(دہشتگردی کے واقعات پاکستان کو غیر مستحکم (حامد ریاض ڈوگر

264

وطنِ عزیز میں دہشت گردی کی جو نئی لہر آئی ہے تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ابھی رکی نہیں، دھماکے ابھی تھمے نہیں بلکہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور لاہور، باجوڑ و مہمند ایجنسی، بونیر، کراچی، کوئٹہ، چمن، جنوبی وزیرستان، سیہون اور چارسدہ سے ہوتی ہوئی دہشت گردی کی اس لہر نے ایک بار پھر لاہور کو اپنا نشانہ بنایا ہے اور جمعرات کے روز ڈیفنس کے وائی بلاک کے بارونق تجارتی علاقے میں دہشت گردی کی واردات میں آٹھ افراد جاں بحق جب کہ دو درجن کے قریب زخمی ہوئے ہیں، گاڑیوں اور عمارت کو پہنچنے والا نقصان الگ ہے۔ دہشت گردی کے مراکز کی تباہی کے لیے پہلے سے جاری آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ میں بڑی حد تک کامیابی کے بعد مسلح افواج نے نئی صورت حال سے نمٹنے اور بچے کھچے دہشت گردوں کے صفایا کے عزم کے ساتھ آپریشن ’’ردالفساد‘‘ شروع کر یا ہے۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت سیکورٹی کے حوالے سے لاہور میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں پنجاب کے تمام کور کمانڈرز کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف ’’ردالفساد‘‘ کے نام سے آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خطرے کو ختم کرنا، اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کو مستحکم، اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ آپریشن میں پاک فضائیہ، پاک بحریہ، برّی فوج، سول آرمڈ فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور حصہ لیں گے اور آپریشن ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اس آپریشن کا طرۂ امتیاز ہوگا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق ملک بھر میں انسداد دہشت گردی آپریشن بھی جاری رکھے جائیں گے، جب کہ پنجاب میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے رینجرز بڑے پیمانے پر کارروائی کرے گی، مینجمنٹ پر خصوصی توجہ دی جائے گی، ملک کو دھماکا خیز مواد اور غیر قانونی اسلحہ سے بھی پاک کیا جائے گا۔
قبل ازیں منگل کے روز جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول کے متے والا اور مناور سیکٹرزکا دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے اگلے مورچوں پر تعینات جوانوں اور افسروں سے ملاقات بھی کی اور فوج کی آپریشنل تیاریوں کے بارے میں بریفنگ لی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے واضح کیا کہ ہمیں بھارتی سازشوں اور پاکستان و خطے میں دہشت گردی کی بھارتی حمایت کا بخوبی علم ہے، کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ پاک فوج پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کو ہر طرح کی بھارتی اشتعال انگیزی سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا فرض نبھائے گی۔ ہم حق خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے۔ سرحد پر کسی بھی قسم کی بھارتی اشتعال انگیزی اور سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی سازش کے تحت کی جاتی ہیں۔ ایک جانب ان اشتعال انگیزیوں کا مقصد کشمیر میں جاری بھارتی فوج کے مظالم سے توجہ ہٹانا ہے تو دوسری جانب یہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ہماری کارروائیوں کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔ بھارت جان بوجھ کر ایل او سی کے اطراف شہریوں کو نشانہ بناتا ہے جو قابلِ مذمت ہے۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، ہم اس امر سے آگاہ ہیں کہ دہشت گردوں کو کیسے بھارتی سپورٹ ملتی ہے۔ بھارتی فوج ایک ایجنڈے کے تحت ایل او سی پر صورت حال بگاڑ رہی ہے۔ اس طرح بھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اثرانداز ہونا چاہتا ہے۔
پاکستان کے خلاف بھارت کے عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں، قیام پاکستان کے بعد اوّل روز ہی سے اس نے مملکتِ خداداد کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔۔۔ اب جب کہ انتہائی بزدل فوجی آمر جنرل پرویزمشرف کی عاقبت نااندیشی کے باعث ہم خطے میں امریکا کے مسلط کردہ فساد فی الارض میں آلۂ کار بن کر ایک جان لیوا دلدل میں دھنس چکے ہیں تو بھارت کو ایک سنہری موقع ہاتھ آگیا ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اور بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی کی تربیت، تنظیم اور اسے اسلحہ کی فراہمی کے ذریعے تخریب کاری میں مصروف ہے تو دوسری جانب انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے خوفناک عزائم کی خاطر پاکستانی سرحدوں اور ایل او سی پر غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے اور پاک فوج کو اس میں الجھا کر دہشت گردی کے خلاف اس کی کارروائیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے، تیسری جانب آپریشن ضربِ عضب کے باعث بھاگنے والے عناصر کو کٹھ پتلی افغان حکومت کے تعاون اور امریکا کی سرپرستی میں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہی فراہم نہیں کی جاتیں بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے دہشت گردی کی تربیت، اور اسلحہ اور سرمایہ فراہم کرکے دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے پاکستان بھیجا جاتا ہے تاکہ معصوم شہریوں کو نشانہ بناکر یہاں خوف و ہراس اور انتشار پھیلایا جائے اور پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے۔ اس طرح ایک جانب پاکستانی قوم اور مسلح افواج کو الجھاکر یہاں تعمیر و ترقی کی سرگرمیوں کے لیے مناسب فضا پیدا نہ ہونے دی جائے، دوسری جانب عالمی سطح پر یہ تاثر دے کر، کہ یہاں امن و امان کی صورت حال بہت زیادہ خراب ہے، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری اور بیرونی سیاحوں، تاجروں، کھلاڑیوں اور دوسرے طبقات کی آمدورفت کو روکا جائے۔
عالمی رائے عامہ کو اپنے متعلق منفی تاثر سے بچانے اور اپنی تخریبی کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت ’’بغل میں چھری، منہ میں رام رام‘‘ کی قدیمی ہندو پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کی تازہ مثال بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا وہ بیان ہے جو انہوں نے منگل کے روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ اس بیان میں انہوں نے نہایت معصومیت سے کہا ہے کہ ’’ہم پاکستان کے ساتھ جنگ نہیں مفاہمت کے حامی ہیں، پاکستان بھارت کا پڑوسی ملک ہے، جلد ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بہتر ہوں گے اور رشتے بھی مضبوط اور مستحکم ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ہیں اور عام شہریوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں، بھارت کو اس پر افسوس ہے۔ تاہم پاکستان نے دہشت گردی کا جو بیج بویا ہے وہ اس کا پھل بھی کاٹ رہا ہے‘‘۔ بھارت پر لگائے جانے والے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’’بھارت کی جانب سے پہلی گولی نہیں چلائی جائے گی۔ بھارت ایک امن پسند ملک ہے اور کسی کے خلاف بھی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ تاہم اگر ملک کی سلامتی اور خودمختاری پر کسی نے للکارنے کی کوشش کی تو بھارت گولیاں نہیں گنے گا بلکہ سخت کارروائی کی جائے گی۔ ہم پاکستان کے ساتھ بہتر ہمسائے کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں اور مسائل کو بھی پُرامن طریقے سے حل کرنے کے خواہش مند ہیں، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا ماحول قائم کیا جائے جو کشیدگی اور تناؤ سے پاک ہو۔ بھارت کی تجاویز کا پاکستان مثبت جواب دے، مذاکرات میں پہل کرنے میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کریں گے۔ ہم پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں، تاہم پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کی تجاویز پر عمل کرے، ممبئی حملوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے، پاکستان کی سرزمین بھارت مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔‘‘
ملاحظہ کیا آپ نے، بھارتی وزیر داخلہ نے کس قدر مہارت سے پاکستان سے اپنی والہانہ محبت اور ہمدردی کا اظہار بھی کردیا، کمالِ ڈھٹائی سے تمام صورتِ حال کی ذمہ داری بھی خود پاکستان پر ڈال دی اور ممبئی حملوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک نہ پہنچانے اور پاک سرزمین بھارت مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے کے الزامات عائد کرکے عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سامان بھی کردیا، اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے بھی موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا لیا۔ مگر مجال ہے پوری گفتگو میں گرفتار بھارتی تخریب کار جاسوس کل بھوشن یادیو کا ذکر آنے دیا ہو، یا بلوچستان اور افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کی تربیت اور سرپرستی کی جانب کسی کی توجہ جانے دی ہو۔ یہ ہندو ذہنیت کا کمال ہے۔
