(باپ بڑا نہ بھیا ،سب سے بڑا روپیا(صائمہ عبدالواحد

336

پاکستانی سیاست دانوں پر یہ بات مکمل طور پر فٹ آتی ہے کہ ان کی نظر میں ہر شے سے بڑھ کر روپے کی قدر و قیمت ہے۔ ان کی زندگی شروع ہی اس سے ہوتی ہے کہ کیسے اور کس طرح ملکی دولت لوٹی جائے اور اس کے ذریعے قیمتی گاڑیاں، محلات، گھوڑوں کے اصطبل، لندن فلیٹس، آف شور کمپنیاں اور سوئٹزرلینڈ اکاؤنٹس بنائے جائیں۔ آخر کب تک اور کتنا یہ عوام کو لوٹیں گے؟ شاید اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ ان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی۔
پاکستان کے مسائل اور پاکستانی سیاست دانوں کی کرپشن دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ مسائل کیسے، کس طرح اور کب حل ہوں گے؟ بھینسا، موچی جیسے لوگوں کو ملک دشمنی اور اسلام دشمنی پر بات کرنے کی اور بلاگز لکھنے کی جسارت ان جیسے کرپٹ سیاست دانوں سے ہی ملتی ہے۔ ملک کے تمام محکموں میں ہونے والی کرپشن کی اصل وجہ کرپٹ حکمران ہیں۔ بابا لاڈلہ جیسے لوگ دراصل ہیں ہی ان کرپٹ سیاست دانوں کی ایجادیں، اور انہی کے بل بوتے پر یہ عوام کا جینا دوبھر کرتے ہیں۔ یہ کرپٹ طبقہ اپنے مفادات کے آگے کسی کا نہیں سوچتا۔
پچھلے دنوں عوام چیخ چیخ کر تھک گئے لیکن قوم کی بیٹی عافیہ کی رہائی کے لیے ان سے ایک خط نہ لکھا گیا، البتہ اپنے مفادات کے لیے قطری شہزادے سے دو خط لکھوا لیے۔ پانامہ لیکس ہو یا ڈان لیکس، تمام مقدمات کے فیصلے ان کے حق میں ہی آنے والے ہیں۔ یہ لوگ حکومت میں آنے سے پہلے یہ بات لکھوا چکے ہیں کہ ہر الزام سے بری الذمہ ہیں چاہے قرآنی سورتوں کی غلط تلاوت کریں یا مندروں میں جاکر بتوں کی پوجا کریں۔ جیسے عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام عیسائیوں کے گناہوں کے کفارے کے طور پر صلیب پر چڑھا دیے گئے ہیں اسی طرح ان بیوروکریٹس اور سیاست دانوں نے اپنے گناہوں کے بدلے عوام کو سولی پر لٹکا دیا ہے اور مزید لٹکتے جائیں گے۔۔۔ اپنے دیے گئے ووٹوں کا کفارہ جو ادا کرنا ہے۔
عالمی مسائل ان گنت ہیں، ملکی مسائل بے تحاشا۔ کشمیر کا مسئلہ، بھارتی جارحیت کا مسئلہ، لائن آف کنٹرول اور سرحدوں پر بھارتی دراندازی کا مسئلہ، پانی، بجلی اور گیس کے مسائل، بے روزگاری، عورتوں کا استحصال، تھر اور بلوچستان کے عوام کے مسائل، فاٹا اور قبائلی علاقوں کے مسائل، ساتھ ہی ملک میں جرائم کی ان گنت داستانیں، لیکن ان حکمرانوں اور ان کے چیلوں کے نزدیک شریف خاندان کو بچانے کے سوا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔
ادھر اپوزیشن پارٹیوں کو پانامہ لیکس کے سوا کوئی بات نظر نہیں آتی۔ دراصل ساری کہانی مال کی ہے۔ شاید ان حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ روزِ قیامت انسان کے قدم ہل تک نہیں سکیں گے جب تک وہ یہ جواب نہ دے دے کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ مال کمانے اور چھپانے کے معاملات میڈیا پر اچھلنے لگے اور ساتھ ہی مقدمات عدالت میں چلے تو حکمران پارٹیوں اور اپوزیشن پارٹیوں نے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے، گالم گلوچ اور مارکٹائی کو اپنا وتیرہ بنا لیا۔ جس کی جتنی بڑی کرسی اُس نے اتنا ہی مال کمایا اور چھپایا۔ اب بات کرسی پر بن آئی ہے یا پھر اس سے بڑھ کر جان پر بن آئی ہے۔۔۔ چاہے ملک کا چلے نہ پہیہ، سب سے بڑا روپیا۔

حصہ