استاد نے یہی پڑھایا ہے

567

چلیے، آج پہلے اپنی ہی خبر لیتے ہیں۔ گزشتہ شمارے (17 تا 23 فروری) میں ہم نے عرض کیا تھا کہ تہ جمانے یا تہ تک پہنچنے کے لیے صرف ایک ’ہ‘ کافی ہے اور تہہ لکھنا غلط ہے۔ پیر 20 فروری کے اخبار میں صفحہ اوّل پر سرخی میں یہ تہہ موجود ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’جلد واقعے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے‘‘۔ اسی دن کے اخبار کی سپرلیڈ کی ذیلی سرخی میں ایک نیا لفظ ’’کانٹ چھانٹ‘‘ پڑھنے کو ملا۔ کانٹ انگریزی میں تو ’Can not‘ کا مخفف پڑھنے میں آیا ہے لیکن چھانٹ کے ساتھ اس کا ربط پلّے نہیں پڑا۔
یہ جملہ نئے امریکی صدر ٹرمپ سے منسوب ہے اس لیے ٹھیک بھی ہوسکتا ہے کہ ’’میڈیا خود ہی کہانیاں ’’گڑھ‘‘ رہا ہے‘‘۔ اس میں تو شبہ نہیں کہ میڈیا کہانیوں کا ’’گڑھ‘‘ ہے، لیکن یہاں ’’گھڑ‘‘ کا محل تھا۔ اب کوئی یہ نہ پوچھ بیٹھے کہ یہ ’محل‘ کہاں سے آگیا۔
گزشتہ دنوں ایک کثیر الاشتہار اخبار میں سرخی تھی کہ سرکلر ریلوے کے دونوں طرف چہار دیواری تعمیر کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو بڑے کمال کی بات ہوگی۔ شاید اس طرح چادر اور چہار دیواری کا تحفظ مقصود ہے یا پھر سرکلر ریلوے کو کسی چہار دیواری میں بند رکھنے کا منصوبہ ہوگا۔ سرکلر ریلوے ایک عرصے سے ڈبے میں تو بند ہے، اب شاید اس کے لیے چہار دیواری تعمیر کی جائے کہ کہیں لوگ ٹرین میں سوار ہی نہ ہوجائیں۔
اسی کثیر الاشتہار اخبار میں ایک کالم نظر سے گزرا۔ ’’دیوار پر دستک‘‘ کے مستقل عنوان سے ایک کالم نگار گاہے گاہے لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ 15 فروری کی اشاعت میں یوں تو پورا کالم ہی الفاظ کا پتھراؤ ہے لیکن ایک جملہ تو کمال کا ہے۔ لکھتے ہیں ’’سمٹ مینار کے سامنے ارمغانِ حرم بہہ گئی‘‘۔ اس قسم کی تراکیب اور مشکل الفاظ استعمال کرنے والے کبھی کبھی لغت بھی دیکھ لیا کریں تو اس میں کوئی نقصان نہیں۔ اردو لغت تو کینیڈا میں بھی مل جائے گی ورنہ جب کبھی پاکستان آتے ہیں یہاں سے لغت لے جایا کریں۔ مذکورہ جملے سے صاف ظاہر ہے کہ موصوف کو ’’ارمغان‘‘ کا مطلب ہی نہیں معلوم ورنہ یوں نہ بہاتے۔ کہیں سے ارمغان حجاز یا ارمغان نعت سن لیا ہوگا تو استعمال کر ڈالا۔ ارمغان تحفے یا ہدیے کو کہتے ہیں اور یہ مذکر ہے، مونث نہیں۔ کسی تحفے کو بہانا بالکل نئی بات ہے۔ چیرنگ کراس کے ہلال میں اور بھی مزے مزے کے جملے اور تراکیب ہیں مثلا ’’سرد سورج کی کالی چتا‘‘، ’’امید کی جاگتی گھنٹیاں سو گئیں‘‘، ’’موت کے فلسفے کے شبستان میں کتنے سدھارت صفت سوگئے‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ غالب نے بہت پہلے کہا تھا ’’مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تحریر کا‘‘۔ پڑھنے والا مطلب ہی ڈھونڈتا رہ جائے۔ ہم تو مستقل عنوان ’’دیوار پہ دستک‘‘ پڑھ کر ہی الجھ گئے کہ دیوار پر دستک سے ہاتھ زخمی ہوسکتے ہیں۔ پھر یہ کہ دروازے، کھڑکی پر دستک اس لیے دی جاتی ہے کہ کھل جائیں، دیوار پہ دستک کس لیے؟ سنا ہے کہ موصوف اچھے شاعر ہیں۔ لیکن شاعر کو تو زبان و بیان پر زیادہ عبور ہونا چاہیے۔
