگئی۔ الیکشن میں بدعنوانی ہونے کی بات پہلے خود ٹرمپ صاحب نے انتخابی مہم کے دوران کہی تھی اور پھر سی آئی اے اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر روس کی hacking کا دعویٰ کیا۔ اس سب کے باوجود یہ امریکی جمہوریت ہی کا حصہ کہ ووٹ کے ذریعے اور دستور اور قانون کے دائرے کے اندر اقتدار کی منتقلی واقع ہوئی۔ گو عوامی سطح پر صدر ٹرمپ کو وہ مقبولیت حاصل نہیں، جو ان سے پہلے کے صدور کو حاصل رہی ہے۔ وہ تاریخ کے سب سے کم مقبول منتخب صدر کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں تشریف لائے ہیں۔
جارج بش کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کو پہلی صدارت کی تقریب حلف برداری کے وقت 45 فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اور اس طرح وہ گویا 50 فی صد کی سطح سے نیچے تھے ،لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو مختلف جائزوں کی روشنی میں 32 سے 37 فی صد امریکی عوام کی تائید حاصل تھی۔ واضح رہے کہ صدر اوباما کو جب انھوں نے جنوری 2009ء میں حلف اْٹھایا، تو مختلف راے عامہ کے جائزوں کے مطابق53 فی صد سے 60فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اور جب صدر اوباما صدارت سے فارغ ہوئے اس وقت بھی عوامی جائزوں میں ان کی مقبولیت 52 فی صد سے زیادہ تھی۔
(جاری ہے)

ٹرمپ کی ٹیم: توقعات و خدشات
صدر ٹرمپ کی نہ صرف یہ کہ مقبولیت کا گراف کم تھا بلکہ وہ جدید تاریخ کے پہلے صدر ہیں جن کے خلاف ملک بھر میں ان کے انتخاب کے اعلان کے بعد سے لے کر ان کی تقریب حلف برداری اور اس کے بعد بھی امریکا ہی نہیں دنیا کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں اور ایک بڑی تعداد نے ان کو ایک ’جائز صدر‘ (Legimate president ) تسلیم نہیں کیا۔
بدقسمتی سے صدارت کے پہلے دس دنوں ہی میں انھوں نے جو احکامات جاری کیے ہیں، ان میں سے چند نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ خصوصاً ۷۲جنوری کو مسلمان ممالک سے آنے والے افراد کے بارے میں بالعموم اور مسلمانوں کے بارے میں بالخصوص ان کے احکامات نے جو افراتفری برپا کی ہے، اس نے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کو جنم دیا ہے جس سے بین النسلی اور سیاسی فضا بْری طرح مکدر ہوگئی ہے۔ آبادی میں تلخی اور بے اعتمادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس نے امریکا کے شہریوں کے درمیان باہمی اخوت، بھائی چارے اور امریکا اور دنیا کے دوسرے ملکوں اور اقوام کے مابین، خصوصیت سے مسلمانوں سے تعلق کو بْری طرح متاثر کیا ہے۔ کچھ حلقے تو اس خطرے تک کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ ان حالات کے دباؤ میں صدرٹرمپ کوئی ایسی حرکت نہ کر گزریں کہ جو دنیا کو خدانخواستہ جنگ کی طرف لے جانے کا باعث بن جائے۔
عرب نیوز (۹۲جنوری ۷۱۰۲ء4 )کا ایک نامہ نگار ایک اہم ایشیائی ملک کے سفیر کے خدشات کا اظہار کرتا ہے جو قابلِ غور ہیں:
انسان کو امریکا سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ یہ اس کا نقصان ہے۔ اس سے امریکا کا عالمی اثر اور قیادت اس سے چھن جائیں گے اور یہ وہ قیمت ہوگی جو اسے ان پالیسیوں? حکمت عملیوں کے عوض دینا ہوگی جن کا وہ مثلاً چین کے حوالے سے منصوبہ بنائے ہوئے ہے اور اس کی بیش تر معاشی قیمت امریکا ہی کو ادا کرنا ہوگی۔ امریکا کا دوسرے ملکوں سے الگ تھلگ رکھنے کا رویّہ ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گا کیوں کہ دنیا اس کے ساتھ نبٹ سکتی ہے، مگر یہ بنیادی طور پر امریکا کو نقصان پہنچائے گا، جسے اس معرکے میں فتح کے بجاے شکست کا سامنا ہوگا۔ ایشیائی قوم کے سفیر نے، جس پر چینی پالیسیوں کا گہرا اثر ہے، دلیل دی کہ امریکا کی پسپائی چین کے عروج کو تیز تر کردے گی، کیوں کہ چین اس خلا کو پْر کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ’’تاہم ہمارا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کے نتیجے میں امریکا کے معاشی مصائب بدتر ہوجائیں گے اور اس چیز سے تحریک پاکر اس کا یہ عقیدہ ہوجائے گا کہ اب اسے اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کہیں جنگ کی ضرورت ہے۔

باراک اوباما کا دور
ایک اور پہلو جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا انتخاب کسی خلا میں منعقد نہیں ہوا ہے۔ ۶۱۰۲ء4 کے انتخابی نتائج کو اس پس منظر سے کاٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا کہ ان سے پہلے باراک اوباما آٹھ سال امریکا کے صدر رہے۔ وہ بھی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ہی صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان سے قبل جارج بش کے آٹھ سال امریکا اور دنیا کے لیے ترقی معکوس کے سال تھے۔ صدر اوباما، کانگرس کے ان چند نمایاں ارکان میں سے تھے، جنھوں نے ۳۰۰۲ء4 سے عراق کی جنگ کی کھل کر مخالفت کی تھی اور اسے تباہی کا راستہ قرار دیا تھا۔ صدراوباما امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر تھے اور جن لوگوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ وہ دوسری باری نہیں لے سکیں گے، ان ’مستقبل بینوں‘ نے منہ کی کھائی۔ اس طرح ۲۱۰۲ء4 میں بھی اوباما بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے لیکن چند محاذوں پر انھیں بْری طرح ناکامی ہوئی۔
امریکا کے قومی ایجنڈے کے مطابق ان کے سامنے سب سے اہم محاذ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ تھا۔ اوباما جنگ ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ صدر بنے تھے، لیکن: نہ صرف یہ کہ وہ عراق میں جنگ ختم نہ کرا سکے بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ کی آگ انھی کے دور میں پھیلی۔ لیبیا اور شام جنگ کی لپیٹ میں آگئے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کارستانیوں کی وجہ سے تباہی کا یہ بازار گرم ہوا۔ یمن بھی اپنے انداز میں آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ یوکرائن میں بھی جنگ کے شعلے بلند ہوئے، خواہ اس کی بڑی ذمہ داری روس کی سیاسی انگڑائیوں پر تھی۔ افغانستان، امریکی کامیابیوں کے سارے دعوؤں کے باوجود، برابر جنگ کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور صدراوباما کو افواج کم کرنے کے بعد دوبارہ ان کی تعداد کو بڑھانا پڑا، اور اس کے باوجود افغانستان کے ایک چوتھائی حصے پر طالبان کی حکمرانی ہے اور عملاً ان کے اثرات مزید ۰۳ فی صد علاقے پر ہیں، حتیٰ کہ کابل بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ صدراوباما کے زمانے میں ڈرون حملے امریکی صدربش کے دور سے ۰۱گنا زیادہ ہوئے۔ صدراوباما کے اقتدار کے آخری سال (۶۱۰۲ء4 ) میں امریکا نے دنیا کے سات ممالک میں ۶۲ہزار ۱۷۱ بم گرائے، اور یہ تعداد صدر بش کے دور سے کہیں زیادہ تھے۔
