(ویلنٹائن(افروز عنایت

307

زرین کاشف سے بات کرکے واپس آئی تو اس کے چہرے پر آئی لالی دیکھ کر ثوبیہ نے اس سے کہا ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘۔ زرین ثوبیہ کی بات پر شرمائی اور کہنے لگی ’’بس کچھ ایسا ہی ہے‘‘۔
ثوبیہ: کیا مطلب؟ وہ تم سے سنجیدہ۔۔۔
زرین: (شرما کر) دو دن بعد ویلنٹائن ڈے پر وہ مجھے سرپرائز دینا چاہ رہا ہے۔
ثوبیہ: اوہ۔۔۔ تو یہ بات ہے۔ لیکن میری جان! اپنا خیال رکھنا، بعض اوقات یہ امیر لڑکے۔۔۔
زرین: نہیں نہیں۔۔۔ وہ مجھ سے تقریباً چھ ماہ سے مل رہا ہے، اس نے مجھے یونیورسٹی سے باہر کبھی ملنے کو نہیں کہا، شروع میں تو میں بھی یہی سمجھ رہی تھی کہ وہ وقت گزاری کررہا ہے۔ لیکن اب۔۔۔ میں ایک متوسط گھرانے کی لڑکی ہوں، وہ صرف میری شرافت اور۔۔۔
ثوبیہ: او کے(OK) بابا صحیح ہے۔ تو مطلب، ویلنٹائن پر تمہارے مستقبل کے بارے میں اہم خوش خبری ہے۔ چلو ایڈوانس میں مبارک ہو۔
زرین: اور تمہارا کیا پروگرام ہے ویلنٹائن پر خوبصورت شہزادی؟
ثوبیہ: (ہنس کر) خوبصورت شہزادی تو تم ہو۔ خیر ہم کچھ لڑکے اور لڑکیوں کا پروگرام ہے۔ خوب ہلا گلہ ہوگا۔ تم اگر ہمیں جوائن کرنا چاہو تو۔۔۔ خیر تم اپنے شہزادے کے ساتھ ہی یہ خوبصورت دن گزارنا پسند کرو گی۔
زرین اور ثوبیہ کے سامنے کچھ ہی فاصلے پر ایک بینچ پر بیٹھی حرمین رجسٹر میں اپنا اسائنمنٹ مکمل کرنے میں مصروف تھی لیکن ان دونوں کی گفتگو اُس کے کانوں میں بھی پڑ رہی تھی۔ اسے اس متوسط طبقے کی زرین پر افسوس ہورہا تھا جو بے سوچے سمجھے کاشف کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک آدھ مرتبہ کلاس فیلو ہونے کے ناتے اُس نے اسے تنبیہ بھی کی، لیکن وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید حرمین اس سے جل رہی ہے، وہ خود کاشف کو حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔ جبکہ حرمین اپنے کام سے کام رکھنے والی ایک امیر باپ کی سنجیدہ بیٹی تھی۔ وہ یونیورسٹی میں صرف تعلیم حاصل کرنے آئی تھی۔ اسے ان تمام بیہودہ سرگرمیوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی، گرچہ اس کے گھر سے اس پر کوئی پابندی عائد نہیں تھی۔ جبکہ اس سے اگلی بینچ پر بیٹھی عالیہ، زرین اور ثوبیہ کی باتیں سن کر ان پر رشک کررہی تھی کہ یہ دونوں کتنی خوش نصیب ہیں جن پر گھر کی جانب سے کوئی پابندی نہیں، لڑکے اور لڑکیوں سے آزادی سے دوستی کرنے کی اجازت ہے، ایک میں ہوں، اماں دروازے سے نکلتے یہ کہنا نہیں بھولتیں کہ بیٹا یونیورسٹی سے سیدھی گھر آنا، ایرے غیرے کو منہ نہ لگانا، بیکار کی سرگرمیوں سے دور رہنا۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے! میری تمام سہیلیاں کتنا مذاق اڑاتی ہیں کہ بے وقوف مخلوط نظام تعلیم میں تمام زندگی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود تمہارا کوئی ’’بوائے فرینڈ‘‘ نہیں۔ اس ایک جملے سے اسے ہر مرتبہ اپنی کتنی ذلت محسوس ہوتی ہے۔ اوپر سے اماں نے اپنے بھانجے کو میرے لیے ’’تاڑا‘‘ ہے۔ کیا ہم مڈل کلاس لڑکیوں کا مقدر بھی انہیں مڈل کلاس پر ہی ختم ہوتا ہے!
