(اخبار ادب(ڈاکٹر نثار احمد نثار

299

ظہور السلام جاوید بنیادی طور پر کراچی کے رہائشی ہیں، لیکن کسبِ معاش کی وجہ سے عرب امارات میں مقیم ہیں۔ وہ جب بھی کراچی آتے ہیں، ان کے اعزاز میں تقریبات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جمعرات 9 فروری 2017 کو عرب امارات کی ایک مشہور ادبی تنظیم بزم اُردو نے ظہور السلام جاوید کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا۔ تقریب کے انعقاد میں ایک اور ادبی تنظیم انوارِ اُردو نے بھی تعاون کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بزم اُردو گزشتہ چار برس سے امارات میں اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل ہے۔ تقریب کے پہلے دور میں ظہور السلام جاوید کے فن و شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام مجید سے ہوا۔ یہ سعادت اقراء فضیلت نے حاصل کی‘ آفتاب عالم نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔ ڈاکٹر صباحت عالم واسطی نے ظہور السلام جاوید کی زندگی اور ان کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ظہور السلام جاوید طویل عرصے سے عرب امارات بالخصوص دبئی، ابوظہبی میں اُردو کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ ان کے اعزاز میں بزم اُردو نے تقریب پذیرائی کا اہتمام کرکے قابل ستائش کام کیا ہے۔ ظہور السلام جاوید صرف شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ وہ عرب امارات میں اُردو زبان و ادب کے فروغ میں متعدد ادبی تقاریب کی میزبانی کرکے پاکستانی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کا حق بھی ادا کررہے ہیں۔ بزم اُردو کے صدر شکیل خان نے بزم اردو کی جانب سے ظہور السلام جاوید کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں شیلڈ پیش کی، جب کہ ڈاکٹر زبیر فاروق نے منتظمین تقریب کی جانب سے ظہور السلام جاوید کی خدمت میں ’’آئی فون‘‘ کا تحفہ پیش کیا۔ اس موقع پر ظہور السلام جاوید کی شریک حیات فہیم جاوید اور بیٹے منصور انعام کو بھی تحائف پیش کیے گئے۔ محفل میں شریک تمام خواتین و حضرات کو بزم اُردو کے 2016 کے کام یاب مشاعرے کی ڈی وی ڈی بھی پیش کی گئی۔ دبئی میں منعقدہ اس خوب صورت تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا، جس کی صدارت ظہور السلام جاوید نے کی۔ ڈاکٹر زبیر فاروق مہمان خصوصی تھے، جب کہ شکیل خان اور ندیم احمد بھی اسٹیج پر رونق افروز تھے۔ صباحت عاصم واسطی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ جن شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا، ان میں صاحب صدر، مہمان خصوصی کے علاوہ موسیٰ ملیح آبادی، سلمان خورشید، مست عباس، نِدا لولی، عائشہ جنتی، شاداب الفت، احیا السلام بھوجپوری، ندیم احمد زیست، سید آصف سروش، تابش زیدی، سرور نیپالی، جاوید صدیقی، سلمان خان، فرہاد جبریل، آصف رشید اسجد، ڈاکٹر ثروت زہرا، یعقوب عُنقا، ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی شامل تھے۔ صاحبِ اعزاز ظہور السلام جاوید نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ 1981 سے آج تک ابوظہبی میں تسلسل سے عالمی مشاعرہ کرا رہے ہیں، جن میں اُردو ادب کے اہم اور معتبر شعرا شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے بزم اردو کے عہدے داروں و اراکین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا، خاص طور پر شاداب الفت کی انتھک محنت اور کوششوں کو سراہا۔ ظہور السلام جاوید نے مزید کہا کہ اُردو زبان ہماری پہچان ہے، اُردو ادب ہمارا سرمایہ ہے۔ اب اُردو زبان صرف ہندوپاک تک محدود نہیں ہے بلکہ اب یہ کئی براعظموں تک جا پہنچی ہے۔ مشاعروں کی روایت اُردو زبان و ادب کا اہم حصہ ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس روایات کو قائم رکھیں تاکہ اُردو کی ترقی کا سفر جاری رہے۔
