کیا مغرب کے حکمران اور عوام دو مختلف حقیقتیں ہیں ؟

244

شاہنواز فاروقی
امریکہ کے حالیہ انتخابات میں ہیلری کلنٹن کو شکست ہوئی اور ڈونلڈ ٹرمپ فتح یاب ہوکر سامنے آئے تو ہم نے فرائیڈے اسپیشل میں عرض کیا تھا کہ امریکہ کے انتخابات میں امریکہ کا باطن جیت گیا اور امریکہ کے ظاہر کو شکست ہوگئی۔ امریکہ کا باطن خون آشام ہے۔ خوں خوار ہے۔ درندہ صفت ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کے ظاہر کی دیوار پر آزادی، جمہوریت پسندی، انسانی حقوق کی علَم برداری، مساوات اور “Diplomacy” کے فقرے لکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ ان نعروں کی آڑ میں بھی وہی کچھ کرتا ہے جو اُس کا باطن کہتا ہے، لیکن امریکہ کے ظاہر کی چمک اچھے اچھوں کی نظروں کو خیرہ کردیتی ہے اور بہت سے ’’معصومین‘‘ امریکہ کے سلسلے میں نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے پائے جانے لگتے ہیں۔ پاکستان کے معروف مؤرخ اور کالم نویس ڈاکٹر صفدر محمود بھی انہی معصومین میں شامل ہیں۔ چنانچہ انہوں نے 5 فروری 2017ء کی اشاعت میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں نام لیے بغیر ہمارے تجزیے سے اختلاف کیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے اس کالم کا عنوان ہے: ’’امریکہ۔۔۔ ظاہر و باطن‘‘۔ اپنے اس کالم میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’امریکی صدر ٹرمپ نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے اسلامی دہشت گردی کا نعرہ لگا کر سات مسلم ممالک کے باشندوں کی امریکہ یاترا پر پابندی لگادی۔ ٹرمپ کے ظاہری چہرے پر بھی سختی اور نفرت کے آثار نظر آتے ہیں اور اس کا باطنی چہرہ بھی ویسا ہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کالم میں مزید لکھتے ہیں:
’’اب آپ نے دیکھ لیا کہ ٹرمپ کا چہرہ امریکہ کا اصل یا باطنی چہرہ نہیں ہے۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ 9/11 کے بعد امریکی مسلمانوں سے ہوشیار رہتے ہیں۔ دل میں مسلمانوں سے خدشے کی چبھن چھپائے ہوئے ہیں۔ امریکہ، انگلستان، بیلجیئم، فرانس اور کئی دوسرے ممالک میں مسلمان نوجوانوں کے خودکش حملوں اور دہشت گردی نے امریکہ اور یورپی ممالک کو نفرت میں مبتلا کردیا ہے۔۔۔ لیکن یہ امریکی معاشرے کا ظاہری چہرہ ہے جسے مسلمانوں نے اپنے اعمال اور حرکات سے مشکوک بنادیا ہے۔ (ورنہ) آپ نے دیکھ لیا کہ مسلمان ممالک پر پابندی لگائے جانے کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج بھی امریکہ، انگلستان اور دوسرے یورپی ممالک میں ہورہا ہے، جبکہ مسلم ممالک میں ایران کے سوا ٹرمپ کے خلاف کہیں سے ردعمل نہیں آیا۔ کچھ عرب ممالک نے ٹرمپ کے اقدام کی حمایت کی ہے۔‘‘
بعض ’’معصوم‘‘ مسلمانوں میں نائن الیون کے حوالے سے ایک احساسِ جرم پایا جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو مغربی دنیا ہمارے خلاف ہوئی جارہی ہے یہ نائن الیون اور پھر بعض یورپی ممالک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا شاخسانہ ہے۔ حالانکہ خود یورپ میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو نائن الیون کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی یا “Inside Job” قرار دیتے ہیں۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی کہنے اور کچھ بھی کرنے کی آزادی فراہم ہوگئی۔ دوسری جانب امریکہ اور یورپ نے اپنے معاشرے میں اسلام اور مسلمانوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایسے درجنوں قوانین وضع کرلیے جو ’’عام حالات‘‘ میں ہرگز ہرگز نہیں بنائے جاسکتے تھے۔ اس سلسلے کا تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ کہتے ضرور ہیں کہ نائن الیون کے ذمے دار اسامہ بن لادن تھے، مگر یہ بات وہ آج تک ٹھوس معنوں میں ثابت نہیں کرسکے۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر صفدر محمود نہ عام آدمی ہیں، نہ ہی وہ سیکولر یا لبرل فاشسٹ ہیں، بلکہ وہ ایک اچھے مسلمان اور ایک اچھے پاکستانی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے باہمی تعلقات کی تاریخ کو اپنے کالم میں رتی برابر بھی اہمیت نہیں دی۔
کیا ڈاکٹر صاحب نہیں جانتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل یہودی اور عیسائی کہا کرتے تھے کہ اگر ہمیں آخری نبی کی بعثت کا زمانہ میسر آیا تو ہم نہ صرف یہ کہ ان پر ایمان لائیں گے بلکہ ہم ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں کے خلاف لڑیں گے، لیکن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو یہودیوں اور عیسائیوں کی اکثریت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے قبل کوئی نائن الیون، کوئی سیون سیون اور چارلی ہیبڈو ہوچکا تھا؟ کیا مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کے Twin Towers کو منہدم کرچکے تھے؟ ہرگز نہیں۔ اس سلسلے کی دوسری بڑی مثال صلیبی جنگوں کی تاریخ ہے۔ مسلمان صلیبی جنگوں سے پہلے اپنے اپنے جغرافیوں میں پُرامن زندگی بسر کررہے تھے۔ انہوں نے یورپ کے کسی ملک میں دہشت گردی کی کوئی معمولی سی کارروائی بھی نہیں کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت اُس وقت کے پوپ اربن دوئم نے 1095ء میں ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں پوپ نے اسلام کو ایک ’’شیطانی مذہب‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے یورپ کے باشندوں سے کہا کہ اٹھو اور اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو فنا کردو۔ پوپ اربن دوئم کی یہ تقریر صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی۔ پوپ کی اس تقریر نے پورے یورپ کو متحرک کردیا، اور 1099ء میں تمام یورپ کی افواج ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوئیں اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا، جو مختلف مراحل میں تقریباً دو سو سال جاری رہیں۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ یورپ کے عام لوگوں کی عظیم اکثریت پوری طرح پوپ اور صلیبی افواج کے ساتھ تھی۔ تاریخ میں اس امر کی ایک شہادت بھی موجود نہیں کہ یورپ کے کسی ملک کے دانش وروں یا چند عام افراد نے بھی یہ کہا ہو کہ محض پوپ کی ایک قیاس آرائی پر لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنا اور ایک مذہب کو فنا کرنے کے لیے نکل کھڑے ہونا کہاں کا انصاف ہے؟
