(کشمیر میں اردو صحافت کا سفر ش م احمد (سری نگر)

2552

کشمیر میں صحافت کا سفر ایک سو چونسٹھ سال طویل مدت پر محیط ہے۔1867 ء میں مہاراجا رنبیر سنگھ نے جموں میں ایک ادبی تنظیم بدیا (ودّیا) بلاس سبھا کی تاسیس کی اور بڑی دلجمعی کے ساتھ خود اس کی محفلوں کی صدارت بھی کرتا۔ سبھا کا اپنا ترجمان ہفت روزہ ’’بدیا بلاس‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ ریاست کا یہ پہلا اخبار اردو اور ہندی زبانوں میں شائع ہوا کرتا تھا۔ اخبار کے صفحات میں بدیا بلاسبھا کی ادبی کاوشیں اور کارروائیاں اُجاگر کی جاتی تھیں۔ مہاراجا چونکہ خود ادبی ذوق کا مالک اور فنون کا دلدادہ تھا، اس لیے یہ اخبار اُس کے ذوق کی تشفی کا سامان بنا، مگر ساتھ ہی اُس کی چاہت تھی کہ رعایا میں بھی یہ ذوق پروان چڑھے۔ البتہ محققین اسے اخبار سے زیادہ ایک گزیٹر یعنی فرہنگِ جغرافیہ تسلیم کرتے ہیں۔ بدیا بلاس کی ایک مکمل فائل آج بھی برٹش میوزیم لندن میں محفوظ ہے۔ مہاراجا نے ایک مطبع ’’بدیا بلاس پریس‘‘ بھی قائم کیا جہاں سے اخبار کی اشاعت ہوتی تھی۔ مگر یہ ریاست میں پہلا پریس نہ تھا بلکہ1858ء میں سرسوتی پریس نام سے ایک پرنٹنگ پریس جموں میں قائم کیا گیا تھا۔ 1885ء میں مہاراجا رنبیر سنگھ کی موت سے بدیا بلاس کی زبان بھی خاموش ہوگئی۔ مہاراجا رنبیر سنگھ نے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لی تو اسی زمانے میں برطانوی ہند میں تحریک آزادئ ہند کی ہوا بھی چلی۔ اس ہوا کو اپنے تخت وتاج کے لیے بغاوت کی آندھی تصور کرکے راجا مہاراجاؤں نے پریس اور پلیٹ فارم کو اپنے لیے پیامِ اجل سمجھا، اس لیے ادب اور صحافت کی سرپرستی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو قلم و قرطاس کا دم بھی گھٹنے لگا۔ اس کے باوجود مذہبی تبلیغ اور سماجی اصلاح کے نام پر جموں میں ہی مہاجن سبھا نے 1906 ء اور 1916ء کے درمیان ’’ڈوگرہ گزٹ‘‘ کے نام سے اپنا اردو اخبار شائع کیا۔1908 ء میں اسی سبھا نے لالہ ہنس راج مہاجن کی ادارت میں’’نتی پترا‘‘ کے نام سے ایک اور اردو اخبار شائع کیا۔ مہاراجی حکومت نے ان اخبارات کی اجازت اس شرط پر دی تھی کہ ان میں کسی بھی نوع کی سیاسی خامہ فرسائی نہ ہوگی اور نہ یہ امورِ سلطنت و انتظامیہ پر کوئی تبصرہ یا رائے دیں گے۔ مگر برصغیر میں سیاسی فضا بڑی تیزی سے بدل رہی تھی، تحریکِ آزادئ ہند اپنے بال و پر جا بہ جا پھیلا رہی تھی، انگریزی تعلیم کے زیراثر عوام میں بیداری کی لہر دوآتشہ ہورہی تھی۔ ریاست جموں و کشمیر ان حالات وکوائف سے زیادہ دیر لاتعلق نہ رہ سکتی تھی۔ اسی پس منظر میں1909 ء کے آس پاس ریاست کے ایک مشہور شاعر، قلم کار اور صحافی محمد دین فوقؔ نے مہاراجا پرتاپ سنگھ کے دربار میں عرضی دی کہ انہیں ریاست میں ’’کشمیر میگزین‘‘ شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان کی عرضی کو مسترد کردیا گیا۔ اس ممانعت کے باوجود بات یہیں پر نہ رُکی بلکہ سیاسی طور پر بالغ نظر اور متحرک وفعال ذہن لوگوں نے کشمیر کے درد وکرب، مسائل اور مشکلات اور بے نوائیوں کی عکاسی کے لیے پرورشِ لوح وقلم کے لیے بیرونِ ریاست کے اخبارات میں مستقلاً لکھنا شروع کیا۔ ان تحریروں میں زیادہ تر مہاراجی دور کے مظالم اور دیگر شکایات کا تذکرہ ہوا کرتا تھا۔ مزید برآں بعض سخت جان لوگوں نے لاہور اور دیگر جگہوں سے کشمیر کے ناگفتہ بہ حال واحوال پر مذکور اخبارات بھی شائع کیے۔ ان میں مرثیۂ کشمیر، اخبار عام، خیرخواہِ کشمیر، ہمدرد، تحفۂ کشمیر، کشمیر درپن، راجپوت گزٹ، کشمیری میگزین، اخبار کشمیر، مظلومِ کشمیر، پنجابی فولاد، اور صبح کشمیر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان اخبارات میں لکھنے والوں میں قابلِ ذکر نام مکندرام گرٹو، ہرگوپال، سرب دیال، سر تیج بہادر سپرو، سکھ رام چوہان، لکشمی نارائین کول، منشی محمد دین فوقؔ ، اور زین محمد گنائی وغیرہم تھے۔
اردو صحافت کی تاریخ کا ایک سنگِ میل ہفت روزہ ’’الرفیق ‘‘ نامی اخبار ہے۔1896 ء میں یہ شہر خاص فتح کدل کے رہنے والے عبدالسلام رفیقی نے جاری کیا۔ اخبار مہاراجی حکومت کا ناقد تھا، اس لیے مدیر ازروئے قانون باغی ٹھیرا۔ اس کے صرف دو ہی شمارے زیورِ اشاعت سے آراستہ ہوئے تھے کہ’’الہلال‘‘ اور’’البلاغ ‘‘کی مانند اخبار راندۂ درگاہ بنا۔ اس ہفت روزہ کی طباعت مطبع تحفۂ کشمیر سے ہوئی تھی، اس لیے اسے بھی مقفل کیا گیا۔ اخبار کے مدیر کے گھر پر مہاراجا کے حکم سے سرکاری تالا چڑھا دیا گیا اور انہیں ریاست بدر کیا گیا۔ لاہور سے عبدالسلام بچتے بچاتے ڈلہوزی پہنچے اور امامِ مسجد بن کر اپنے اندر کے صحافی کو مار ڈالا اور گمنامی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی، مگر کچھ ہی عرصہ بعد اُن کے جوش و جذبے نے ان کو یہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ یہاں انگریزوں نے ایک پارک کے باہر بورڈ پر لکھا تھا کہ کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس پر رفیقی کی رگِ غیرت پھڑکی اور ایک دن نماز فجر کے بعد اس بورڈ کو اعلانیہ توڑ ڈالا۔ یہ اُن کا ایک ایسا جرم بنا جس کی پاداش میں انہیں انگریزوں نے رنگون جلا وطن کیا۔
یہاں سے انہوں نے بہت جلد ’’الرفیق‘‘ کا ازسرنو اجراء کیا۔ اس اخبار میں انہوں نے انگریز حکومت کی مٹی پلید کی تو انہیں گرفتار کیا گیا۔ جیل میں یہ اطلاع پاکر کہ انہیں حق گوئی کے جرم میں پھانسی دی جائے گی تاکہ دوسرے باغی عبرت پکڑیں، انہوں نے فوراً اپنی اہلیہ اور فرزند کو سری نگر واپس بھیج دیا اور خود کسی طرح12 مئی1912 ء کو جیل سے فرار ہوکر انڈونیشیا جکارتا میں اقامت اختیارکی۔ وہیں جلاوطنی اور کسمپرسی کی حالت میں ہی 2 جولائی1941 ء کو وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کا خانوادہ کشمیر یونیورسٹی سے متصل زکورہ سری نگر میں آج بھی قیام پذیر ہے۔
اردو صحافت کی تاریخ کا ایک درخشندہ ستارہ سانبہ جموں کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پُرعزم نوجوان اور باہمت صحافی لالہ ملک راج صراف ہیں۔ انہوں نے پرنس ویلز کالج جموں اور لا کالج لاہور سے تعلیم پانے کے بعد لالہ لاجپت رائے کے اخبار’’ بندے ماترم‘‘ میں کام کیا تھا۔ ان کو یہ شوق چرایا کہ کیوں نا ایک اردو اخبار کی اشاعت ریاست سے کی جائے۔ مہاراجا کے دربار سے رجوع کیا مگر چار بار ان کی درخواست رد ہوئی، مگر یہ آہنی عزائم والا شخص ہار ماننے والے نہ تھا اور اپنی امید برآنے میں مسلسل کوشاں رہا۔ اُن کی تگ ودو کی دلچسپ رُوداد ’’ففٹی ایئرز از اے جرنلسٹ‘‘ کے عنوان سے ان کی خودنوشت تصنیف میں درج ہے۔ اس میں وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ کس طرح قدم قدم پر شخصی راج کی حوصلہ شکنیاں، شکوک وشبہات، غیر ضروری اَڑچنیں، افسر شاہی کی ٹال مٹول ان کے تعاقب میں رہے، مگر آخر کار ان کی چوتھی عرضی کی طویل عرصے بعد موافقانہ شنوائی ہوئی اور مہاراجا ہری سنگھ نے ازراہِ کرم انہیں اخبار کی اجازت مرحمت فرمائی۔ 24 جون 1924ء کو لالہ ملک راج صراف کو اپنا اردو اخبار ’’رنبیر‘‘ شائع کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ’’رنبیر‘‘ کو چونکہ کوئی سرکاری سرپرستی یا آشیرواد حاصل نہ تھی، اس لیے یہ اخبار ریاست میں آزاد صحافت کے سفر کا پہلا زریں پڑاؤ کہلایا جاسکتا ہے۔ یہ اخبار ادب اور صحافت کے حوالے سے قلم کاروں کی ایک کہکشاں بھی منظرعام پرلایا۔ ان میں سروشری وشوا ناتھ کیرنی، ذوالفقار علی نسیم، حبیب اللہ، شری رام، بدری ناتھ وکیل، گردھاری لال آنند، ایس ایس نشاط، سورن ناتھ آفتاب، پریم ناتھ سادھو رونق، ارجن سنگھ عرش، بنسی لال سوری، منوہرلال دل، متھرا داس شائق، مرزا مبارک بیگ، ماسٹر زندہ لال کول، غلام حیدر، صاحبزادہ محمد عمر، محی الدین احمد گمان، پنڈت نند لال طالب قابلِ ذکر ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ شخصی راج میں مہاراجی نظام پر تنقید کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ اگر بالفرض کسی وقت کسی صحافی کی صاف گوئی سے حکام طیش میں آجاتے تو اُسے قلم کی بغاوت کی سزا اُس کے مسکن و جائداد کی ضبطی اور جلا وطنی تک بھی ہوسکتی تھی، اس سخت گیریت کے باوجود صحافت کے میدان میں نئے تیشے اور نئے فرہاد نمودار ہوتے رہے۔ جولائی 1933ء میں ’’پاسبان‘‘ جموں سے منشی معراج الدین احمد نے شائع کرکے خطے کے مسلمانوں کے دبے کچلے جذبات کے لیے ایک وسیلۂ اظہار عطا کیا۔
شخصی راج کے خلاف پہلی بار منظم عوامی تحریک جموں سے 1931ء میں شروع ہوئی، جس نے کشمیر کو فوراً سے پیشتر اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کشمیری عوام جو صدیوں سے بدترین سیاسی گھٹن اور احساسِ محرومی کی جلن اپنے سینوں میں محسوس کررہے تھے، 1931ء کی ہنگامہ خیزی نے انہیں پلک جھپکتے ہی شعلہ بار کردیا۔ لوگ اپنے سلب شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے دیوانہ وار اُٹھ گئے، روایتی مذہبی رہنماؤں اور نئی سیاسی قیادت کی ایک ملی جلی صف نے لوگوں کے جوش وجذبے کو ایک سیاسی جہت دی۔ اس تاریخی موقع پر کشمیر میں سیاست کے اُفق پر دھیرے دھیرے صحافت کا سورج بھی طلوع ہوا۔ پریم ناتھ بزاز نے زمانے کی نبض شناسی کرتے ہوئے بروقت سمجھ لیا کہ وقت آگیا ہے کہ کشمیر میں عوامی بیداری کے لیے صحافت کے خارزار کی آبلہ پائی شروع کی جائے۔ اسی شوق یا جنون میں بزاز نے 1932ء میں وادئ کشمیر کا پہلا اخبار’’ وتستا‘‘ جاری کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمدرد، مارتنڈ، خدمت، خالد، نور، دیش نے اخباری دنیا کی رونقیں بڑھا دیں۔