زرین اور ثوبیہ اٹھ کر کینٹین کی طرف جانے لگیں۔ انہوں نے ان دونوں کو بھی چلنے کے لیے کہا۔ حرمین نے معذرت کی کہ مجھے آج یہ اسائنمنٹ جمع کروانا ہے اور ابھی کلاس شروع ہونے میں صرف 10 منٹ ہیں۔ یار آج ہمارا موڈ تو بالکل نہیں کلاس لینے کا۔ عالیہ کا بھی بڑا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ کینٹین جائے، لیکن اماں کی نصیحت کانوں میں گونج رہی تھی، لہٰذا وہ بھی کلاس شروع ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ پانچ منٹ میں حرمین نے اپنا اسائنمنٹ مکمل کرکے کہا ’’شکر خدا کا، یہ تو مکمل ہوگیا۔‘‘
عالیہ: حرمین، تم اپر کلاس سے تعلق رکھتی ہو، تم پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے، کیا تمہارا جی نہیں جاہتا یہ سب کرنے کو؟
حرمین نے بڑے غور سے اسے دیکھا اور پھر مسکرا کر کہا: میری دوست یہ سب ’’سراب‘‘ ہے۔ یہ جو لڑکے لڑکیاں ویلنٹائن، کلب وغیرہ جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں، کیا یہ سب اچھی بات ہے؟ ان میں سے 99 فیصد ایک دوسرے کو فریب دے رہے ہیں۔ پیار و محبت اپنے مخصوص رشتوں کے لیے سنبھال کر رکھنا چاہیے۔ آج کی غلطی کل کے لیے پچھتاوا بن جائے گی۔
عالیہ: تم میں بھی میری اماں کی ’’روح‘‘ نظر آتی ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ تم ایسی کلاس سے ہو۔
حرمین: مجھے یہ سوچ میری تربیت اور تعلیم نے دی ہے۔ کیا فائدہ ایسی تعلیم کا کہ عمل نہ ہو۔ ایک طرف تو ہم یہود و نصاریٰ کی تقلید سے پرہیز کرنے کی تعلیم لے رہے ہیں اور دوسری طرف ہماری منافقت کہ اُن کی اندھی تقلید میں اپنی روایات کو فراموش کرتے جارہے ہیں۔ خیر چلو پیریڈ شروع ہونے والا ہے۔
***
’’بیٹا عالیہ کل یونیورسٹی نہ جانا‘‘۔ ’’کیوں اماں؟‘‘ عالیہ جو ویلنٹائن کی وجہ سے یونیورسٹی کے لیے خاص تیاری کا سوچ رہی تھی، اماں کے حکم پر تلملا گئی۔
اماں: بیٹا کل تمہارے ماموں اور ممانی لاہور سے آرہے ہیں دو دن کے لیے (ہنستے ہوئے)۔ میں نے سامان منگوا لیا ہے، صبح جلدی اٹھ کر اپنے سگھڑ ہاتھوں سے دو تین اچھی ڈشیں بنا لینا۔
وہ تو پہلے ہی اماں کے حکم پر بھنّا رہی تھی، اس اگلے حکم پر بول پڑی: اماں ہر مہمان کے لیے آپ مجھ سے دو تین ڈشیں ضرور بنواتی ہیں۔
بیٹا تیرے ہاتھ میں ’’لذت‘‘ جو ہے۔
***
حرمین آج یونیورسٹی نہیں جانا چاہ رہی تھی۔ ویلنٹائن کی بیہودگی، لڑکے لڑکیوں کے گروپس کی آپس میں بیہودہ گفتگو۔۔۔ وہ ان چیزوں سے دور ہی بھاگتی تھی، لیکن آج میڈم نورین سے اس نے بڑی مشکل سے ٹائم لیا تھا۔ دو تین طالب علموں کو انہوں نے بلایا تھا ایک چیپٹر سمجھانے کے لیے۔ وہ میڈم کے آفس کی طرف جارہی تھی کہ پیچھے سے آواز سن کر رک گئی ’’مس حرمین‘‘۔ آواز دینے والا راحیل تھا۔ وہ رک گئی: جی بولیے آپ کو مجھ سے کوئی کام ہے؟
راحیل گڑبڑایا، لیکن فوراً سنبھلتے ہوئے کہا: حرمین دومنٹ آپ میرے ساتھ یہاں بیٹھ سکتی ہیں؟
حرمین: (گھڑی کو دیکھتے ہوئے) کوئی کام ہے آپ کو مجھ سے؟
راحیل: میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، اور یہ بات کہنے کے لیے آج کے دن سے بہتر کوئی دن نہ ہوگا۔