اس سلسلے میں نوآبادیاتی دور کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ انیسویں صدی کے مسلمان ملک آباد تھے یا برباد تھے، یہ ایک الگ بحث ہے۔ مگر مسلم دنیا کے کسی ملک کے باشندے نے یورپ کے کسی ملک میں بم کیا پٹاخہ تک نہیں چھوڑا تھا، لیکن اس کے باوجود برطانیہ، اٹلی، جرمنی، فرانس، پرتگال اور ہالینڈ مختلف ملکوں پر چڑھ دوڑے اور انہوں نے ایک دو ملکوں کے سوا ساری مسلم دنیا کو اپنا غلام بنالیا۔ بلاشبہ اس کی ایک وجہ مسلمانوں کی اپنی کمزوریاں بھی تھیں، مگر مسلمانوں نے بہرحال مغربی ممالک کے خلاف کوئی دہشت ناک کارروائی نہیں کی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ یورپ کے کسی ملک کے عوام کی عظیم اکثریت نے اپنی حکومتوں کی کوئی مزاحمت نہ کی۔ پورے یورپ میں فرانس کے معروف ادیب اور فلسفی ژاں پال سارتر واحد مثال ہیں جنہوں نے الجزائر پر فرانس کے قبضے کے تقریباً سو سال بعد یہ بات کہی کہ الجزائر پر فرانس کا قبضہ غاصبانہ ہے اور فرانس کو الجزائر سے اپنی فوجیں واپس بلالینی چاہئیں۔ تو کیا ہم ایک سارتر کی بنیاد پر یہ کہہ دیں کہ فرانس کے حکمران اور عوام دو مختلف حقیقتیں تھیں؟ فرانس کے حکمران فرانس کا ظاہر تھے اور سارتر فرانس کا باطن تھا؟ اہم بات یہ ہے کہ یہ باطن بھی الجزائر پر فرانس کے قبضے کے تقریباً سو سال بعد سامنے آیا۔ اس سے قبل راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ ہمارے بعض قارئین کہہ سکتے ہیں کہ یہ مثال آپ پہلے بھی پیش کرچکے۔ یہ رائے غلط نہیں، لیکن ان مثالوں کی اہمیت اور ہمارے معصومین کے حافظے کا حال یہ ہے کہ ان مثالوں کو مزید دو تین ہزار مرتبہ دہرایا جاسکتا ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ امریکہ کی بنیاد دو کروڑ سے زیادہ ریڈ انڈینز کی لاشوں پر رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ سفید فاموں کا نہیں ریڈ انڈینز کا ملک تھا، لیکن یورپ سے آئے ہوئے سفید فاموں نے برتر اسلحہ کے ذریعے امریکہ پر قبضہ کرلیا اور انہوں نے چند دہائیوں میں دو کروڑ سے زیادہ ریڈ ایڈینز ہلاک کردیے۔ امریکہ پر قبضہ کرنے والے سفید فام قاتلوں کے عوام کی اکثریت نے کبھی یہ نہ کہا کہ امریکہ ہمارا نہیں ریڈ انڈینز کا ملک ہے، ہمیں اس پر قبضہ نہیں کرنا چاہیے اور ہمیں ریڈ انڈینز کی نسل کشی نہیں کرنی چاہیے۔ امریکہ خود کو علم، شعور اور غیر جانب داری کی علامت کہتا ہے لیکن کوئی امریکہ کے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں پڑھائی جانے والی تاریخ سے اس بات کی شہادت پیش کرکے دکھائے کہ امریکہ کسی بھی سطح کے نصاب میں دو کروڑ سے زیادہ ریڈ انڈینز کے قتل کا اعتراف کرتاہے؟ یہی کہانی آسٹریلیا میں دہرائی گئی۔ آسٹریلیا پورا براعظم ہے اور یہ براعظم سفید فاموں کا نہیں Aboriginals یا Aborigines کہلانے والے باشندوں کا ملک تھا، لیکن یہاں بھی سفید فاموں نے برتر اسلحہ کے زور پر لاکھوں ایب اوریجنلز کو قتل کرکے پورے براعظم پر قبضہ کرلیا۔ اہم بات یہ ہے کہ سفید فام عوام کی عظیم اکثریت نے اس انسان سوز حرکت پر بھی نہ اعتراض کیا نہ اس کی مزاحمت کی۔ جنوبی افریقہ کا ہولناک تجربہ بھی تاریخ کے صفحات پر موجود ہے۔ جنوبی افریقہ میں مغرب کے سفید فاموں کی اقلیت 70 سال تک سیاہ فاموں کو بدترین غلامی میں مبتلا کیے رہی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس اقلیت کی اکثریت نے کبھی اپنے حکمرانوں سے یہ نہ کہا کہ ہم ظالم ہیں اور ہمیں اپنے ظلم سے باز آجانا چاہیے۔
