(عافیہ صدیقی(رضوان قائد

275

یہ کرب ناک جملہ اپنے اندر ظلم و ستم اور استقامت کی داستان سمیٹے، ایک غیر ملکی انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ اور میڈیا پروڈکشن کمپنی کے پیج پر نظر آیا۔ ساتھ ہی ڈاکٹر عافیہ کی زندگی کی کہانی پر مبنی ویڈیو موجود تھی۔ یہیں پر “عافیہ موومنٹ” کے آفیشل پیج کا لنک بھی دیا گیا ہے۔ عافیہ کی رہائی کے خواہش مندوں کو تازہ ترین متعلقہ معلومات سے آگہی اور اس کے لیے آواز اٹھانے کی غرض سے اس پیج کو لائیک اور شیئر کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ نیچے موجود تبصرے(کمنٹس) ہمارے قومی وقار کی دھجیاں اڑانے کے لیے کافی تھے۔ غیروں کے یہ بے لاگ تبصرے، ان کے اور ہمارے “اپنوں” کا آئینہ پیش کر رہے ہیں۔
کوئی امریکی حکومت پر تنقید کر رہا ہے، کوئی پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کو غیرت دلا رہا ہے مگر عافیہ کے ساتھ، کیا غیرملکی و غیر مسلم اور کیا مسلمان، ہر ایک انسانیت کے جذبے کے تحت، یک زبان اور ہمدرد ہیں۔ کسی غیرملکی فورَم پر اپنے قومی معاملے، ایک مسلمان پاکستانی بیٹی کو یوں موضوعِ بحث دیکھ کر لگا سارے پاکستان کی بیٹیاں عافیہ بن گئی ہیں۔
یہ تو ایک سائٹ کا تذکرہ تھا۔ عافیہ کے اغوا اور منظرِعام پر آ جانے سے لے کر آج تک مسلسل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عافیہ کی رہائی کے لیے حکومت پر زور ڈالا جاتا رہا۔ مگر حکمران، قوم کی بیٹی کے تحفظ میں دانستہ ناکام ہیں۔
امّت کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی، قرآن کی تعلیم کے ساتھ امریکا کی اعلیٰ جامعات سے تعلیم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری یافتہ ہے۔ وہ پاکستان میں علم کی روشنی کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی خواہش مند تھی۔ اپنے ہی ملک کے محافظوں کے ہاتھوں اندھیروں کی راہی بنا دی گئی۔ امریکیوں پر حملے کے جھوٹے الزام میں اغوا کر کے قید کیا گیا۔ افغانستان اور امریکی عقوبت خانوں میں شرم ناک ظلم و ستم روا رکھا گیا۔ الزام ثابت ہوئے بِنا نام نہاد مقدمے میں 86 سال کی سزا ہر طرح کی زہنی و جسمانی اذیتوں کے ساتھ تاحال جاری ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کے افرادِخانہ ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ ان کی رہائی کے لیے انتھک کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رہائی کی کوششوں کے لیے بنائے گئے پلیٹ فارم عافیہ موومنٹ کے تحت، جماعت اسلامی تحریکِ انصاف اور پاسبان، اس مظلوم گھرانے کے ساتھ تعاون کے لیے آگے بڑھے۔ بعد میں دیگر تنظیموں، جمیعتِ علماء اسلام، جمیعتِ علماء پاکستان، مسلم لیگ نے بھی اس معاملے میں تعاون اور حمایت کا یقین دلایا۔ طلبہ تنظیموں میں، اسلامی جمیعتِ طلبہ، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، اسلامی اسٹوڈنٹس فیڈریشن، ڈاکٹرز، صحافی حضرات، وکلاء اور بے شمار ہمدرد افراد نے بھی دستِ تعاون بڑھایا۔
یوں عافیہ موومنٹ کے تحت عافیہ رہائی کے لیے منظم کوششیں باقاعدہ عمل میں آئیں۔ ملک بھر کی تمام ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز میں پروگرامات کیے گئے۔ بیرونِ ملک سے آنے والے ہائی آفیشل افراد / وفود سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا گیا۔ پریس کلبز کے سامنے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے عافیہ کے ایشو کو ہائی لائٹ کیا گیا۔
قانونی محاذ پر بھی جدوجہد جاری ہے، سندھ ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور وفاقی محتسب کی جانب سے اس معاملے میں حکومت کو ہدایات جاری کی گئیں مگر حکومت مستقل توہینِ عدالت کی مرتکب ہے۔
عافیہ موومنٹ کی کوششوں کے دوران، ان کے بارآور ہونے کے تعلق سے اہم مواقع بھی آئے۔ مثلاََ امریکا کا یومِ آزادی، اس پر قیدیوں کی رہائی عمل میں آتی ہے۔ اس موقع پر امریکی ہیومن رائیٹس کے زمہ داران کے مشورے پر، عافیہ رہائی کے لیے مقررہ تعداد میں اپنے سائن کے ساتھ امریکی حکومت کو مہماتی انداز میں خطوط لکھے گئے۔ ہدف پورا ہونے کے باوجود عافیہ کی رہائی ممکن نہ ہوسکی۔ دوسرا موقع پانچ پاکستانیوں کے قتل میں ملوث امریکی سفیر ریمنڈ ڈیوس کا تھا۔ یہ ایک سنہری موقع تھا۔ امریکا کو اپنا شہری مطلوب تھا جب کہ پاکستان کے لیے وہ ایک دہشت گرد قاتل تھا۔ کچرا دے کر سونا لینے کے مصداق، ریمنڈ ڈیوس کے بدلے عافیہ کو لیا جا سکتا تھا۔ مگر ہماری حکومت نے اس موقع پر بھی امریکا کی خوشنودی اور اپنی مفاد پرستی کو ہی پیش نظر رکھا۔ کیس لڑنے والے اصل وکیلوں کو قید کر کے پیپلز پارٹی کے وکیل کی خدمات حاصل کی گئیں۔ قصاص و دِیّت کے قانون کا سہارا لے کر انتہائی عجلت میں امریکا روانہ کردیا گیا۔
