(پاک افغان کشیدگی(ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

227

ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور
ایک طرف 23 ستمبر 2016ء کو افغان حکومت اور حزبِ اسلامی کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا اور دوسری طرف پاکستان میں پانچ دن میں دہشت گردی کے8 واقعات میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کی نشاندہی سے پاک افغان تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی پیدا ہوگئی۔ ویسے بھی اس خطے میں اتنی تیزی سے واقعات ہورہے ہیں اور تبدیلیاں آرہی ہیں کہ ان کا حساب رکھنا اور کوئی تجزیہ کرنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ چونکہ حزب اسلامی اور حکومت افغانستان کے درمیان امن معاہدہ ایک مثبت پیش رفت تھی جس کی تمام امن پسند قوتوں اور پاکستان سمیت افغانستان کے تمام بہی خواہوں نے تعریف کی تھی، اس لیے بجا طور پر اس سے توقعات وابستہ کی گئیں اور یہ امید کی جانے لگی کہ شاید اسی طرح افغانستان کے ایک اور اہم فریق طالبان کے ساتھ بھی مثبت مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوسکے گا۔ لیکن عین اسی وقت پاکستان میں خونریزی اور ہلاکتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے بارے میں یقینی شواہد ہیں کہ اس کو افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان کی قیادت کنٹرول کررہی ہے اور غالباً پاک افغان تاریخ میں پہلی بار پاکستانی فوج نے افغانستان کے صوبے کنڑ میں مخصوص ٹھکانوں پر گولہ باری شروع کردی اور ایک مرتبہ پھر بارڈر پر جنگی صورت حال پیدا ہوگئی۔
مثبت خبر یہ ہے کہ گزشتہ سال ڈاکٹر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اور انجینئر گلبدین حکمت یار کی قیادت میں حزبِ اسلامی افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوگیا اور ایک بڑے قدم کے طور پر انجینئر حکمت یار اور ان کی پارٹی کا نام اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا، اور اس طرح سے ان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم ہوگئی ہیں۔
6 سال طویل مذاکراتی عمل کے بعد طے پانے والا معاہدہ25 نکات پر مشتمل ہے۔ مبصرین اس امن معاہدے کو افغان حکومت کی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان کے طول و عرض میں افغان طالبان کی مزاحمت جاری رہی، جب کہ بعض جگہ حزب اسلامی کے گوریلے بھی نبرد آزما تھے۔ اب ان سے بھی زیادہ خطرناک تنظیم داعش نے بھی افغانستان میں قدم رکھے ہیں اور مستقبل مخدوش نظر آرہا تھا۔ اس پورے منظر میں حکومتِ افغانستان اور حزبِ اسلامی کا معاہدہ خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے جس پر افغان عوام نے بجا طور پر خوشی کا اظہار کیا۔ البتہ اس معاہدے سے پاک افغان تعلقات پر کوئی مثبت اثر پڑتا ہے کہ نہیں اس کا اندازہ ابھی لگانا مشکل ہے۔ جن مذاکرات کے اختتام پر یہ معاہدہ ہوا ہے اُن کا سلسلہ حامد کرزئی کے دور سے شروع ہوا تھا۔ گزشتہ سال مارچ کے مہینے سے کابل میں موجودہ حکومت کے ساتھ باقاعدہ رسمی مذاکرات کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور کابل حکومت کی دلچسپی اور سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے حزبِ اسلامی نے اپنا سب سے دیرینہ مطالبہ غیر ملکی افواج کے حتمی انخلاء میں ترمیم کرتے ہوئے اس کو معاہدے کی شرائط میں رکھنے کے بجائے معاہدے کا ایک مقصد اورنصب العین قرار دیا۔ مئی 2016ء میں بالآخر ایک ڈرافٹ پر اتفاق کرلیا گیا جو بڑی عرق ریزی سے قانونی ماہرین کی مدد سے حزب اسلامی کے نمائندے کریم آمین اور حکومت کے نمائندے پیر سید احمد گیلانی نے تیار کیا، اور دونوں طرف کے قائدین کی خدمت میں پیش کردیا۔ یاد رہے کہ پیر سید احمد گیلانی بھی روس کے خلاف جہاد میں اپنے دھڑے کے سربراہ تھے اور اس طرح گلبدین حکمت یار کے ہم رکاب رہے تھے۔