نائن الیون 2001ء میں ہوا۔ اس سے دس سال قبل بوسنیا ہرزیگووینا کا سانحہ رونما ہوچکا تھا۔ بوسنیا سابق یوگوسلاویہ کا مسلم اکثریتی حصہ تھا اور یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں کو پورا حق تھا کہ وہ بوسنیا کو مسلم اکثریت کی آزاد ریاست میں تبدیل کریں۔ مگر سربوں اور کروٹس نے ایسا نہ ہونے دیا۔ سربوں نے تین سال تک مسلمانوں کا قتلِ عام کیا اور تین سال میں ساڑھے تین لاکھ مسلمان مار ڈالے۔ امریکہ اور پورا یورپ تین سال تک سربوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو قتل ہوتے دیکھتے رہے۔ انہوں نے تین سال بعد مداخلت کی تو اُس وقت جب مسلمانوں کا بھرکس نکل چکا تھا اور وہ بوسنیا کو آزاد کرنے کے قابل نہیں رہ گئے تھے۔ بلاشبہ امریکہ کے حکمرانوں کی بے حسی پر امریکی محکمۂ خارجہ کے بعض اہلکاروں نے استعفیٰ دیا، مگر پوری مغربی رائے عامہ پڑی سوتی رہی۔
یہ بات بھی تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ امریکہ نے کسی جواز کے بغیر جاپان پر دو ایٹم بم گرائے اور لاکھوں لوگوں کو چند لمحوں میں ہلاک کردیا۔ اب تک امریکہ ایٹم بم کو استعمال کرنے والا دنیا کا واحد ملک ہے۔ لیکن اس موقع پر امریکہ کے عوام کی اکثریت نے صرف یہ دیکھا کہ ایٹم بم گرانے سے امریکہ کو ’’فتح‘‘ حاصل ہوگئی ہے اور اس کا حریف جاپان ’’شکست‘‘ سے دوچار ہوگیا ہے۔ چنانچہ جاپان کے خلاف ایٹم بم کے استعمال پر امریکہ میں کوئی عوامی احتجاج ہوا نہ یہ سانحہ امریکہ کے عوام کی اکثریت کے شعور اور ضمیر کے لیے کوئی معنی رکھتا ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر جب افغانستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کررہا تھا تو امریکہ میں ہونے والا ایک سروے کہہ رہا تھا کہ اس جارحیت کو امریکہ کے 85 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے۔ عراق کے خلاف جارحیت کے وقت بھی امریکہ کے 60 فیصد عوام صدام حسین کے خلاف کارروائی کے حق میں تھے۔ بلاشبہ امریکہ میں افغان اور عراق جنگ بالآخر غیر مقبول ہوئی، مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ افغانستان میں شکست سے دوچار ہوگیا اور عراق سے اسے کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ یعنی امریکی عوام میں ان جنگوں کی نامقبولیت کا سبب کوئی اخلاقی نقطۂ نظر نہ تھا بلکہ اس کا سبب امریکہ کی ناکامی تھی۔ بلاشبہ عراق جنگ کے خلاف امریکہ اور برطانیہ میں احتجاج ہوا اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے، لیکن یہ لوگ اکثریت کے نمائندہ نہ تھے، چنانچہ ان کے مظاہروں سے نہ امریکہ کی پالیسی بدلی، نہ برطانیہ کے حکمرانوں کے رویّے میں کوئی تبدیلی آئی۔ اس وقت امریکہ اور یورپ کی مجموعی آبادی 85کروڑ ہے۔ اتنی بڑی آبادی میں چند ہزار یا چند لاکھ لوگ سلیم الطبع ہوسکتے ہیں، لیکن یہ لوگ اتنی چھوٹی سی اقلیت ہیں کہ یہ مغرب کا نہ ظاہر کہلاسکتے ہیں نہ باطن۔ بلاشبہ ٹرمپ کی اسلام اور مسلمان دشمنی پر مسلم ملکوں کے حکمرانوں نے احتجاج کی ایک آواز تک بلند نہ کی، لیکن مسلم دنیا مغرب کے ایجنٹوں، اسلام اور مسلمانوں کے غداروں اور اپنے مفادات کے اسیروں کی دنیا ہے۔ اس لیے مغرب اور مسلم دنیا کے موازنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
