خوفِ آخرت کردار کو سنوارتا ہے

158

یہ حضرت عمرؓ ہیں جو ملتِ اسلامیہ میں حضرت ابوبکرؓ کے بعد سب سے افضل ہیں، جن کے مناقب و فضائل کا بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر میرے بعدکوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے‘‘۔ اِن کی عظمت اور ان کے جلال کے تصور سے قیصر و کسریٰ تھراتے ہیں۔ انہوں نے 22 لاکھ مربع میل پر فتوحات حاصل کی ہیں، اپنے دور کے جابر بادشاہوں، طاقتور امیروں، مسلح فوجوں، کمانڈروں اور تجربہ کار جرنیلوں کو تھرا دینے والا یہ مسلمانوں کا دوسر اخلیفہ خود خوفِ آخرت سے لرزہ براندام ہے۔
بار بار ایک تنکا ہاتھ میں لیتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’کاش میں یہ تنکا ہوتا! کاش میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا! کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا۔ نماز میں جب ایسی سورتیں پڑھتے ہیں جن میں قیامت کی ہولناکی، آخرت کے عذاب، خدا کی جباری و قہاری کا ذکر ہوتا ہے تو انہیں پڑھ کر زار زار روتے ہیں، کبھی کبھی غشی طاری ہوجاتی ہے۔ جب انتقال کا وقت قریب آتا ہے تو مواخذۂ آخرت سے گھبرا اٹھتے ہیں۔ کوئی عرض کرتا ہے ’’اے امیر المومنین! آپ اتنا کیوں گھبراتے ہیں، آپ نے تو بہت نیکیاں کی ہیں۔ خدا کی راہ میں ہجرت کی، جہاد کیا، اسلام کے لیے جان و مال کی قربانیاں پیش کیں۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں: ’’اس سب کے بدلے اگر خدا مجھے برابر برابر بھی چھوڑ دے تب بھی میں خوش ہوں‘‘۔
آپؓ ساتھیوں سے فرمایا کرتے ’’اگر آسمان سے آواز آئے کہ ایک شخص کے سوا تمام لوگ جنت میں جائیں گے تب بھی میں یہ سوچوں گا کہ وہ ایک بدنصیب شخص میں ہی ہوں جو مواخذہ کا شکار ہوگیا ہے۔ مزید فرماتے ہیں: اس طرح اگر آسمان سے آواز آئے کہ ایک شخص کے سوا سب کی گرفت ہوگی تو میں رحمتِ خداوندی سے پُرامید ہوں گا کہ شاید وہ ایک شخص میں ہی ہوں جس پر رحم فرمایا گیا۔۔۔!!

حصہ