یہی معاملہ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کا ہے۔ صدراوباما اسے ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ آئے تھے۔ وہ اپنی صدارت کے پہلے سال ہی میں یہ کارنامہ انجام دینا چاہتے تھے۔ لیکن آخری وقت تک ان کا کوئی بس نہ چلا اور آج بھی گوانتاناموبے کا تعذیب گھر امریکا کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ بنا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی پاس داری کے باب میں بھی صدر اوباما کا ریکارڈ مایوس کن رہا۔ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاں بدترین تعذیب اور مبغوض ترین حربوں کا استعمال جاری رہا۔ عام انسانوں کی نجی زندگی کی نگرانی بلکہ ایک طرح کی غلامی کا ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر نظام قائم کیا گیا۔ صدراوباما کو دنیا میں امن کے قیام کی خدمت کے سلسلے میں پیشگی نوبل انعام سے نوازا گیا، لیکن ان کے آٹھ سالہ دور میں نہ جنگ ختم ہوسکی اور نہ دہشت گردی، بلکہ اس کی تباہ کاریوں اور وسعتوں میں اضافہ ہی ہوا۔
دوسرا محاذ جس پر صدراوباما کو شدید ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، وہ نسل و رنگ کی بنیاد پر امریکا میں قتل و غارت اور ظلم و استحصال پر مکمل قابو پانے کا دعویٰ تھا۔ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ خود ان کے دورِ اقتدار میں صرف پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام نوجوانوں کے ظالمانہ قتل کے واقعات میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا اور ہرواقعے پر وہ آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔
صدراوباما کو بہت مشکل معاشی حالات کا مقابلہ کرناپڑا اور پوری کوشش کے باوجود، کچھ میدانوں میں جزوی کامیابی کے باوصف، وہ امریکا کے معاشی بحران پر قابو نہ پاسکے۔ مسلم دنیا سے بھی امریکا کے تعلقات کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور ۹۰۰۲ء4 میں قاہرہ کی تقریر اس ضمن میں ایک اہم آغاز تھا، مگر یہ آرزو بھی پوری نہ ہوسکی۔ بالآخر امریکا اور اسلامی دنیا میں بے اعتمادی اور بے زاری میں اضافہ ہی ہوا۔ ایران سے ایٹمی معاہدہ اور کیوبا سے تعلقات کی بحالی اہم مثبت کامیابیاں ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ذاتی شرافت اور باوقار اسلوب کے باوجود، امریکا اور عالمی سطح پر ان آٹھ برسوں کو ترقی اور کشادگی کے سال نہیں کہا جاسکتا۔

ٹرمپ کی آمد ، اوباما کا ردعمل
ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاہ فام صدراوباما کی یہ ناکامیاں ایک سفیدفام، دائیں بازو کے انتہاپسند صدر کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں اہم محرک ثابت ہوئیں۔ صدر ٹرمپ اور صدراوباما رنگ و نسل کے اعتبار سے ہی نہیں، نظریات، سیاسی ترجیحات، اخلاق و کردار، غرض ہراعتبار سے دوبالکل مختلف ماڈل پیش کرتے ہیں۔ ایسے نمونے جن میں بعدالمشرقین کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ۶۱۰۲ء4 کے صدارتی انتخابات میں سیاست کی اس جست (swing) کا منظر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ۸۰۰۲ء4 میں صدراوباما کو منتخب کرکے امریکی جمہوریت نے اپنے جس جوہر کا مظاہرہ کیا تھا، وہ اپنی جڑیں اس زمین میں پیوست نہ کرسکا، بلکہ ایک واضح ردعمل رْونما ہوا، جسے سیاست کا انتقام بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ قوتیں جنھوں نے ۸۰۰۲ء4 اور ۳۱۰۲ء4 کے انتخابی رجحان کو مجبوراً قبول کرلیا تھا، انھوں نے ایک نئے اور زیادہ جارحانہ انداز میں اپنی بالادستی کو قائم کیا اور جو کچھ برتن کے اندر تھا وہ کھل کر باہر آگیا۔ اس سے یہ پہلو بھی سب کے سامنے آگیا کہ ہرمعاشرے کی طرح امریکی معاشرے میں بھی خیر اور شر دونوں کے عناصر بڑی تعداد میں موجود ہیں اور عمل اور ردعمل کا سلسلہ ہرجگہ دوسرے ملک اور معاشرے کی طرح وہاں بھی جاری وساری ہے۔