مغربی دنیا میں حکمرانوں اور عوام کا تعلق جمہوری تجربے کے ذریعے بھی پوری طرح آشکار ہوکر سامنے آتا رہا ہے۔ ہٹلر، قوم پرستی اور اس کا فاشزم اگر بری چیزیں ہیں تو ہٹلر کے ساتھ ساتھ جرمنی کے عوام بھی اس کے ذمہ دار تھے، اس لیے کہ ہٹلر فوجی آمر نہیں تھا اور وہ شب خون مارکر اقتدار میں نہیں آیا تھا، بلکہ جرمنی کے عوام کی اکثریت نے اُسے صرف اُس کی نسل پرستی،‘ قوم پرستی اور فاشزم کی بنیاد پر پسند کرکے منتخب کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی
(باقی صفحہ 41پر)
اچانک آسمان سے نہیں ٹپک پڑے ہیں، انہیں امریکہ کے 6 کروڑ رائے دہندگان نے ووٹ دے کر امریکہ کا صدر بنایا ہے۔ چنانچہ ڈونلڈ ٹرمپ جو کچھ کررہے ہیں اور کریں گے امریکہ کے عوام کی اکثریت اس کی ذمہ دار ہوگی، بلاشبہ امریکہ میں بعض ایسے دانشور موجود رہے ہیں جو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے فاشزم اور اس کے جابرانہ اقدامات کی مزاحمت پر آمادہ رہے ہیں، لیکن ایسے دانشور ہمیشہ مشکل میں رہے ہیں، ہم نے پڑھا ہے کہ امریکہ کا سب سے بڑا شاعر اور نقاد ایزراپاؤنڈ تھا۔ ایزرا پاؤنڈ نے مسولینی کے زمانے میں اٹلی کے ریڈیو پر دوچار ایسی تقریریں کردی تھیں جو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے نظریات کے مطابق نہ تھیں۔ ان تقریروں نے طوفان برپا کردیا۔ ایزرا پاؤنڈ کی زندگی خطرے میں پڑگئی چنانچہ ایزرا پاؤنڈ کے شاگرد ٹی ایس ایلیٹ اور کئی مغربی دانشوروں نے مل کر ایزرا پاؤنڈ کو نفسیاتی علاج کے مرکز میں داخل کراکے ان کی جان بچائی۔ انہوں نے یہ تاثر دیا کہ ایزرا پاؤنڈ نفسیاتی طور پر بیمار ہے۔ ایزراپاؤنڈ کو اپنے آزادئ اظہار کی قیمت کئی سال نفسیاتی علاج کے مرکز میں بسر کرکے چکانی پڑی۔ سوسن سونٹیکس امریکہ کی ایک اور ممتاز دانشور تھیں، انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کشی پر رکھی گئی ہے۔ ان کے اس مضمون پر ہنگامہ برپا ہوگیا، انہیں غدار قرار دیا گیا اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ نوم چومسکی تو حال ہی کی مثال ہیں، وہ امریکہ کو دنیا کی سب سے بدمعاش ریاست کہتے ہیں، لیکن نوم چومسکی کی حیثیت یہ ہے کہ آپ انہیں امریکہ کے ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے یا مین اسٹریم میں کبھی موجود نہیں پائیں گے، وہ کبھی سی این این، بی بی سی، اے بی سی، سی این بی سی یا فوکس نیوز پر نہیں بلائے جائیں گے۔ چنانچہ امریکہ کی مزاحمت کرنے والے یا اس پر تنقید کرنے والے ہمیشہ امریکہ اور دوسرے ملکوں میں دیوار سے لگے ہی نظر آتے ہیں یا ان کی چیخ و پکار اور مظاہروں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ مغربی دنیا میں فاشسٹ نظریات کے حامل سیاست دان اور سیاسی جماعتیں مسلسل مقبول ہورہے ہیں، ان کی قبولیتِ عامہ بڑھتی جارہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں برسراقتدار آچکے ہیں۔ فرانس، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر یورپی ملکوں میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں عوامی مقبولیت حاصل کررہی ہیں اور بہت جلد یورپ کے اکثر ملکوں میں مقامی ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آسکتے ہیں۔

حصہ