ایک غلطی مضامین میں بہت عام ہے اور وہ ہے ’’شعب ابی طالب کی گھاٹی‘‘۔ اس کا ذکر عموماً سیرت کے مضامین میں آتا ہے۔ لیکن ’’شعب‘‘ تو کہتے ہی گھاٹی کو ہیں۔ شعب کے اور بھی کئی مطلب ہیں مثلاً دراڑ، پہاڑی سڑک، راستہ، غار، گروہ، بڑا خاندان، قبیلہ وغیرہ۔ اس کی جمع شعوب ہے اور قرآن کریم میں انہی معنوں میں آیا ہے ’’شعوب و قبائل‘‘۔ گھاٹی کے معنوں میں ایک اور لفظ ’’دون‘‘ آتا ہے جس کا مطلب گھاٹی، درہّ، کوہ، دامنِ کوہ، پہاڑ کی تلہٹی۔ یوپی کا مشہور شہر ہے ’’ڈیرہ دون‘‘۔ یہ فوجی کالج اور چھاؤنی کے لیے مشہور ہے، پُرفضا مقام ہے۔ وہاں کے لوگ اس کا تلفظ ’’دہرہ‘‘ کرتے ہیں۔ جانے کیوں۔ اردو میں ایک محاورہ ہے ’’دون کی لینا‘‘ یعنی شیخی مارنا، لاف گزاف، ڈینگ۔ دون پر آنا، دون کی اڑانا وغیرہ۔ اور نون غنہ کے ساتھ ’’دوں‘‘ کا مطلب ہے حقیر، کمینہ، ادنیٰ، سفلہ، ہیچ۔ دوں پرست، دوں پسند وغیرہ بطور صفت آتے ہیں۔ ایک اصطلاح ’’دنیائے دوں‘‘ بھی پڑھی ہے یعنی حقیر دنیا۔
لاہور سے ہمارے ممدوح افتخار مجاز نے اطلاع دی ہے کہ ایک ٹی وی چینل پر چیمبر آف کامرس کی خبر دی جارہی تھی جس میں کامرس کو ’’کام۔ رس‘‘ کہا گیا۔ افتخار مجاز کے بقول جب انہوں نے چینل کے نیوز ایڈیٹر کو اس غلطی کی طرف متوجہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں تو استادوں نے ’کام۔رس‘ ہی پڑھایا ہے، آج آپ سے پہلی بار سن رہا ہوں کہ ’کام۔ رس‘ غلط ہے‘‘۔ ہوسکتا ہے ’کام۔ رس‘ بھی صحیح ہو یعنی کام کا رس۔ بہت محنت سے کام کرتے ہوئے پسینہ پھوٹ نکلتا ہے، شاید اسی کو کام کا رس کہا جاتا ہو۔ جب استاد ایسے ہوں تو شاگردوں کا کیا قصور! ہمیں یاد آیا کہ اسکول میں ہمارے استاد برطانیہ کی تاریخ پڑھاتے ہوئے شاہ چارلس کا تلفظ ’چار۔لس‘ کرتے تھے۔ ہم اپنے والد کے سامنے بھی یہی کہہ بیٹھے تو ڈانٹ پڑ گئی، لیکن ہم نے جاکر استاد کو نہیں بتایا کہ یہ تلفظ غلط ہے۔ ویسے ایک راز کی بات بتائیں، خود ہم ایک عرصے تک مارس (MARS) کو ’ما۔رس‘ پڑھتے رہے۔ یہ مریخ ہے۔ مارس کا تلفظ ’’مارز‘‘ بھی ہے۔ رومنوں کے نزدیک یہ جنگ کا دیوتا ہے۔ چارلس بھی مارس کے وزن پر ہے گو کہ سنا ہے مارس میں بے وزنی کی کیفیت ہوتی ہے۔ یاد آیا کہ ایک سیارہ ’’عطارد‘‘ بھی ہے جس کا تلفظ عموماً غلط ہی کیا جاتا ہے۔ یہ عُطارِد ہے یعنی پہلے حرف پر پیش اور چوتھے حرف کے نیچے زیر۔ اسے منشئ فلک اور دبیرِ فلک بھی کہا جاتا ہے۔ عربی کا لفظ ہے۔ محترم افتخار مجاز تو ٹی وی چینلز کی خبر لینے کے لیے شاید مختلف چینلز دیکھتے رہتے ہیں لیکن نیوز اینکرز سے بڑھ کر پروگرام میں شرکت کرنے والے بھی کمال کرتے ہیں۔ جمعہ 17 فروری کو ایک چینل پر پیپلزپارٹی کے بہت معقول رہنما بڑی اچھی گفتگو کررہے تھے۔ اچانک کہہ بیٹھے کہ حکمران ملک کو تباہ کرنے پر ’’تَلے‘‘ ہوئے ہیں۔ یہ تلے وہ تھا جیسے سموسے تلے جاتے ہیں یا جوتے کے تلے۔ غالباً ’’تُلے ہوئے‘‘ ان کی سمجھ میں نہیں آیا، یا ان کے کسی استاد نے ایسے ہی پڑھایا ہوگا۔ ویسے بھی یہ کہاں ہوتا ہے کہ انسان کسی بات پر اڑ جائے تو پہلے اپنا وزن کروائے۔ تول میں پورا اترے تو کام آگے بڑھائے۔ تلا ہونا، جوش و رغبت کے ساتھ آمادہ ہونا۔ یہ شعر برادشت کیجیے
ضرور قیمتِ دل اب ملے گی خاطر خواہ
تُلے ہوئے ہیں کئی خوش جمال لینے کو
پچھلے شمارے میں ہم نے ’کی بجائے‘ یا ’کے بجائے‘ کے بارے میں ماہرینِ لسانیات کی رائے طلب کی تھی۔ سینئر صحافی اور ادیب کلیم چغتائی نے رائے دی ہے ’’میرا ذاتی اور ناقص خیال ہے کہ چونکہ ’جا‘ مونث ہے اس لیے ’کی بجائے‘ ہی درست ہے۔ البتہ جب آپ ’بجائے اس کے‘ لکھیں یا کہیں تو ’کے‘ کی نسبت ’’جا‘‘ کی بجائے ’’ب‘‘ سے قائم ہوجاتی ہے۔ شاید اسی لیے ہم بنسبت اس کے لکھتے ہیں اور اس کی بنسبت کو بھی درست مانتے ہیں‘‘۔
اب کلیم چغتائی خود ہی اپنی رائے کو ناقص قرار دے رہے ہیں تو اس پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ ’جا‘ ہی نہیں ’جائے‘ بھی مونث ہے جیسے یہ مصرع ’’یہ تصرف اللہ اللہ، لوٹنے کی جائے ہے‘‘۔ تاہم کچھ اطمینان نہیں ہوا۔ فارغ بخاری کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا ہے، ان کا ایک شعر ہے:
گہرے پانی میں اتر کر پار ہونے کے بجائے
ڈرتے ڈرتے اب تو خطرے کے نشاں تک آگئے
سعادت حسن منٹو کو ممکن ہے سند نہ سمجھا جائے لیکن ان کا ایک مضمون ہے ’’آؤ جھوٹ بولیں‘‘ جس کا ایک جملہ ہے ’’اگر وہاں تین کے بجائے چار گھنٹے صرف ہو گئے؟‘‘ عصمت چغتائی پر مضمون میں منٹو عصمت کو مخاطب کر کے کہتے ہیں ’’اگرہم دونوں کو شادی کا خیال آتا تو دوسروں کو حیرت و اضطراب میں گم کرنے کے بجائے، ہم خود اس میں غرق ہو جاتے‘‘۔
فی الوقت تو یہی مثالیں سامنے ہیں۔ پھر ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔
nn
کلیم چغتائی اپنے محبت نامے میں مزید لکھتے ہیں کہ آپ نے بچوں کے ناموں کی طرف بہت اہم توجہ دلائی ہے۔ اب یہ عام روش ہوگئی ہے کہ انٹرنیٹ کی کلید دبائی اور ہر قسم کے سیکڑوں نام (اور ان کے معانی بھی) حاضر، خواہ مستند ہوں یا نہ ہوں۔ میں نے ایک گھر میں لوگوں کو ایک بچی کو وریشہ کہہ کر پکارتے ہوئے سنا۔ قرآن کریم کی سورہ اعراف آیت 26 میں ارشاد ہے: یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباساً یواری سوآتکم وریشاً و لباس التقویٰ ذلک خیر۔ ’’اے اولادِ آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے‘‘۔ غالباً لوگوں نے قرآن پاک کے لفظ وریشاً سے وریشہ بنا لیا حالانکہ اس میں ’’و‘‘ تو واؤ عطف ہے۔‘‘ پھر ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔

حصہ