(طنز ومزاح یا تنقید ۔۔۔؟(ثمرین یعقوب

1202

’’تمہارا قد کتنا چھوٹاہے‘‘۔ ’’ارے بہن تم تو ناراض ہی ہوگئیں۔ میں تو صرف مذاق کررہی تھی‘‘۔ مذاق کے لبادے میں لپٹے ہوئے طنز نجانے کتنے افراد کی زندگیوں کی خوشیاں چھین چکے ہیں۔ ایک مسلمان پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعاً ناجائز ہے۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک اہم طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہِ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔ اس تضحیک آمیز رویّے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، انتقامی سوچ، بدگمانی، حسد، سازشیں اور لڑائی جھگڑا دنیا کی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں۔ دوسری جانب اس رویّے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا، اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس تربیتی مضمون کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس رویّے کی سائنسی انداز میں وضاحت کی جائے۔ اس کے اسباب جانے جائیں اور اس سے بچنے کے لیے عملی مشقیں مکمل کی جائیں، تاکہ دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا حاصل کی جاسکے۔
مذاق اڑانے کی قرآن و حدیث میں ممانعت
یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ نے اس کو براہِ راست موضوع بنایا ہے۔ چنانچہ سورہ الحجرات میں واضح طور پر بیان ہوتا ہے: ’’اے ایمان والو! نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔‘‘ (الحجرات 11:49)
مذاق اڑانا ایک شخص کی تحقیر اور اسے بے عزت کرنا ہے۔ اسی لیے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہنچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرے تو اُس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے، اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوگی‘‘ (صحیح بخاری:جلد دوم: حدیث نمبر 440)۔ مذاق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کارفرما ہے۔ دوسری جانب تکبر کی قرآن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔ اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ’’ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے، تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔‘‘ ( صحیح مسلم: جلد اول: حدیث نمبر 266)
ایک اور روایت میں بھی اس رویّے کی بالواسطہ مذمت بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم لوگ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور نہ ہی تناجش کرو (تناجش بیع کی ایک قسم ہے) اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو، اور نہ ہی ایک دوسرے سے روگردانی کرو، اور تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے، اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا ’’تقویٰ یہاں ہے، کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو‘‘۔ (صحیح مسلم: جلد سوم:حدیث نمبر 2044)
مذاق اڑانے کا منطقی نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس ایذا رسانی کی بھی ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ عبداللہ بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں‘‘۔ ( صحیح بخاری: جلد اول: حدیث نمبر 9 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح
اس ضمن میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے مدد لینی چاہیے۔ آپؐ اپنے اصحاب اور ازواج سے مزاح کیا کرتے تھے۔ اس بات سے اُن خشک مزاج اہلِ علم کے اس نظریے کا انکار ہوتا ہے جس کے تحت وہ حضرات مذاق کو ایک شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے مذاق کی تمام حدود و قیود کا علم ہوتا ہے۔ چند احادیث و آثار ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی سارے دانت کھول کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کا حلق نظر آنے لگے، بلکہ آپؐ صرف تبسم فرماتے تھے (بخاری : حدیث :1025)۔ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ قہقہہ لگانا ممنوع ہے، لیکن بہرحال ایک سنجیدہ مزاج شخصیت کو ٹھٹھے مارکر ہنسنا زیب نہیں دیتا۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ہم سے خوش طبعی کی باتیں کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا (ہاں لیکن) میں حق بات ہی کہتا ہوں (ترمذی حدیث2056)۔ اس حدیث کا مفہوم یہ سمجھنا چاہیے کہ مذاق میں بھی کوئی جھوٹ، فحش یا غیر اخلاقی بات کرنا جائز نہیں، اور جو بات ہو وہ حق ہو۔