اس کے بعد، امریکی صدر کی تبدیلی کا موقع آیا۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کواختیار منتقل کرنے سے قبل، باراک اوباما مخصوص تعداد میں قیدیوں کو رہا کر رہے تھے۔ اس موقع پر عافیہ کی رہائی کے امکان کو پاکستانی صدر کے دستخط شدہ خط سے مشروط رکھا گیا۔ اس وقت بھی عافیہ موومنٹ کے رضاکاروں نے جماعت اسلامی اور پاسبان کے تعاون سے مہماتی انداز میں کوششیں کیں۔ عوام اور میڈیا نے بھی کسی حد تک، وزیرِاعظم کے دستخطی خط کے لیے بھر پور کوششیں کیں مگر حکومت نے امریکی مغلوبیت کی انتہا کرتے ہوئے، تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود اس قیمتی موقع کو بھی ضائع کردیا۔
عافیہ موومنٹ کی پے در پے کوششوں کی ناکامی کے باوجود، اس کے رضاکار اور ڈاکٹر عافیہ کے افرادِ خانہ اللہ تعالیٰ کے حضور صبر اور امید کا دامن تھامے ایک بار پھر عافیہ رہائی کے لیے پرعزم ہیں۔
اب ڈاکٹر شکیل آفریدی کی صورت میں عافیہ کی رہائی کا ایک اور موقع موجود ہے۔ شکیل آفریدی نے پاکستان میں امریکی ایجنٹ کا گھناؤنا کردار ادا کیا تھا۔ اس نے پولیو ویکسینیشن مہم کی آڑ میں، بچوں کے خون کے نمونے لے کر ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے، پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا امریکا کو پتا دیا۔ اگرچہ شکیل آفریدی پاکستانی ہے اور پاکستان کا مجرم ہے۔ اس پر یہیں مقدمہ چلا کر سزا ہونی چاہیے مگر امریکی ایجنٹ ہونے کے باعث امریکا کو مطلوب ہے۔ پاکستان کے لیے، امریکی آقا کے حکم کے آگے انکار کی جرأت ہی نہیں۔ باخبرذرائع کے مطابق، شکیل آفریدی کو بحفاظت امریکا بھیجنے کی درپردہ تو تمام تیاریاں حکومت نے مکمل کر لی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اسے آئندہ چند دنوں میں کبھی بھی ڈالرز کی سودے بازی کے ذریعے بھیجا جا سکتا ہے۔
وزیرِاعظم نواز شریف کے پاس یہ اللہ کی جانب سے، اپنے وعدے کو وفا کرنے کا موقع ہے۔ جو انہوں نے مظلوم عافیہ کی بیوہ والدہ سے کیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ ایفائے عہد انہیں اپنی اولاد کی کسی آزمائش سے بچا لے۔۔۔ ورنہ وزیرِاعظم صاحب کو خبردار رہنا چاہیے کہ بیوہ کی فریاد اور اللہ تعالیٰ کے بیچ تو آسمان بھی حائل نہیں ہوتا۔
حکومت اس کی واپسی پر ڈالرز کے بجائے عافیہ کی رہائی کا سودا کر سکتی ہے مگر بزدل اور امریکا کے غلام حکمران سرِتسلیم خم کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ابتدا میں حسین حقانی نے عافیہ کیس کو بگاڑا تھا۔ اب رہی سہی کسر سرتاج عزیز اور طارق فاطمی پوری کر رہے ہیں۔
خدا نخواستہ، اس سے قبل کہ وہ وقت آئے آپ صبح سو کر اٹھیں اور پانی سر سے گزر چکا ہو اب بھی وقت ہے۔ عافیہ موومنٹ اور اس کے رضاکار، ڈاکٹر فوزیہ کی سربراہی اور پاسبان کے تعاون کے ساتھ ایک بار پھر امت کی بیٹی مظلوم ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کمر بستہ ہیں۔ کراچی تا اسلام آباد ٹرین مارچ کا منصوبہ، عوام میں بیداری کی کوشش ہے۔
عافیہ موومنٹ کے تحت، عافیہ رہائی کی سرگرمیوں میں حکومتی عدم تعاون اور وسائل کی کمی ہمیشہ درپیش رہی ہے۔ اگرچہ کارکنان کے حوصلے اس سے بڑھ کر ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں عافیہ موومنٹ اپنے حامیوں کی معاونت کی ہر لحاظ سے منتظر ہے۔ عافیہ فیملی سے رسمی ملاقاتیں، منعقد کیے گئے پروگرامز میں شرکت اور میڈیا کَوریج یہ سب یقیناًحمایت کے لوازمات ہیں مگر، ملت کی بیٹی، قوم کی آبرو کا یہ اہم معاملہ دامے درمے سخنے قدمے مذید سنجیدگی اور یکسوئی کا طلب گار ہے۔ عافیہ موومنٹ کی ابتدا میں دستِ تعاون بڑھانے والے افراد، ادارے یا تنظیمیں اگر اپنی سرگرمیوں پر صرف کیے جانے والے وسائل کا چند فیصد بھی تعاون کے ضمن میں ایثار کریں تو یقیناََ یہ ایک مظلوم بیٹی کی دادرسی کی کوششوں کو مہمیز کرنے کا باعث بنے گا۔
ان شاء اللہ۔
nn

حصہ