۔۔۔*۔۔۔
سیّد عرفان طارق کی نگرانی میں مفتی عنایت الرحمن کی مشاورت سے علمی، فکری اور اسلامی تعلیمات پر مشتمل سہ ماہی رسالہ ’’الحنیف‘‘ عوام کی رہنمائی کررہا ہے۔ اس رسالے کے تحت 19 فرری 2017 بروز اتوار گُل خیرن قرآن انسٹی ٹیوٹ ملیر ماڈل کالونی کراچی میں سالانہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ پروفیسر عنایت علی خان نے صدارت کی۔ شیخ طارق جمیل مہمان خصوصی تھے۔ نورالدین نور نے نظامتی فریضہ انجام دیا۔ مشاعرے میں تلاوتِ کلام مجید کی سعادت اقبال سلیم نے حاصل کی۔ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا، ان میں پروفیسر عنایت علی خان، عبدالحکیم ناصف، مرزا عاصی اختر، ڈاکٹر محمود غزنوی، شمس الغنی، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، سحرتاب رومانی، نورالدین نور، نجیب قاصر، نجیب عمر، عبدالرحمٰن مومن، صدیق راز ایڈووکیٹ اور فہیم احمد شامل تھے۔ مشاعرے میں سامعین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ صرف سامعین نہ تھے بلکہ شعر فہم افراد تھے اور ہر اچھے شعر پر داد دے رہے تھے۔ مہمان خصوصی نے کہا مشاعرے اردو ادب کے فروغ میں مددگار ہوتے ہیں۔ آج یہاں بہت اچھی شاعری سننے کو ملی ہے۔ صاحب صدر نے کہا کہ ال حنیف رسالے کے منتظمین قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے ایک ادبی پروگرام ترتیب دیا۔ اس قسم کی تقریب سے اُردو فہمی فروغ پاتی ہے۔ جو تنظیمیں، اُردو کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں، وہ قابل ستائش ہیں۔
۔۔۔*۔۔۔
جہانگیر خان اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں، ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ اپنی ادبی، دینی، سماجی اور ثقافتی خدمات کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے بحیثیت انٹرنیشنل سامع اُردو بستیوں میں ہونے والے مشاعروں میں قلم کاروں کو داد و تحسین سے نوازا، جو کہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام جہانگیر خان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب پذیرائی میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی ٹاک شو کمیٹی کے تحت ہونے والی اس تقریب میں جہانگیر خان کے چاہنے والے موجود ہیں۔ آرٹس کونسل نے اس تقریب کا انعقاد کرکے ادب دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ فی زمانہ، جو لوگ ادب و ثقافت کے تناظر میں عالمی منظر نامے میں موجود ہیں، ان میں جہانگیر خان بھی شامل ہیں۔ یہ اپنے جذبۂ خیرسگالی کے باعث ایک بااعتبار شخصیت بن چکے ہیں۔ یہ 1990 سے ادبی محافل میں شریک ہورہے ہیں اور اُردو زبان و ادب کے سفیر ہیں۔ یہ ایک عوامی شخصیت بن چکے ہیں اور آنے والے زمانوں میں بھی ان کا نام زندہ رہے گا۔ یہ اسلامی شعائر کے پیغام بر بھی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے رول ماڈل بھی۔ جمعیت طلبا اور جمعیت الفلاح کی ترویج و اشاعت میں ان کا بھی کردار ہے، انہوں نے بھرپور زندگی گزاری ہے۔ ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے مزید کہا کہ مشاعرہ ایک ایسا ادارہ ہے، جہاں ہر شاعر کو فوراً داد ملتی ہے یا اس کے کم زور شعر کی نشان دہی ہوتی ہے۔ ادب کی تہذیب، انسانی فضیلت سے جڑی ہوئی ہے۔ تخلیق کارِ ادب انسانی کی فلاح و بہبود میں سرگرم عمل ہیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی محمد حسین محنتی نے کہا کہ جہانگیر خان کی زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے، جس میں شعر و ادب کا شعبہ بھی شامل ہے۔ یہ جس مشاعرے میں شامل ہوتے ہیں، وہاں سماعتیں جاگ اُٹھتی ہیں۔ یہ خود شعر نہیں کہتے، لیکن دوسروں کے اشعار آگے بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اپنی خدمات کا آغاز کیا، 1962سے جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہر دل عزیز ہیں۔ جماعت اسلامی کی حج کمیٹی میں بھی انہوں نے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اپنے علاقے کے کونسلر بھی رہے، جہاں انہوں نے خلقِ خدمت خدا کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر خان کو 1992میں انٹرنیشنل سامع کا خطاب دیا گیا۔ انہوں نے بھارت، امریکا، کینیڈا، سنگاپور، سعودی عرب، عرب امارات اور دیگر ممالک میں بطور سامع شریک ہوکر ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا نام ادبی دنیا میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ جہانگیر خان آرٹس کونس آف پاکستان، ادارۂ تعمیر ادب، جمعیت الفلاح، ساکنان شہر قائد مشاعرہ، انجمن ترقئ اردو، دبستانِ لوح و قلم تحریک نفاذ اُردو (سندھ) مخزنِ ادب، پاکستان فلپائن کلچرل ایسوسی ایشن جیسے اُردو نواز اداروں میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ہر طبقۂ فکر کے لوگ جہانگیر خان سے محبت کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ تقریب کے دیگر مقررین میں ظہیر خان، اطہر انصاری، سبکتگین صبا، رضوان صدیقی، ڈاکٹر عظیم اکبر خان اور حفصہ اطہر انصاری شامل تھے، جب کہ منظوم خراج تحسین پیش کرنے والوں میں اعجاز رحمانی، محمد علی گوہر، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) اور نعیم الدین نعیمؔ شامل تھے۔ اس موقع پر جہانگیر خان کے بارے میں اطہر انصاری نے کہا کہ انہوں نے جہانگیر خان کو نیک سیرت انسان پایا، یہ کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوتے۔ حفصہ اطہر انصاری نے انگریزی میں خطاب کیا، جس کا لب و لباب یہ تھا کہ وہ اپنے نانا جہانگیر خان سے بے حد محبت کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے نانا کی سرپرستی میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ جہانگیر خان کے بارے میں ظہیر احمد خان نے کہا کہ جہانگیر خان ایک زندہ دل انسان ہیں، وہ مشاعروں کی جان ہیں اور مصرعہ اُٹھانے کے فن سے واقف ہیں۔ ان کی علمی اور سماجی خدمات پر میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ سبکتگین صبا نے کہا کہ 1980میں ایک صاحب ’’چاچا کرکٹ‘‘ کے نام سے بہت مشہور ہوئے، بالکل اسی طرح اُردو ادب میں جہانگیر خان انٹرنیشنل سامع کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔ ہر قابل ذکر مشاعرے میں ان کی آواز ببانگ دُہل سنائی دیتی ہے، انہیں مشاعروں کا سفارتی نمائندہ تسلیم کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر عظیم اکبر خان نے کہا کہ ان کے ماموں جہانگیر خان بہت نیک سیرت انسان ہیں۔ یہ ہاکی کے بہت بڑے کھلاڑی رہ چکے ہیں اور ان کی بے لوث خدمات سے ہر شخص متاثر ہے۔
