(تعلیمی ادارے اور اساتزہ(زیبا عظیم

700

انسانی جسم میں جیسے ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت ہے ویسے ایک استاد کی معاشرے میں اہمیت ہوتی ہے۔ استاد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب تو ہر کوئی جانتا ہوگا، مگر اس عہدے کے ساتھ انصاف کوئی کوئی کرتا ہوگا۔ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ بغیر استاد کے کوئی بھی شاگرد کوئی کام، کوئی علم نہیں سیکھ سکتا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تمہیں عدم سے وجود میں لے کر آیا، ایک وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی، اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم سکھایا‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جس شخص نے تمہیں ایک لفظ بھی سکھا دیا، وہ تمہارا استاد ہے۔‘‘
والدین اپنی اولاد کو عدم سے وجود میں لے کر آتے ہیں، مگر جب بچے کو درس گاہ میں بھیجتے ہیں تو استاد ہی ہوتا ہے جو اس کے ہاتھ میں قلم تھما کے سب سے پہلے اسے قلم پکڑنا سکھاتا ہے۔
امیرالمومنین خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا: ’’کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔ استاد معاشرے کا وہ ستون ہے جس کے بل پر معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، اور اگر یہ ستون کمزور ہونے لگے تو معاشرے کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ بلاشبہ معلم ایک ایسی شخصیت ہے جو بچے کو بتاتا ہے کہ وہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اسے کہاں جانا ہے؟ اس دنیا میں اُس کے آنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کا اصلی مالک کون ہے؟ وہ کس کی غلامی کا پابند ہے؟ اس کا سر کس کے سامنے جھکنا ہے اور کس کے سامنے سرنگوں ہونا ہے؟
شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کے سپرد ہے۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔ معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے، کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہمہ قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے‘‘۔
اہلِ مغرب کا کہنا ہے کہ زندگی کے پہلے 30 سال پڑھو اور پھر اگلے 30 سال پڑھاؤ اور سکھاؤ۔ یہ ’’ریڈ اینڈ لیڈ‘‘ کا فارمولا کہلاتا ہے۔ استاد طلبہ کے لیے ایک مثال کی مانند ہوتا ہے۔ اسکول میں آنے والا ہر بچہ ایک اَن لکھی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے اور استاد جو کچھ اُس کو سکھاتا اور پڑھاتا ہے وہ اسے عمر بھر نہیں بھول پاتا، اور اگر بچوں کو صحیح نہج اور طرز پر تعلیم دی گئی ہو تو یہی باتیں ان کی ترقی کا بہترین زینہ بن جاتی ہیں۔
یہ مثالیں استاد کے مقام اور درجے کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر معاشرہ استاد سے کیا چاہتا ہے؟ ایک اچھے استاد کی خوبیوں کے بارے میں ابراہم لنکن کہتے ہیں کہ ’’استاد وہ ہوتا ہے جو طالب علم کو آئندہ زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرے‘‘۔ مگر افسوس کہ تعلیم ایک کامیاب کاروبار بن چکی ہے اور استاد کامیاب بزنس مین۔ استاد آج کل ایک سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ معاشرے کے لیے استاد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ پھر مخلوط تعلیمی نظام میں مرد، خواتین اساتذہ کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کی تعلیم پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مگر آج کل یونیورسٹیوں کی تعلیم اور اساتذہ کا کردار قابلِ رحم ہوچکا ہے۔ پڑھنے والے اور پڑھانے والے سب اپنے اپنے فرائض کو بھول بیٹھے ہیں۔ تعلیم ایک فیشن بن چکی ہے، اور استاد اسے سجا کے پیش کرتا ہے۔ مجھے جو ذاتی کمزوری یونیورسٹی میں نظر آئی، وہ یہ ہے کہ اساتذہ کو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ کہاں کہاں اور کیسے اپنے شاگردوں کے ساتھ ناانصافی کرجاتے ہیں اور کیسے ان کی تربیت میں کمی چھوڑ جاتے ہیں۔ روزانہ کلاس میں آنا ایک عادت بن گئی ہے اساتذہ کی۔ باقی کوئی دلچسپی نہیں کہ کلاس میں بیٹھا شاگرد ہیرا ہے کہ ایک روشن ستارا۔ فیورٹ ازم حد سے زیادہ ہے۔ جو سچ بولے گا وہ زیادہ نقصان اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ شاگردوں کا معیار شکلوں سے طے کیا جائے گا۔ شکل اچھی، نمبر اچھے۔ یا جو تعریفیں زیادہ کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔
آج کل کے استاد اور قوم کے معمار کی اس سے بھی زیادہ خوبیاں ہیں میری نظر میں۔ ظاہر کو دیکھ کر ایک استاد شاگرد کے کردار تک کو جان لیتا ہے اور ایسی غلط رائے قائم کردیتا ہے کہ اندر بیٹھے کچھ شاگردوں کے لیے تو یہ رائے بالکل غلط ثابت ہوتی ہے۔ اساتذہ کے آپس میں ذاتی اختلافات سے شاگرد پستے ہیں۔ ایک نے نمبر زیادہ دیے تو دوسرا چڑ کر کم دے گا۔ سچ اور محنت کا رواج ختم ہوگیا۔ مجھے ایک مرتبہ ایک دوست سے بات کے دوران پتا چلا کہ اسے ٹیچنگ کے پیشے سے ہی نفرت ہے۔ میں نے اسے سمجھانے کے لیے کئی مثالیں دیں مگر اس کی باتوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر کس وجہ سے وہ اس مقدس پیشے سے بدگمان ہے، تو سمجھ میں آیا کہ جہاں اساتذہ حسن کو پسند کریں اور حسن والیوں کو نمبر دیں تو ایسی تعلیم پر ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لینا چاہیے۔ اساتذہ سے گزارش ہے کہ آپ کم از کم اپنے پیشے سے خیانت نہ کریں۔ تعلیم ایسا شعبہ ہے جس میں کسی قسم کی غیر ذمہ داری ہرگز برداشت نہیں ہونی چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں غیر مہذب الفاظ اور غیر مہذب انداز سے بھی پرہیز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں اور بچیوں کو حصولِ تعلیم میں کامیاب کرے، آمین۔
nn

حصہ