(کتنے آدمی تھے؟(زاہد عباس

362

ہمارے بچپن میں جب دوست اکٹھے ہوئے تو وقت گزاری کے لیے کوئی نہ کوئی کھیل ایجاد کرکے کھیلتے۔ ماضی میں دوستوں کے ساتھ ان کھیلوں کی یادیں اب بھی میرے ذہین میں ایسے ہی تازہ ہیں، جیسے کل کی بات ہو۔ دوستوں کا جمع ہو کر زمین پر پانی سے مربع اشکال میں لائنیں کھینچ کر جو کھیل کھیلا جاتا، اسے سُر پالا کہا جاتا۔ گرمیاں آتے ہی سارے دوست رات گئے تک یہی کھیلتے۔ دوسری طرف، محلے کی لڑکیاں کھوکھو، نیلا سمندر، پہل دوج اور پِٹو باری کھیلا کرتیں، جو اپنے وقت کے مشہور کھیل تھے۔ اسی طرح، برسات کے موسم میں بچے لوہے کی سلاخ زمین میں زور لگا کر گاڑا کرتے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک الگ ہی کھیل ہوا کرتا تھا، جس مین ایک بچہ زمین میں سلاخ پیوست کرتا اور باقی لڑکے ایک ٹانگ سے اُچھلتے ہوئے دور تک جاتے۔ اگر سلاخ زمین میں نہ گاڑی جاتی تو کھلاڑی آؤٹ قرار دیا جاتا۔ بچپن کے وہ سارے ہی کھیل بڑے دل چسپ اور نرالے تھے۔ بچوں کا اس قسم کے کھیل کھیلنے کا مقصد وسائل کی کمی تھا۔ اس زمانے میں اکثریت مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ بچوں کے پاس اتنے وسائل نہ ہوتے کہ وہ کرکٹ، ہاکی یا فٹ بال جیسے کھیلوں پر توجہ دیتے۔ جب پیسے نہ ہوں تو کس طرح ان کھیلوں کا سامان لایا جا سکتا۔۔۔اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت بچوں نے جو سمجھا، اسے کھیل بنا ڈال۔۔۔زمانہ گزرتا گیا۔ میری عمر کا ہر شخص، جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے، ضرور ان کھیلوں سے آگاہی رکھتا ہوگا۔ اِنہیں ٹائم پاس کھیلوں میں ایک ایسا بھی تھا، جس میں کوئلے سے دیواروں پتھروں، درختوں اور محلے کے گھروں میں خاص کر دروازوں کے پیچھے لکیریں کھینچی جاتیں یعنی ایک گروپ دوسرے گروپ سے چھپ کر کوئلے سے چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچتا اور دوسرا گروپ لگائی گئی ان لکیروں کو تلاش کرتا۔ جو لکیریں نظر سے بچ جاتیں، ان کو شمار کیا جاتا۔ گنتی مکمل ہونے کے بعد اس تعداد کو ہارنے والے گروپ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا۔ اس کھیل کا نام بڑا انوکھا سا تھا، جِسے ’’کل کل کانٹا‘‘ کہا جاتا۔ اس کھیل میں لگائی گئی لکیروں کی تلاش اس قدر مشکل ہوتی کہ ہار ماننا پڑتی۔ بعدازاں، جتنی تعداد دوسرا گروپ دکھاتا خاموشی سے ماننی پڑتی۔ یہ انتہائی سر کھپانے والا کھیل ہوتا تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ ہار کی صورت جیتنے والے کی ہر بات کو تسلیم کرنا پڑتا۔ جو وہ کہتا، اس پر آمین کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہوتا۔ اس طرح اس کے دکھائی گئی لکیروں کے نشانات کی تعداد کو حتمی مانا جاتا۔
آج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلتا جارہا ہے، بڑی تیزی سے دنیا ترقی کرتی جارہی ہے۔ آج بچوں کو ماضی کی حقیقتوں کے بارے میں بتایا جائے تو جواب میں ان کے پاس ہنسی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔ سائنس کی ترقی نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے، آج کا بچہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون میں منہمک ہے۔ وہ اِنہیں بڑی مہارت اور چابک دستی سے چلاتا ہے۔ اسے اس طرح ان اشا کا استعمال کرتا دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر اتنی مہارت سے ہم اسمارٹ فون استعمال کریں تو ہمیں اس طرح مہارت حاصل کرنے میں عرصہ لگ جائے اور پھر اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ ہم اس مہارت کو حاصل کر بھی سکیں۔ تیزی کے ساتھ بدلتی دنیا میں جہاں ہر چیز میں جدّت بڑھتی جا رہی ہے، وہاں 21 ویں صدی میں بھی ہمارے حکم راں کِل کِل کانٹا جیسے کھیل کھیلنے کو تیار ہیں۔ آج کے دور میں جہاں ساری دنیا ایک فنگر ٹپس پر ہے، ہمارے حکم راں پتھروں کے زمانے کی یاد تازہ کرنے میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مردم شماری کرنے کے نام پر آج کِل کِل کانٹا کھیل کھیلنے کے انتظامات کرنے میں مصروف ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں آج پرندوں، عمارتوں اور جانوروں تک کی تعداد مختلف طریقوں سے حاصل کی جارہی ہے، وہاں ہماری حکومت گھر گھر جاکر انسانوں کا شمار کرنے کی ٹھان چکی ہے، یعنی در در جا کر رہنے والے سے ہی پوچھا جائے گا کہ کتنے افراد ہو، جواب میں جو مکیں بتائے، کاغذ پر لکیریں لگا کر اگلے گھر کی راہ لی جائے۔ اب اس بات کی کسی کو خبر نہیں کہ بتائے گئے افراد کی تعداد ٹھیک ہے یا غلط۔۔۔ کہہ دیا، سُن لیا، اللہ اللہ خیر صلہ۔۔۔ ایسے میں فلم شعلے کا وہ ڈائیلاگ یاد تا ہے، جب امجد خان اپنے ساتھیوں سے پوچھتا ہے۔۔۔ کتنے آدمی تھے؟ دوسری طرف سے جواب آتا ہے، سردار دو۔۔۔بس اسی فارمولے کے تحت ہماری ملک میں مردم شماری شروع ہوجاتی ہے، جس کو بنیاد بنا کر ہی ملک میں وسائل کی تقسیم ہوتی ہے۔ محکمہ شماریات کی ذمّے داری ہوتی ہے کہ اصل اعداد شمار محکمے کے پاس ہوں اور حکومت کو اس بات کا علم ہوکے اکھٹے کیے گئے اعداد شمار میں کوئی شک نہیں، لیکن ملک میں ہونے والی مردم شماری کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مردوم شماری کرنے والے افراد کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ متعلقہ گھر سے بتائے جانے والے اعداد شمار ٹھیک ہیں بھی کہ نہیں۔ گھر میں رہنے والے افراد کا تعیّن کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتا اور نہ ہی ان اہل کاروں کے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ ہوتا ہے، جس کو رگڑ کر معلوم کیا جاسکے کہ گھر کے اندر کتنے لوگ رہتے ہیں۔ ان کے پاس بتائی گئی معلومات کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
میں یہاں مردم شماری کے خلاف نہیں بلکہ ماضی میں کی گئی مردم شماریوں کے دوران ہونے والی صورت حال کا ذکر کر رہا ہوں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق مردم شماری ہونا چاہیے۔ بالکل، مجھے بھی اس بات میں کوئی اختلاف نہیں، میں کورٹ کے فصلے کے خلاف نہیں بلکہ ملک میں رائج اس طریقے سے اختلاف کرنے کے خلاف ہوں، جس کے تحت یہاں لوگوں کا شمار کیا جاتا ہے۔ میں تو اپنی تحریر کے ذریعے صاحب اقتدار کو ان خرابیوں کی اطلاع دینے کی کوششیں کر رہا ہوں، جن کا سامنا حکم رانوں کو مردم شماری کے دوران یا اختتام پر کرنا پڑسکتا ہے۔ ماضی میں ہوئی مردم شماری ہمارے سامنے ہے۔ اس وقت کیا صورت حال بنی؟ ہر شخص اس سے واقف ہے۔ بات سیدھی سی ہے، جس ملک میں زبان و علاقے کے نام پر سیاست کی جاتی ہو، وہاں مسائل کا ہونا انوکھی بات نہیں، مثلاً اگر ہم صوبہ سندھ میں ہونے والی مردم شماری پر نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دے گا کہ یہ صوبہ زبان کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ اب شہری علاقوں میں سیاست کرتی جماعتوں کو جن کی اکثریت اردو بولتی ہے، اپنے علاقوں کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ لکھوانے سے کون روک سکتا ہے؟ اسی طرح، اندرونِ سندھ، جہاں سندھی بولی جاتی ہے، ان کی بھی یہ ہی خواہش ہوگی بلکہ اس پر اس زبان کی کئی جماعتوں نے کام بھی شروع کردیا ہے کہ وہ اپنی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بتائیں۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والے اس کھیل کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔اس کے لیے صرف اتنا بتادینا ہی کافی ہے کہ دونوں جانب سے دھاندلی کا شور ہی بَلند ہوگا۔ سندھ میں مردم شماری سے پہلے ہی کئی جماعتیں اس قسم کے بیانات دے رہی ہیں، جس سے آنے والے طوفان کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اس طرح کی صورت حال صرف سندھ میں ہی میں نہیں بلکہ یہ جھگڑا صوبہ کے پی کے میں بھی نظر آتا ہے، جہاں پختون اور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ آگے بڑھیے، صوبہ بلوچستان میں پختون اور بلوچھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔ پنجاب میں یہ چکر سرائیکی اور پنجابیوں کے درمیان چلے گا۔ اربوں روپے لگا کر گھر گھر جا کر انتشار بڑھانے کے علاوہ کیا حاصل؟ میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں، سپریم کورٹ کے احکامات سر آنکھوں پر۔۔۔میں تو طریقہ کار پر انگلیاں اٹھا رہا ہوں۔ ہاں اگر ماضی کی طرح کی جانے والی مردم شماریوں اور اس مرتبہ ہونے والی مردم شماری میں کوئی فرق ہے تو بالکل ٹھیک لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ ترقی کے اس دور میں اگر سائنسی بنیادوں پر کام نہ کیا جائے تو وہ کام مکھی پر مکھی مارنے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ مجھے نظر آ رہا ہے کہ مردم شماری کے بعد حکم رانوں کے لیے جو سب سے بڑا چیلنج ہوگا، وہ اس مردم شماری کو تسلیم کروانے ہی کا ہوگا۔ مجھے احتجاج کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے ایسے اقدامات دکھائی دے رہے ہیں، جن کی وجہ سے یہ کہا جاسکے کہ سب ٹھیک ہے۔ اس سے پہلے کہ ملک میں مردم شماری کے نام پر نئے احتجاج ہونے لگیں، پاکستان میں بسنے والے عوام کو اعتماد میں لے کر ایسی مردم شماری کی جائے، جس پر کسی کو اعتراز نہ ہو۔ اس سلسلے میں گھر گھر جا کر انسانوں کی گنتی کرنے سے بہتر ہے کہ نادرا جیسے ادارے کی مدد حاصل کی جائے، جس کے پاس بچوں کے برتھ سرٹیفکٹ سے لے کر شناختی کارڈ تک کا ریکارڈ موجود ہے۔ عوام کو نادرا سے تمام کاغذات مکمل کروانے کی آگاہی دینے والے پروگرام بنانے ہوں گے۔ ان خطوط پر کام کرنے سے آئندہ آنے والے ماہ و سالوں میں ایک ایک فرد کا ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ایسے قوانین بنائے جاسکتے ہیں، جن کی وجہ سے ہر شہری کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں، یعنی جب ہر شہری کا ڈیٹا موجود ہوگا تو بڑے احسن طریقے سے عوام کی تعداد اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود، اگر کسی علاقے یا صوبے میں خرابی ہو تو اداروں کی مدد سے اصل تعداد لی جاسکتی ہے۔ اگر اس طرح سے کوششیں کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پورے ملک کا ڈیٹا نہ حاصل کیا جا سکے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ یہ ایک مشکل کام ہے اور عوام کو دستاویزات کی اہمیت کا احساس نہیں، لیکن میرا ایمان ہے کہ سخت قوانین بنانے سے لوگوں کو ضرور پابند کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام آج ہی سے شروع کردیا جائے تو کچھ ہی عرصے میں اچھے نتائج نکل کر سامنے آسکتے ہیں، جس سے ان اربوں روپے کو ضائع ہونے سے بھی بچایا جا سکتا ہے، جو ہر مرتبہ حکومتوں کو انسانوں کی گنتی کے لیے لگانا ہوتا ہے۔ حکومت کو میری تحریر پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ اگر حکومت مردم شماری کے وہ طریقے، جو قابل قبول ہوں، عوام کو دینے میں کام یاب ہو جاتی ہے تو یقین جانیے، ملک سے نفرتوں کو بھی دھونے میں کام یاب ہوسکتی ہے، بہ صورت دیگر انتشاو وافراتفری کے کچھ حاصل نہ ہوگا!!
nn

حصہ