رضوان صدیقی نے جہانگیر خان کے بارے میں کہا کہ وہ اُردو ادب کی ترویج و اشاعت میں اہم شخص ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہر مشاعرے میں سامعین کی داد سے مشاعرہ بنتا ہے اور جہانگیر خان کی داد و تحسین کا اپنا ایک انداز ہے۔ ان کی داد کسی شاعر کو معتبر بنانے میں اہم کام کرتی ہے۔ یہ پہلے مصرعہ کو سُنتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ اب دوسرا مصرعہ کیا ہوگا؟ لہٰذا یہ پہلے مصرعے کو اُٹھاتے ہیں۔ یہ ایک مستند اور متحشم داد دینے والے شخص بن چکے ہیں اور ان کی محنتوں کا صلہ یہ ہے کہ آج ہم سب ان کی تقریب پذیرائی میں موجود ہیں۔ جہانگیر خان کا کمال یہ ہے کہ شعروں پر ایسا تبصرہ کرتے ہیں کہ کوئی شاعر بھی ان سے ناراض نہیں ہوتا۔ اس موقع پر لیاقت بلوچ کامقالہ اختر سعیدی نے پڑھ کر سنایا، جس میں انہوں نے کہا کہ جہانگیر خان بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں۔ صاحبِ اعزاز جہانگیر خان نے کہا کہ میں آرٹس کونسل کی ٹاک شو کمیٹی کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے اعزاز میں اتنا شان دار پروگرام منعقد کیا۔ انہوں نے اختر سعیدی کا بھی شکریہ ادا کیا کہ جن کے انتظامی معاملات کے سبب یہ پروگرام منعقد ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ’’کوچۂ محبوب‘‘ کے نام سے ایک بزم بنارہے ہیں، جو پاکستان کے تمام شعرا پر مشتمل ہوگی۔ اس موقع پر جہانگیر خان کو پھولوں کے تحائف کے ساتھ ساتھ کراچی کی ادبی تنظیموں کی جانب سے شیلڈ پیش گئی اور آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے بھی شیلڈ دی گئی۔ تقریب کی نظامت منصور ساحر نے کی، جب کہ ٹاک شو کمیٹی کے چیئرمین شکیل خان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ احمد شاہ کی ٹیم کا حصہ ہیں اور آرٹس کونسل کراچی میں ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ٹاک شو کمیٹی ہر قلم کار اور فن کار کے لیے حاضر ہے۔ ہم اس کمیٹی کے تحت ادبی تقریبات منعقد کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
nn

سلمان صدیقی
ایک انوکھا کھیل تماشا میں ہی تھا
دنیا کے بازار میں سستا میں ہی تھا
میرے سب اقرار غلط ٹھہرے گویا
ہر کردار میں سب سے جھوٹا میں ہی تھا
علم و عمل کے اوزاروں سے لیس تھے سب
تنہا‘ بے بس اور نہتا میں ہی تھا
میں نے کیا تھا سارے گمانوں کو روشن
پھر جو چادر تان کے سویا میں ہی تھا
راہِ طلب میں اپنا رستہ اپنی چال
صدیوں سے جو ڈھونڈ رہا تھا میں ہی تھا
آئینے کو ہاتھ لگا کر دیکھ چکا
وہ سالم تھا اس میں شکستہ میں ہی تھا
خود کو روشن سمجھا تھا لیکن سلمانؔ
باہر جو پھیلا تھا اندھیرا میں ہی تھا
جمیل ادیب سید
جو اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
حیرتوں میں اتر کے دیکھتے ہیں
سنتے ہیں وہ سمیٹ لیتا ہے
چلو ہم بھی بکھر کے دیکھتے ہیں
جب کبھی بھی وہ ملنے آتا ہے
ہم نصیب اپنے گھر کے دیکھتے ہیں
تتلیاں اس کا پیچھا کرتی ہیں
اور جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
دھوم ہے اس کی میزبانی کی
ہم بھی کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
داغ ہے درد ہے اور اشک جمیل
جانے والوں کے ترکے دیکھتے ہیں
عادل داد
آخر کوئی تو بات ہے جو تم چھپاتے ہو
اکھڑے ہوئے سے لگتے ہو جب مسکراتے ہو
پوچھیں جو شہر کے کبھی حالات آپ سے
پھر ہاتھ ملتے ہو کبھی سر کو کھجاتے ہو
ہنستا ہے آئنہ بھی مرا حال دیکھ کر
کیوں آئنے کے سامنے مجھ کو رلاتے ہو
کیوں کر ملیں نشان مری دہلیز پر ترے
آئے جو تم نہیں ہو مگر آتے جاتے ہو
کتنے عجیب طور سے بدلے ہے وقت بھی
جب ہم نظر چراتے تھے اب تم چراتے ہو
اپنے ہی شہر میں نہیں پہچان اب مری
تم اجنبی ہو یوں مجھے پہچان جاتے ہو
اب لوٹ آؤ داد کہیں مر نہ جائیں ہم
کیوں دور ہم سے رہ کے ہمیں آزماتے ہو

حصہ