جہاں صدرٹرمپ اور اس کی پوری ٹیم کے چند واضح اہداف ہیں اور وہ ہے: ’سب سے پہلے امریکا‘ (America First ) اور ’امریکا کو عظیم بنانا‘ (Making America Great)۔ ان نعروں کو اپنی اوّلین ترجیح بناکر سیاسی، معاشی، عسکری، ثقافتی ہر میدان میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لانا صدر ٹرمپ کا ہدف ہے۔ یوں جارحانہ قوم پرستانہ دور کا آغاز ٹرمپ کی خواہش ہے جس میں امریکا کی سفیدفام آبادی کا کردار مرکزی ہوگا اور قومی اور عالمی دونوں سطح پر پالیسی سازی اور پالیسی کے نفاذ دونوں پہلوؤں سے نسبتاً سخت گیر اور صرف صدر کی شخصیت کے گرد (president centered) اسلوبِ کار اختیار کیا جائے گا۔ نظریاتی اور اخلاقی پہلوؤں کو غلبہ اور فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں ہوگی اور پوری پالیسی محدود اہداف کے حصول پر مرکوز ہوگی۔ مشاورت اور فیصلہ سازی کے معروف طریقوں سے بھی انحراف کیا جائے گا اور امریکا کے سیاسی نظام میں جو توازن اور تحدید کی روایت ہے، اس پر بھی بْرے اثرات پڑیں گے، جو اداروں کے درمیان تناؤ اور تصادم کی حدوں کو بھی چھوسکتے ہیں۔ اسی طرح خارجہ تعلقات میں جو مقام اسٹرے ٹیجک غوروفکر اور حکمت کار کو حاصل رہا ہے اس میں تبدیلیاں آئیں گی اور زیادہ اہمیت نعروں پر مبنی، فوری نتائج کے حصول کو حاصل ہوجائے گی۔ عالم گیریت اور دوسری جنگ کے بعد قائم ہونے والے عالمی نظام اور اس کی صورت گری کرنے والے اداروں پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔امریکا کی اپنی فوجی اور معاشی قوت کی ترقی کو زیادہ اہمیت دی جائے گی اور امریکا کی عالمی کردار کی ازسرِنو صورت گری ہوگی۔
۷۱۰۲ء4 اس پہلو سے بڑا اہم سال ہوگا جس میں جنم لینے والی تبدیلی کے بڑے دْور رس اثرات امریکا میں جمہوریت کے مستقبل پر بھی پڑیں گے۔ یہ دور تخریب اور تعمیر دونوں پہلوؤں سے عبارت ہوگا۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکا کے عوام اور تمام ہی سوچنے سمجھنے والے افراد، ادارے اور گروہ محض ’دیکھو اور مست رہو‘ ( wait & see) کا راستہ اختیار نہ کریں اور نہ اندھی تائید اورخون آشام مخالفت کا راستہ اختیار کریں۔ ہماری نگاہ میں کھلے ذہن کے ساتھ اس منظرنامے کا ادراک کرنا اور اس میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے مکالمے (ڈائیلاگ) کا راستہ اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس غلط فہمی سے نکلنا ضروری ہے کہ اب امریکا سے معاملات اس طرح ہوسکیں گے جس طرح ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ ’جس طرح ہوتا آیا ہے‘ والا دور بظاہر رخصت ہوگیا ہے۔ اب وقت نئی سوچ اور نئی راہیں تجویز کرنے کا ہے___ اور یہ چیلنج جس طرح امریکا میں آباد افراد اور تنظیموں کے سامنے ہے، اسی طرح عالمی سطح پر تمام ممالک اور اقوام کو بھی درپیش ہے۔ خصوصیت سے پاکستان اور مسلم دنیا کے حالات کا گہری نظر سے مطالعہ و تجزیہ کرکے نئے خطوط کار کی ترتیب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہم اللہ کی توفیق کے طالب ہیں کہ اللہ ہمیں اس بارے میں اپنے خیالات پیش کرنے کی توفیق سے نوازے۔ ہم سب اہلِ فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ وقت کے اس چیلنج کے مقابلے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مستعد ہوجائیں، اس لیے کہ:
یہ بزمِ مے ہے ، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اْٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

حصہ