حرمین: مسٹر راحیل یہ یونیورسٹی ہے، اس کا کچھ تقدس ہے ۔۔۔ افسوس میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتی تھی، لیکن آپ بھی۔۔۔
راحیل: سوری حرمین آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں، میں تو دراصل۔۔۔
حرمین: اس دن کو منانا چاہ رہے تھے۔۔۔
راحیل کو حرمین کی بات سے بڑی ندامت محسوس ہوئی۔ وہ بہت عرصے سے حرمین کو جانتا تھا، اس کی شخصیت کی وجہ سے متاثر تھا۔ گو کہ وہ خود بھی ایک اچھا اور ذہین طالب علم تھا لیکن دوستوں کے اکسانے پر آج حرمین کے سامنے اسے شرمندگی اٹھانی پڑی، لہٰذا سر جھکا کر صرف اتنا ہی کہہ کر پلٹ گیا کہ سوری میں آپ کو ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ حرمین نے ہلکے سے گردن کو جنبش دی اور میڈم کے آفس کی طرف چل پڑی۔
***
کاشف: خوب بہت خوب، تم تو ویسے ہی بہت خوبصورت ہو اور آج تو قیامت ڈھا رہی ہو۔
کاشف نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے گلاب اسے تھمایا۔ یہ آج کے دن کے لیے حقیر سا تحفہ۔۔۔ زرین کاشف کے اس والہانہ انداز پر جھوم اٹھی۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے خوش نصیب دوشیزہ تصور کرنے لگی۔ اس نے بڑے مخمور انداز میں کاشف سے پوچھا: یہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟
کاشف: جہاں صرف تم اور میں ہوں۔
ساحل سمندر پر خوبصورت ہٹ اور کاشف کے لائے ہوئے اعلیٰ لوازمات کو دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے بولی: کاشف آپ نے تو بہت انتظام کیا ہوا ہے۔
کاشف: آگے آگے دیکھو میری جان۔
کھانا کھانے کے بعد کاشف نے ایک خوبصورت باکس میں سے بریسلٹ نکال کر زرین کی مرمریں کلائی میں پہنایا۔
زرین: یہ۔۔۔ یہ تو بہت مہنگا ہے۔
کاشف: آج کے دن اور تمہارے لیے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔
زن و مرد تنہا ہوں تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ سب کچھ برباد ہونے کے بعد اور گوہرِ نایاب سے محروم ہونے کے بعد زرین کے پاس رونے کے سوا کچھ نہ تھا، لیکن اسے ایک آس و امید تھی کہ کاشف جلد ہی اسے اپنا لے گا۔
زرین: کاشف آج جو کچھ ہوا بہت برا ہوا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، پلیز اب آپ جلدی اپنے والدین کو میرے گھر بھیجیے ورنہ میں جی نہ پاؤں گی۔
کاشف: (گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے) تم تو جانتی ہو میرے ماں باپ کی خواہش یہ ہے کہ شادی سے پہلے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جاؤں، اس کے بعد ہی کچھ ہوسکتا ہے، ابھی اگلے مہینے میری روانگی ہے۔
زرین: (روتے ہوئے) کاشف آپ نے اس سے پہلے تو مجھے یہ نہیں بتایا تھا۔
کاشف: اور ویسے بھی ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست اور ساتھی ہیں، ہم ’’اسی طرح‘‘ ملتے جلتے رہیں گے، میرا ابھی شادی کا ارادہ نہیں ہے۔
زرین: آپ۔۔۔ آپ نے مجھے دھوکا دیا ہے، فلرٹ کیا ہے۔