کاش ہمارے حکمران اس بھارتی طرزِعمل سے کوئی سبق سیکھ سکیں، جن کے ذہنوں پر بھارت سے دوستی کا بھوت سوار ہے اور وہ پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کے واضح ثبوت فراہم ہونے کے باوجود بھارت کا نام لینے سے اسی طرح شرماتے ہیں جس طرح ہندو عورتیں اپنے شوہر کا نام لینے سے گھبراتی ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ نے کنٹرول لائن پر اپنی گفتگو میں واضح طور پر بھارتی عزائم کی قلعی کھولی ہے، خطے میں دہشت گردی کے فروغ میں بھارت کے کردار کو بھی بے نقاب کیا ہے اور کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کو بطور ثبوت بھی نمایاں کیا ہے، مگر ہمارے حکمرانوں کا کردار اس کے بالکل برعکس ہے۔ لاہور کے فیصل چوک میں 13 فروری کو ہونے والی دہشت گردی کی واردات کے بارے میں اب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس کے تانے بانے بھارت میں بُنے گئے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے والی جماعت الاحرار نامی تنظیم کی ویب سائٹ کا آئی پی ایڈریس بھارت کا نکلا ہے اور یہ ویب سائٹ بھارتی شہر چنائی سے چلائی جا رہی تھی۔۔۔ مگر ہمارے حکمران اب تک بھارت سے اس بارے میں احتجاج تک سے گریزاں ہیں اور نامعلوم وجوہ سے مسلسل چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بھارت میں کوئی واردات اگر ہوتی ہے تو وہاں کی حکومت اور ذرائع ابلاغ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس میں پاکستان کے اداروں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کردیتے ہیں۔ اگرچہ بھارت آج تک اپنے اس طرز کے الزامات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا، مگر وہ پاکستان کو بدنام کرنے اور دباؤ بڑھانے کا کوئی موقع بہرحال ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
پاکستان دشمنوں کے اس جارحانہ طرزِعمل کے باوجود پاکستانی حکمران نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے جاں نثاروں اور فداکاروں کی قدر، حفاظت اور سرپرستی کرنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر دشمن کے مقاصد کی تکمیل کا سامان کرتے ہیں۔۔۔ بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے مقابلے میں پاک فوج کا ساتھ دے کر پاکستان کے تحفظ و بقا کی جنگ لڑنے والے مشرقی پاکستانی بھائیوں کو پھانسی دینے کے معاملے پر خاموشی اور بے حسی کا مظاہرہ ہو، پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے ہم کنار کرکے اس کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دشمنوں کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر طویل عرصے تک نظربند رکھنے کا معاملہ ہو، یا اب کشمیری حریت پسندوں کی ڈٹ کر حمایت کرنے کے جرم میں بھارت کی آنکھ میں کھٹکنے والے پروفیسر حافظ محمد سعید پر پابندیاں عائد کیے جانے کا معاملہ ہو، ہمارے حکمرانوں نے اپنے وطن کے سپاہیوں کا تحفظ و دفاع کرنے کے بجائے ہمیشہ دشمن کی آواز میں آواز ملائی ہے۔۔۔ اور سچ یہ ہے کہ نہایت ڈھٹائی اور بے حیائی سے یہ کام کیا ہے۔ حافظ محمد سعید جن کے بارے میں حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ عدالتِ عالیہ سے عدالتِ عظمیٰ تک وہ ان کے خلاف کسی قسم کا الزام ثابت کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے انہیں ایک بار پھر دشمنوں کے دباؤ اور ان کی خوشنودی کی خاطر بلاوجہ پابندِ سلاسل کردیا گیا ہے، حالانکہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ واضح الفاظ میں یہ اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ پنجاب حکومت کے پاس حافظ محمد سعید کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں اور وہ کسی قسم کی منفی یا ملک دشمن سرگرمی میں ملوث نہیں۔ اس کے باوجود انہیں نظربندی اور دیگر پابندیوں میں جکڑ دیا گیا ہے۔
یہ بلا جواز پابندیاں ہی کیا کم ظلم تھا کہ اپنی ہی جماعت اور صوبائی حکومت کے وزیر قانون کے بیان کی نفی کرتے ہوئے ملک کے وزیر دفاع جناب خواجہ آصف نے دشمن کی زبان بولتے ہوئے الزام عائد کردیا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید اور ان جیسے دیگر افراد معاشرے کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، حکومت اب ان تمام عناصر کے خلاف سخت کارروائی کررہی ہے جو براہِ راست دہشت گردی میں ملوث نہیں لیکن مختلف طریقوں سے دہشت گردوں کو مدد فراہم کررہے ہیں۔ اولاً تو وزیر دفاع کا یہ بیان ہی انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور تکلیف دہ ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر شرمناک بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ بیان میونخ میں ایک بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران دیا ہے۔ گویا انہیں بیرونِ ملک بیٹھ کر ذرا بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ اپنے دشمنوں کو اپنے خلاف دلیل فراہم کررہے ہیں۔ جماعۃ الدعوۃ نے بجا طور پر اس بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے کے لیے خطرہ حافظ محمد سعید نہیں بلکہ حکومتی صفوں میں موجود وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں بھارت کے ایجنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں اور بھارتی خوشنودی کی خاطر ملکی سلامتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

حصہ