گزشتہ سال 22 ستمبر کو کابل میں ایک تقریب میں ابتدائی مسودے پر دستخط ہوئے جس میں حزبِ اسلامی کے نمائندے اور حکومتی عہدیداران شریک ہوئے۔ اس کے بعد معاہدے کے حتمی مسودے کو انجینئر حکمت یار کے پاس دستخط کے لیے بھیجا گیا جو افغانستان میں کسی خفیہ مقام پر مقیم ہیں، اور بالآخر 29 ستمبر کو ایک شاندار تقریب میں جو کابل کے صدارتی محل ارک میں منعقد ہوئی، صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے معاہدے پر دستخط کردیے۔
معاہدے کے اہم نکات میں حکومت کے ذمے جو کام تھے ان میں گلبدین حکمت یار اور حزبِ اسلامی پر سے بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ، ان کے لیے اور حزب کے دیگر رہنماؤ ں کے لیے عام معافی کا اعلان، ان پر عائد کردہ تمام الزامات اور مقدمات کا خاتمہ، حزبِ اسلامی کے ارکان اور مجاہدین کو افغانستان کے قومی سیکورٹی اداروں میں ملازمتیں فراہم کرنا اور اُن 20 ہزار افغان مہاجر خاندانوں کی باعزت افغانستان واپسی کا انتظام کرنا جو پشاور کے نصرت مینہ اور شمشتو کیمپوں میں آباد ہیں۔ انجینئر حکمت یار کو افغانستان میں قیام کی تمام سہولتیں فراہم کرنا اور ان کو جہادِ افغانستان اور ملک کی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد پر ان کا جائز مقام دینا وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے مقابلے میں حزبِ اسلامی نے اپنے ذمے جو کام لیے ہیں ان میں سب سے اہم نکتہ جنگی حالت سے دست برداری اور ملک کے دستور و قانون کی پاسداری ہے۔ وہ کسی اور گروپ کی بھی جنگی تیاریوں میں مدد نہیں کریں گے۔ مکمل اور دیرپا سیز فائر کریں گے اور اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کریں گے اور اپنے طور پر کسی بھی قسم کی جنگی کارروائیوں میں شرکت نہیں کریں گے۔ ملک میں موجود جمہوری اداروں کا احترام کریں گے اور ان کے خلاف چلنے والی تحریکوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔
معاہدے کے فوراً بعد اس سوال کا پیدا ہونا لازمی تھا کہ انجینئر حکمت یار کب کابل آئیں گے؟ امریکہ نے ان کے سر کی قیمت 25 ملین ڈالر رکھی تھی اور اقوام متحدہ نے حزبِ اسلامی پر پابندی عائد کی ہوئی تھی جس کی وجہ سے کئی یورپی ممالک نے بھی ان کے خلاف ہر قسم کی پابندی لگا رکھی تھی جن کی موجودگی میں ان کا منظرعام پر آنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ پہلے افغان حکومت ان اداروں اور حکومتوں سے اپیل کرے کہ وہ حکمت یار اور ان کی پارٹی کے خلاف پابندیاں ختم کریں جن میں سرفہرست امریکہ ہے۔ چونکہ ایک طویل مذاکراتی عمل کے بعد یہ معاہدہ معرضِ وجود میں آیا تھا اس لیے امید کی جاتی تھی کہ امریکہ اس معاملے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ پھر بھی ان پابندیوں کو قانونی طور پر ختم کرنے میں مشکلات کا اندازہ تھا اور یہی اس معاہدے کا پہلا امتحان تھا۔
لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ امریکا کے بجائے روس اور فرانس نے حکمت یار کو بلیک لسٹ سے نکالنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا، جس کی وجہ سے یہ فیصلہ لٹک گیا۔ اس دوران اقوام متحدہ کا ایک وفد کابل آیا اور اس نے افغان انتظامیہ اور حزب اسلامی کے نمائندوں سے معلومات حاصل کیں۔ پھر حزبِ اسلامی نے سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود روسی اور فرانسیسی حکومتوں سے رابطے کیے اور ان کو وضاحتیں پیش کیں جس کے نتیجے میں ان کے تحفظات دور ہوئے اور اقوام متحدہ نے 4 فروری 2017ء کو گلبدین حکمت یار اور ان کی پارٹی پر عائد پابندیاں ختم کردیں، اور اس طرح اب ان کے لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ منظرعام پر آسکیں۔ اب امید کی جاتی ہے کہ وہ ماہ مارچ میں جلال آباد یا کابل میں منظرعام پر آجائیں گے اور ان کا سرکاری سطح پر استقبال کیا جائے گا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں یہ افغانستان میں ایک اہم پیش رفت ہوگی جس سے مثبت توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے پوری پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ماہ فروری جو سال کا سب سے چھوٹا مہینہ کہلاتا ہے، اب طویل لگ رہا ہے۔ خونچکاں واقعات کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ پہلے لاہور میں، پھر سیہون شریف، پھر مہمند ایجنسی، پشاور اور چارسدہ میں خودکش بمباروں نے سینکڑوں خاندانوں کو اپنے سرپرستوں سے محروم کردیا ہے۔ شہدا کی تعداد 100سے تجاوز کرگئی ہے اور زخمی 500 سے زائد ہیں۔ 23 فروری کو لاہور کے رہائشی علاقے ڈیفنس میں ایک اور بم دھماکے میں 8 افراد شہید ہوگئے۔ ان میں سے کئی واقعات کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کی ہے جس کے سربراہ عبدالولی کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے اور جو آجکل افغانستان کے صوبے کنڑ میں اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت موجود ہے۔ جب کہ سیہون میں لعل شہباز قلندر کے دربار پر خودکش حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے جس کا سربراہ حافظ سعید اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھتا ہے، اور یہ بھی ننگرہار میں قیام پذیر ہے۔ جب کہ تحریک طالبان پاکستان کا امیر ضلع سوات کا ملا فضل اللہ بھی افغانستان میں ہے۔
یعنی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے ماسٹر مائنڈ اور ان کے ساتھی سب افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہاں سے خودکش بمباروں اور ان کے سہولت کاروں کو پاکستان روانہ کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے لگ بھگ چار ہزار ایسے خاندان افغانستان میں قیام پذیر ہیں جن کا تعلق ان دہشت گرد تنظیموں سے ہے۔ یہ سب پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے پاکستان کے حالات سے بخوبی واقف ہیں اور ان کو کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے ان دھماکوں کے ردعمل میں سب سے پہلے طورخم اور چمن کی پاک افغان سرحدوں کو سیل کرنے کا اعلان کردیا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا عمل رک چکا ہے اور دونوں طرف سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں بڑی تعداد میں شاہراہوں پر پھنس چکی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج نے ٹینکوں، توپخانے اور مارٹر گولوں کے ذریعے صوبہ کنڑ میں چند علاقوں پر گولہ باری کی ہے اور ان ٹھکانوں کو تباہ کرنے اور دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کے سربراہ جنرل نکلسن سے اس موضوع پر بات کی ہے اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے حکام کو 76 ایسے پاکستانی دہشت گردوں کی فہرست دی ہے جو افغانستان میں مقیم ہیں اور وہاں سے پاکستانی عوام کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔
اس کے جواب میں 20 فروری کو افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیوال نے پاکستان کے مشیر امورِ خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کی ہے اور ان کو 23 ایسے ٹریننگ سینٹروں کی فہرست دی ہے جہاں ان کے بقول افغان طالبان کو فوجی تربیت دی جارہی ہے۔ انہوں نے پاکستان سے ان تربیتی مراکز کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح افغان وزارت خارجہ نے پاکستانی سفیر ابرار حسین کو بلا کر پاکستانی فوج کی جانب سے افغان علاقوں پر گولہ باری پر احتجاج کیا ہے۔ اس سے پہلے پاکستانی وزارت خارجہ بھی یہ کام افغان سفیر کے ساتھ کرچکی تھی۔ چنانچہ بظاہر معاملات حل ہونے کے بجائے الجھتے چلے جارہے ہیں۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے جرمنی کے شہر میونخ میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں مل کر دہشت گردوں کا قلع قمع کریں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ واضح کیا ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ اندرونی عوامل کی وجہ سے نہیں بلکہ بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں مقیم سفیرِ افغانستان نے مودی حکومت کو افغانستان پر پاکستانی فوج کی بمباری سے باخبر کیا ہے اور ان سے اس مسئلے پر مدد طلب کی ہے۔
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اس سے پہلے افغان طالبان کو بھی مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر وہ مذاکرات کے لیے تیار نہ ہوئے تو قطر میں ان کے دفتر کو بند کردیا جائے گا۔ یاد رہے کہ تین سال پہلے جب تحریک طالبان افغانستان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا تو قطر میں طالبان کو نمائندگی کی سہولت فراہم کی گئی تھی جو اب بھی موجود ہے، جب کہ باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ بہت عرصے سے رکا ہوا ہے۔ اس دوران ایک اور اہم پیش رفت اور دلچسپ خبر یہ ہے کہ روس نے طالبان تحریک کے ساتھ تعلقات بحال کرلیے ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر روسی حکومت نے ان کو اپنا تعاون بھی پیش کیا ہے۔ یہ روسی حکومت کی عالمی تناظر میں اس پالیسی کا حصہ نظر آتا ہے کہ وہ ایک بار پھر دنیا کے مختلف محاذوں پر امریکا کے بالمقابل ایک کردار ادا کرنا چاہتی ہے جس کی ایک اور مثال شام میں اس کی واضح فوجی مداخلت ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ افغان طالبان کو کس قسم کی امداد فراہم کرے گی اور یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ طالبان کی قیادت ان سے مادی و عسکری تعاون لینا پسند کرے گی یا نہیں۔
اس سے پہلے بھی کئی بیانات میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان کے خلاف بات کرتے رہے ہیں اور وہ دھمکی دے چکے ہیں کہ ہم افغانستان کے معاملات میں پاکستان کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور اس مسئلے کو بین الاقوامی فورم میں اٹھائیں گے۔ اس طرح پاک افغان تعلقات مزید کشیدگی کی طرف جارہے ہیں اور فی الحال ان میں بہتری کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی پاک افغان بارڈر پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے کئی دور چل چکے ہیں لیکن باہمی تجارت کی اہمیت کے پیش نظر کچھ عرصے بعد بارڈر کھول دیے جاتے ہیں اور آمد و رفت بحال ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکومت افغان حکومت کے ساتھ قریبی رابطہ رکھے اور کسی بھی معاملے میں اس کو مشورے میں شریک کرے، تاکہ ان کی باہمی چپقلش سے ہندوستان فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اب اگر پاکستان میں جاری دہشت گردی کے واقعات میں واضح طور پر ان عناصر کا ہاتھ نظر آتا ہے جو افغانستان میں مقیم ہیں تو اس سے پہلے افغان حکومت بھی اسی قسم کی شکایات کا اظہار پاکستان سے کرتی رہی ہے۔ پاکستان کے لیے ایک بڑی مشکل افغان طالبان کی حمایت سے مکمل دست برداری ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے اور مستقبل میں معلوم ہوسکے گا کہ پاکستان اس مشکل معاملے کو کس طرح سے حل کرتا ہے۔

حصہ