(بیر اللہ کا درس(عابد علی جوکھیو

304

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی بنیاد رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ
’’پروردگار! اِس شہر کو امن کا شہر بنا، اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ پروردگار، اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے، (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کردیں، لہٰذا اُن میں سے) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناًتُو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار، یہ میں نے اِس لیے کیا ہے کہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تُو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔ (ابراہیم 35۔37)
قرآن مجید میں ہی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ
’’(اور یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا۔‘‘ (البقرہ 125)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی دعا اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اثر ہے کہ لوگ اس کے گھر کا بار بار سفر کرتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر پیسہ پیسہ جمع کرکے اس کے گھر جاتے ہیں۔ اس کے گھر کے سفر کو عام سفر نہ سمجھا جائے، کیونکہ اس سفر کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے اللہ کے گھر کی حاضری اور اس کی خوشنودی کا حصول۔ اس سفر کی عجب ہی کیفیت اور سرور ہے جو لفظوں میں بیان ہونے سے بالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں اپنے گھر کے لیے بے پناہ محبت رکھی ہے، اور یہ اسی محبت کا مظہر ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس گھر کی چوکھٹ پر حاضر ہونے کے لیے آتے ہیں۔
اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے اور اسے پوری دنیا پر غلبے کے لیے ہی اتارا گیا ہے۔ اسلام کی اجتماعیت کا اصل مظہر اللہ کے گھر میں ہی دیکھا جاسکتا ہے، جہاں رنگ، نسل، زبان، معاشرت کے مختلف ہونے کے باوجود پوری دنیا کے لوگ ایک دوسرے کے لیے بالکل بھی انجان نہیں ہوتے، زبان کے اختلاف کے باوجود بھی لوگ ایک دوسرے کا تعارف رکھنے کو کوشش کرتے ہیں۔ دین اسلام کی اصل، بے غرضی ہے۔ یعنی آپ ہر کام بے غرضی اور ذاتی مطلب کے بغیر کریں۔ اسلام قبول کرنے کی پہلی شرط ہی بے غرضی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے قبولِ اسلام کو کسی چیز سے مشروط نہیں کرسکتا کہ اسے کوئی فائدہ حاصل ہوگا تو اسلام قبول کرے گا۔۔۔ بلکہ اسلام کا معاملہ رضاکارانہ ہے، رضاکارانہ طور پر اسلام قبول کرنا ہے، اور اسی بنیاد پر اپنے اوپر تمام ذمے داریوں کو قبول کرکے انہیں ادا کرنا ہے۔ یہی بے غرضی ہے۔ بیت اللہ میں کئی ایسے مناظر نظر آتے ہیں جن سے اسلام کا حقیقی چہرہ سامنے آتا ہے۔ کوئی بھی تکلیف میں ہو، ہر کوئی اس کی مدد کو پہنچ جاتا ہے۔ انفاق کا معاملہ اپنی مثال آپ ہے، ہر دوسرا شخص اللہ کے بندوں کی ضیافت کرنا چاہتا ہے۔
اسلام میں ایک اصطلاح ’’اخلاص‘‘ کی استعمال ہوتی ہے۔ بے غرضی اور اخلاص یہی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے بندۂ خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، اس کے لیے خیر کی طلب، اس کے کام آنا اور اپنی وسعت کے مطابق لوگوں کی مدد کرنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں یہی اخلاص اور بے غرضی ہی نظر آتی ہے کہ وہ ایک بوڑھی عورت کا سامان اٹھا کر اسے منزل تک پہنچاتے ہیں، تکلیف دینے کے باوجود بیمار کی عیادت کرتے ہیں، زخم کھاکر بھی دعائیں دیتے ہیں۔۔۔ الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اخلاص اور بے غرضی پر مبنی ہے۔ بلکہ یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ قرآن مجید اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہر نبی نے اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے اس بات کا ضرور اعلان کیا کہ اے لوگو! میں تم لوگوں سے اس کے بدلے کچھ نہیں مانگتا، میرا معاملہ تو میرے رب کے ساتھ ہے۔ دین اسلام اپنے ماننے والوں سے بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ معاملات بے غرضی کی بنیاد پر کریں، اس کے بدلے ان سے کچھ بھی طلب نہ کریں اور نہ ہی کسی فائدے کی امید رکھیں۔ یہ آزمودہ بات ہے کہ جب بھی آپ کسی کے ساتھ بے غرضی یا اخلاص کی بنیاد پر معاملہ کرتے ہیں، مدد کرتے ہیں یا اس کے لیے آسانی کا سبب بنتے ہیں، اور اس سے کسی فائدے کی امید نہیں رکھتے، (حالانکہ اس کے بدلے آپ اپنا کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں) تو اس کام کے بدلے اوپر والے کی طرف سے آپ کے لیے آپ کی سوچ سے بھی بڑا فائدہ مل جاتا ہے۔ یہ بات بھی مسلّم ہے کہ فائدہ ضرور ملتا ہے لیکن ہم اس کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ فائدے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہمیں کوئی مالی فائدہ ہی ہو، بلکہ بیماریوں اور آفات سے حفاظت، گھر کے معاملات کا پُرسکون رہنا، ذہنی آسودگی وغیرہ سب فائدہ ہی ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو تمام تر مادی وسائل کی کمی کے باوجود لوگوں کے نظر میں بڑے مرتبے اور مقام والا بنادیتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اللہ کے گھر کا قصد کرنے والوں میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ تمام افراد کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے، ہر کوئی اپنے اپنے طریقے اور اپنی زبان میں اللہ کی مناجات میں لگا ہوا ہوتا ہے، اسے وہاں موجود افراد، روشنیوں اور شور شرابے کا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہی بندے اور اس کے رب کے مابین تعلق کا اعلیٰ مقام ہوتا ہے جب وہ ہر دُکھڑا اپنے رب کے سامنے پیش کررہا ہوتا ہے۔ نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ہے، اس کا اصل مظہر وہیں نظر آتا ہے، ہر کوئی اپنی معراج پر ہوتا ہے۔۔۔ سرگوشیوں، راز و نیاز کی باتوں، دکھڑوں اور احساسِ شکر کا حسین امتزاج بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک وقت کے لیے تو حیات بعد الموت کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ ہر کوئی اپنا نفسی نفسی کا راگ الاپ رہا ہے۔۔۔ دو چادروں کا لباس، سفر، بے سر وسامانی اور جسمانی مشقت امیر غریب، جاہل و عالم، چھوٹے بڑے سب کو برابر لاکھڑا کرتی ہے۔ مساوات کا بھی ایسا منظر کہ کوئی پہچان نہ سکے کہ شاہ کون اور گدا کون۔۔۔ یہ سب اللہ کے مظاہر ہیں جو وہ اپنے بندوں کو دکھاتا رہتا ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ کون ہے جو ان مظاہر کو سمجھتے ہوئے انہیں اپنی زندگی کا لازمی جزو بنادے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے گھر کو لوگوں کے لیے بار بار آنے کی جگہ بنایا ہے وہیں اس کے خدام (سعودی) کو بھی اتنی وسعت دی کہ وہ اللہ کے ان مہمانوں کی ضیافت کرسکیں۔ حرمین شریفین کے تمام تر انتظامات بہرحال مثالی ہیں۔ صفائی سے لے کر سیکورٹی تک تمام معاملات خوب سے خوب تر ہیں۔ حرمین میں انفاق کا معاملہ بھی مثالی ہے۔ ضیوف الرحمن کی خدمت کے لیے حرمین میں بڑے بڑے کاروباری حضرات خود کھڑے ہوکر اشیاء خورونوش تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح وہاں کے تربیتی حلقہ جات بھی عامۃ الناس کی رہنمائی کے لیے مؤثر قدم ہے۔ کیا ہی خوب ہو کہ ہم میں سے ہر فرد اپنی عام زندگی میں وہی اعمال دہراتا رہے جو وہ حرمین میں کرتا ہے، اسی اخلاق کا مظاہرہ کرے جو وہاں کرتا ہے، اسی صبر و شکر کا پیکر بنا رہے جیسا اللہ کے گھر میں ہوتا ہے، اسی طرح لوگوں کے لیے خیر خواہی اور اپنے آپ کو برائیوں سے بچا کر لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والا بنائے جس کی وہاں کوشش کرتا ہے، اسی طرح اگر ہماری مساجد بھی حرمین کا چند فیصد ہی مظہر پیش کریں تو بعید نہیں کہ ہمارا پورا معاشرہ ویسا ہی بن جائے جیسا ایک مخصوص قطعۂ ارضی میں ہے۔
nn

حصہ