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپؐ نے (مذاق میں) اس سے کہا کہ میں تو تمہیں اونٹ کا بچہ دوں گا۔ اس شخص نے کہا کہ میں اونٹ کے بچے کا کیا کروں گا؟ آپؐ نے فرمایاکہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ (ترمذی حدیث صحیح غریب :2056)
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہا ’’ یاذوالاذنین‘‘ یعنی اے دو کانوں والے۔ (ترمذی حدیث 2057) کیونکہ ہر شخص کے دو کان ہوتے ہیں اس لیے اس میں تحقیر بھی نہیں اور تفنن طبع بھی ہے۔
سیدنا حسنؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپؐ کے پاس آئی اور جنت میں داخلے کی دعا کی درخواست کی۔ آپؐ نے فرمایا کہ بوڑھی عورت جنت میں داخل نہیں ہوسکتی۔ وہ روتی ہوئی واپس ہونے لگی تو آپؐ نے کہا کہ اس سے کہہ دوکہ وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ سب اہلِ جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنادیں گے، اور حق تعالیٰ کی اس آیت میں اس کا بیان ہے کہ ہم نے ان (جنتی) عورتوں کو خاص طرز پر بنایا ہے کہ وہ کنواری ہیں۔ (شمائل ترمذی: حدیث 277)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاق میں کسی کو ایذا پہنچانا تو جائز نہیں جبکہ یہاں ان بوڑھی خاتون کو تکلیف ہوئی۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محترمہ بات کو غلط سمجھ بیٹھیں جس کی بنا پر انہیں دکھ ہوا۔ اگر وہ اصل مفہوم تک پہنچ جاتیں تو انہیں دکھ نہ ہوتا بلکہ وہ خود بھی محظوظ ہوتیں۔
سیدنا ابوسعید اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما، ان دونوں حضرات سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کسی مومن آدمی کو جب بھی کوئی تکلیف یا ایذا، یا کوئی بیماری یا رنج، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی فکر ہی ہو تو اس سے اس کے گناہوں کا کفارہ کردیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم: جلد سوم:حدیث نمبر 2067)
مزاح کرنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ سیاست دانوں کے خلاف جو مذاق کیا جاتا ہے وہ عام طور پر ان کی ناقص کارکردگی کے خلاف ایک احتجاج ہوتا ہے جس میں دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں سیاست دانوں کا مذاق اڑانے پر کوئی پابندی نہیں۔ لیکن جہاں تک اسلامی اقدار کا تعلق ہے تو سیاست دانوں کی ذاتی زندگی کو نشانہ بناکر مذاق اڑانا ممنوع ہے۔
کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اگر ہم مذاق کی ان پابندیوں کا خیال رکھیں تو کیا زندگی بالکل مزاح سے خالی اور روکھی پھیکی نہیں ہوجائے گی؟ یہ شیطان کا ایک فریب ہے، جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ اگر ہم غور کریں تو علم ہوگا کہ تفریح انسان کی ضروریات میں سے اہم ضرورت ہے۔ لوگ تفریح کرنے کے مختلف انداز اختیار کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو شراب، شباب ، عریاں فلموں، فحش گانوں اور اسی طرح کی دوسری لغویات میں خود کو مصروف رکھتے ہیں۔ دوسری جانب کچھ لوگ ان لغویات سے مکمل اجتناب برتتے ہوئے کھلی فضا کی تازگی، آسمان کی وسعت، پرندوں کی چہچہاہٹ اور ستھری کتابوں کی ورق گردانی سے محظوظ ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو دونوں کا مقصد تفریح اور لطف کا حصول ہے اور دونوں اپنے مقاصد میں کامیاب ہورہے ہیں۔ لیکن ایک کا طریقہ غلط اور دوسر ے کا درست ہے۔ یہی معاملہ مذاق کرنے کا بھی ہے۔ اگر ہم ناجائز مذاق کرنا ترک کردیں تو طبیعت خودبخود ستھرے اور شائستہ مزاح کا ذوق پیدا کرلے گی۔
کچھ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں اور سیدھی بات کو بھی مائنڈ کرجاتے ہیں۔ ان سے بات چیت کرتے وقت اور خاص طور پر مذاق کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے، کیونکہ یہ کوئی مناسب رویہ نہیں کہ ہماری کسی جائز بات سے بھی بلاوجہ ہمارے بھائی کو تکلیف پہنچے۔

حصہ