کشمیر میں اردو صحافت کے سفر کا دوسرا دور1947 ء سے شدومد کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور تادم تحریر یہ سفر سینکڑوں روزناموں، ہفت روزوں اور ماہ ناموں کی شکل میں جاری وساری ہے۔ جن صحافیوں نے اس سفر میں ہراول دستے کا کام کیا، ان میں مولوی محمد سعید مسعودی، غلام محمد کشفی، مفتی جلال الدین، مولوی غلام نبی مبارکی، مولوی قاسم شاہ بخاری، غلام محی الدین رہبرؔ ، عاشق کاشمیری، میر عبدالعزیز، نند لال واتل، غلام رسول عارف، شمیم احمد شمیم، خواجہ ثناء اللہ بٹ، صوفی غلام محمد، غلام نبی خیال، کرشن دیو سیٹھی، کارٹونسٹ بشیر احمد بشیر، فیاض احمد کلو، یوسف جمیل، طاہر محی الدین جیسے کہنہ مشق صحافی سرفہرست رہے۔ اردو صحافت کا یہ پہلو بھی کافی دلچسپ ہے کہ مذہبی اور سیاسی انجمنوں نے اپنے ترجمان اردو زبان میں ہی جاری کیے۔ نوائے صبح، خدمت، اذان، مسلم، توحید، وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ شیخ محمد عبداللہ، کرشن دیو سیٹھی اور سید میرقاسم نے اپنی اپنی رُوداد ہائے زندگی یا سوانحِ حیات لکھیں تو قرع�ۂ فال اردو کے حق میں ہی نکلا۔ بہرکیف اردو صحافت کا سفر ماضی میں بہت ہی شاندار رہا ہے مگر حال کے بارے میں یہ کہنے میں باک نہیں کہ یہ رُوبہ زوال ہے۔ اس کے قارئین کا حلقہ بلاشبہ خاصا وسیع وعریض ہے مگر سنجیدہ فکر اور تازہ دم اردو قلم کاروں کا واقعتاکال پڑا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ اردو زبان کی شکستہ حالی ہے اور سرکاری سطح پر اس زبان سے لاتعلقی بھی ہے اور سرد مہری بھی۔
اردو صحافت کا بوجھل قدموں کا سفر اردو زبان کی حالتِ زار کی صدائے بازگشت ہے۔ ہمارے آج کے وہ اردوکالم نگار جنہیں نہ صرف عمدہ لکھنے پر دسترس اور علم پروری کا ملکہ حاصل ہے بلکہ جو اپنی تحریروں سے باذوق قارئین کی ذہنی تشفی کا سامان بھی کر نے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ محمد یوسف ٹینگ، پروفیسر بشیراحمد نحوی، شہزادہ بسمل، کے ڈی سیٹھی، حسن زینہ گیری، ڈاکٹر جاوید اقبال، نعیمہ مہجور، علی اسرار، بشارت بشیر، ڈاکٹر غلام قادر لون، ایس پیرزادہ احمد، عبدالرحمن مخلص، محمد مظفرخادم (آخر میں درج یہ دونوں حضرات اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں) یہی وہ چند نام ہیں جن کی قلمی کاوشوں سے ’’کشمیر عظمیٰ‘‘کے صفحات آباد وشاداب رہے اور میری دانست میں اُن کے رشحاتِ قلم سے اردو صحافت کی کماحقہٗ خدمت ہوئی۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں جن اصحاب کے یہاں افکارِ تازہ، موضوعات کا تنوع، بصائر کا خزانہ اورقلم کی رعنائیاں بکثرت موجود ہیں، جن کی اُردو تحریروں سے اردو صحافت کا سفر نئی رنگ آمیزیوں کے ساتھ جگمگا سکتا ہے، وہ سر تاسر انگریزی کی نذر ہوچکے ہیں اور گمان غالب یہی ہے کہ انہیں اُردو میں لکھنا اپنے لیے کسر شان دکھائی دیتا ہے، شاید وہ ڈرتے ہیں کہ اس زبان میں خامہ فرسائی کرکے ان پر دقیانوسیت کا ٹھپہ لگ سکتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ زبان میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ ، جوش ؔ ، فراقؔ ، فرازؔ ، پریم چند،کرشن چندر، راجند سنگھ بیدی، کنور مہندر سنگھ کی آغوشِ محبت میں پلی بڑھی ہے، مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی، ابوالحسن علی ندوی اور ایسی دوسری عبقری شخصیات کی لاڈلی زبان ہے، اس میں کوئی بھید بھاؤ نہیں، محبتوں کی مٹھاس ہے، مفاہیم کے سمندر ہیں اور معانیوں کے کوہ وجبل ہیں۔ بس صرف ایک بار لسانی تعصب سے بالاتر ہوکراس کی جانب ایک نظرکرم ڈالنے کی ضرورت ہے۔

حصہ