زرین ہذیانی انداز میں چیخنے لگی۔ کلائی میں بندھا ہوا بریسلٹ اتارکر اس کے منہ پر پھینکا اور کہنے لگی: گاڑی روکو، یہیں گاڑی روکو، میں اب ایک پل بھی تمہیں برداشت نہیں کروں گی۔ گاڑی رکتے ہی غصے سے وہ دروازہ کھول کر اتری، سامنے سے آنے والی تیز رفتار گاڑی کو بھی نہ دیکھا اور سڑک کے اس طرف کھڑے ہوئے رکشے کی طرف بھاگی۔ تیز رفتار گاڑی اسے دور تک گھسیٹتی ہوئی لے گئی۔
***
عالیہ کے ماموں اور ممانی کے ساتھ ان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ خوبرو بیٹا بھی تھا جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں حال ہی میں افسر مقرر ہوا تھا، جس نے اپنے والدین کے سامنے پسندیدگی کا اظہار کیا اور اسی شام سادگی سے عالیہ کو منگنی کی انگوٹھی پہنائی گئی۔ اگلے دن یونیورسٹی پہنچنے پر سب کو زرین کی موت کے بارے میں معلوم ہوا۔ سب کی زبانوں پر اُس کی اس ناگہانی موت کے بارے میں مختلف کہانیاں گردش کررہی تھیں۔ اس کی یہ دردناک اور عبرت ناک موت سب کے لیے باعثِ نصیحت ہوسکتی تھی، لیکن چند دنوں کے بعد سب کے ذہنوں سے وہ واقعہ محو ہوچکا تھا اور لڑکے لڑکیاں اسی ڈگر پر رواں دواں تھے۔ چند ایک نے ہی عبرت پکڑی ہوگی۔ عالیہ نے شکر ادا کیا کہ اللہ نے اسے بہکنے سے بچا لیا۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی بے حیائی، آزادئ نسواں وغیرہ یہود و نصاریٰ کی اندھی تقلید کے باعث ہے۔ ایسی بیہودہ سرگرمیوں کو میڈیا کی بدولت مزید تقویت ملی ہے۔ آئے دن میڈیا پر ان خرافات کا پرچار کیا جاتا ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر نئی نسل پر پڑا ہے۔ دینی تعلیم سے دوری اور اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہم بے حیائی کی دلدل میں پھنستے ہی جا رہے ہیں۔ آپؐ کے ارشاد کے مطابق ’’حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے۔ جبکہ بے حیائی و بدکلامی سنگدلی ہے، اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے‘‘ (ترمذی)۔ بے حیائی دراصل عذابِ خداوندی کو دعوت دیتی ہے۔ سورۃ النور میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یاد رکھو، جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے اُن کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
آج یہود و نصاریٰ کی اندھی تقلید میں مسلم عورت بھی بے حیائی کا اشتہار بن گئی ہے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 33 میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے جو مسلم خواتین کے لیے حکم الٰہی ہے کہ ’’اپنے گھروں میں بیٹھی رہا کرو اور (بناؤ سنگھار) دکھاتی نہ پھرا کرو‘‘۔
آپؐ نے یہود و نصاریٰ کی دوستی اور مشابہت اختیار کرنے سے روکا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔‘‘ (ترمندی)
رب العزت ہم مسلمانوں کو ان خرافات، بے حیائی اور یہود و نصاریٰ کی اندھی تقلید سے محفوظ رکھے۔ آج ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو ہماری آنے والی نسلوں کو اس بے حیائی سے بچانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ لہٰذا ہم سب کو مل کر اس بے حیائی کو روکنا اور اس کا سدباب کرنا ہوگا تاکہ ہماری نئی نسل شیطان کے اس ’’حسین شر‘‘ سے محفوظ رہے۔ (آمین)
nn

حصہ