(بچوں کو خودپڑھائیں(ثمرین یعقوب

273

بچوں کی تربیت کا مرحلہ والدین کے لیے ازل سے ہی کٹھن ہی رہا ہے، لیکن ہمارے آج کے دور کے بچوں کے بگاڑ کے پس منظر میں والدین کا بچوں کو بے جا لاڈ اور ان کی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل بھی ایک خاص وجہ ہے۔ بچے چوں کہ تازہ و شگفتہ پھوٹتی ہوئی کونپلیں ہوتے ہیں، اس لیے ان کو جس راہ چلادیا جاء،ے اسی پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کے جذبات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکری و عملی تربیت سنجیدہ افکار کی بنیادوں پر استوار نہ کی جائے تو معاشرے کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔ اگر کل کو انہیں زمانے کی سختیاں جھیل کر عظیم انسان بننا ہے تو آج ان کوآنے والے وقت کی پیچیدگیوں سے آگاہ کرنا ہوگا۔ جن ماؤں نے اپنے بچوں کی ٹھوس بنیادوں پر تربیت کی، انہیں تاریخ ہمیشہ سلام کرتی رہے گی۔
آج سہولیات وآسائشوں سے مزیّن دور ہے تو پھر بھی بچے تعلیمی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کا م یابیاں سمیٹنے میں ناکام کیوں؟ بچے آنگن کے پھول ہوتے ہیں، جب تک یہ پھول آنگن میں نہیں کھلتے، گھر بھی بے رونق اور خوشیوں سے خالی ہوتا ہے۔اولاد اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قدر ان سے پوچھیے، جن کے آنگن میں یہ پھول نہیں کھلتے۔ بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو بالکل کورا کاغذ ہوتا ہے، ہم جو چاہیں، اس پر تحریر کردیں۔ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، مگر بچہ اپنے باپ کا بہت اثر لیتا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مُبارک ہے:’’ ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے، اس میں سب سے بہتر تحفہ اس کی تعلیم وتربیت ہے‘‘۔
بچے اپنی اخلاقی قدریں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے اطراف سے بھی سیکھتے ہیں۔ اولاد کی صحیح تربیت والدین کا اوّلین فرض ہے۔ اولاد کی نیک تربیت کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں۔ تربیت یافتہ اولاد والدین کی نیک نامی کا سبب بنتی ہے، ان کے بڑھاپے کا سہارا اور ان کے مرنے کے بعد ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر اولاد کی تربیت اچھی نہ کی جائے تو وبالِ جان بن جاتی ہے۔والدین کی ذمّے داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اخلاقِ حسنہ سکھائیں اور نیک تعلیم دیں۔ اگر آپ پڑھی لکھی ہیں تو شوقیہ جاب کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے بچوں کو خود پڑھائیں۔ اس طرح آپ اپنے بچوں کے قریب ہوکر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتی ہیں۔ ان کی فطرت کے مطابق مدلل انداز میں سمجھا سکتی ہیں، ان کی دوست اور ٹیچر بن کر ۔ استاد کا رتبہ ماں باپ کے برابر ہے۔ اکثر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچے ان کے کنڑول میں نہیں آتے۔ ایسی مائیں بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور لعن و طعن کرنے سے پرہیز کریں، کیوں کہ بچے اس سے چڑ جاتے ہیں اور بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ ان کی بات کو بھی اہمیت دیں، انہیں بھی احساس دلائیں کہ وہ بھی اہم ہیں، ان پر بھی ذمّے داریاں ہیں۔ بوقت ضروت ان کے ساتھ کھیلیں۔ بعض اوقات ایسے گیم کھیلیں، جن سے ان کی ذہانت میں اضافہ ہو، کبھی ایسے کھیل بھی کھیلیں، جن سے ان کی جسمانی مشق بھی ہو اور وہ جسمانی طور پر بھی مضبوط ہوں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اطفال سے بہت محبت فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جنت میں ایک گھر ہے، جسے دارالفرح (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے، اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے، جو اپنے بچوں کو خوش رکھتے ہیں‘‘۔ایک اور موقع پر فرمایا: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں، جو چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کے ساتھ عزّت و اکرام کا معاملہ نہ کرتا ہو‘‘۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی غلطی کل کو بہت بڑا خسارہ ہے۔ اس طرف خصوصی توجہ دیں۔ لڑکا ہو یا لڑکی بلاامتیاز توجہ دیں۔

حصہ