(نوجوان نسل کی اصلاح (ثناواجد

379

اپنی زندگی کا مقصد متعین کرنے اور راہ ہموار کرنے میں نیت اہم کردار ادا کرتی ہے، اور ارادہ جدوجہد کرنے پر انسان کو اکساتا ہے، یا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انسان کی کامیابی کے پیچھے نیت اور ارادہ بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کی بنیاد نیت اور مصمم ارادے کے اندر مضمر ہے بشرطیکہ نیت مثبت، صاف اور ارادے پختہ ہوں، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
جیسی نیت ہوگی پھل بھی اسی کے مطابق ملے گا، اور دیر یا بدیر نتیجہ بھی اس کے مطابق ہی نکلے گا۔ اپنے کسی بھی عمل کے لیے صرف مصمم ارادہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ نیت کا صاف ہونا بھی ضروری ہے۔
کیونکہ ہر اچھے برے عمل کا ذمے دار انسان خود ہوتا ہے اور اسی وجہ سے معاشرے پر بھی فرد کا اچھا برا عمل اثرانداز ہوتا ہے، کیونکہ انسان انسان سے جڑا ہوتا ہے اور معاشرہ انسانوں سے جنم لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور بگاڑ کا انحصار افراد پر ہی ہے۔
ایک فرد کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں اور کوتاہیاں کسی دوسرے فرد سے جڑی ضرور ہوتی ہیں، اور اسی طریقے سے ایک فرد کی کوتاہی کئی افراد کی کوتاہی بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی فرد کے غلط رویّے پر خاموش رہنا، یا پھر کسی کے جھوٹ پر پردہ ڈالنا بہت عام اور بے ضرر سی باتیں معلوم ہوتی ہیں، جس کی ابتدا اپنے گھر سے ہی ہوتی ہیں، جو آہستہ آہستہ انفرادی سے اجتماعی طور پر جڑیں مضبوط کرکے چھوٹی سے بڑی کوتاہیوں میں بدل جاتی ہیں۔ ہم نے انفرادی طور پر تو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کا حل نکال لیا لیکن اجتماعی طور پر یہ نہ دیکھا کہ ملکی سطح پر اس کا کتنا نقصان ہوا ہے۔
شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وجودِ پاکستان کے بعد پچھلی نسلوں نے اتنی محرومیاں دیکھی تھیں، جس کا ازالہ کرنے کے لیے شاید اپنی آنے والی نسلوں کو ضرورت سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ نکالا گیا، جس کے لیے اگر کسی کا حق بھی مارا تو اپنے لیے جائز سمجھا۔ اس طرزعمل کی وجہ سے معاشرے میں ناانصافی نے ڈیرے جمالیے۔ جب افراد کے درمیان بے ایمانی عام ہوئی تو سرکاری ادارے کمزور پڑگئے، جب سرکاری ادارے کمزور ہوئے تو بے روزگاری بڑھی اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچنا شروع ہوا جس نے معاشرے میں اور بڑی بڑی بیماریوں کو جنم دیا جو کہ ناسور کی شکل اختیار کرنے لگیں۔
اسے ہمارے معاشرے کی بدقسمتی کہہ لیں یا المیہ کہ یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں معاشرے میں جڑیں مضبوط کرکے آنے والی نوجوان نسل کو کھوکھلا کرتی جارہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس کا ادراک کریں جس کے باعث نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہوئی ہے۔
اپنے معاشرے میں موجود خامیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں جو آہستہ آہستہ ہماری نوجوان نسلوں میں بھی جڑیں مضبوط کرتی جارہی ہیں۔ اس میں کسی غیر کا ہاتھ نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہاتھ ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال سوشل میڈیا ہے جہاں تقریباً 80 فیصد لوگ اپنا وقت گزارتے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد نوجوان نسل کی ہے۔ مستقبل کے یہ معمار سوشل میڈیا پر 24 گھنٹوں میں سے 16 گھنٹے بے مصرف صرف کررہے ہیں اور جو اس کا فائدہ اٹھا بھی رہے ہیں تو غلط طریقے سے۔۔۔ عملی طور پر کوئی کام کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کو صرف اور صرف اپنی ذہنی تسکین اور سکون کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جوکہ صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔
اس نسل کو ملکی معیشت کو مضبوط کرنے اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینے کے لیے عملی طور پر محنت کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن یہ نسل سوشل میڈیا پر بے مصرف وقت گزارنے میں مصروف ہے اور ملک کو مورد الزام ٹھیرانے پر مُصر ہے کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے؟ یا یہ کہتی جابہ جا سنائی دیتی ہے کہ حکومت نے اس ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ملک یا حکومت کو مورد الزام ٹھیرانے کے بجائے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا جائے اور ایسے کام کیے جائیں جو ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنیں، کیونکہ کسی بھی ملک و قوم کے لیے نوجوان سرمایہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی مضبوط معاشرے کی بنیاد نوجوان نسل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل کی سوچ پر توجہ کسی بھی معاشرے کی فلاح اور نشوونما کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔

حصہ