(باب الاسلام سندھ داناؤں کی نظر میں(عبدالتواب شیخ

280

کتاب
:
تصنیف و تالیف
:
عبدالتواب شیخ
صفحات
:
158 قیمت 200 روپے
ناشر
:
عبدالرب شیخ، سکرنڈ
فون
:
0300-3216410
ہم جن افراد اور صحافیوں کی تحریریں عرصۂ دراز سے پڑھ رہے ہیں ان میں ایک نمایاں نام جناب عبدالتواب شیخ مدظلہ کا ہے۔ آپ اندرون سندھ کی زندگی اور سیاست پر عرصے سے لکھ رہے ہیں۔
جناب عبدالتواب شیخ 2 مئی 1955ء کو سکرنڈ میں جناب ابوالکلام شیخ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے بعد روزنامہ جسارت (1979ء تا 1988ء)، روزنامہ امت (1995ء تادم تحریر)، ہفت روزہ تکبیر (1989ء تادمِ تحریر)، ہفت روزہ سیاسی لوگ لاہور، ہفت روزہ حقیقت بہاول پور، ہفت روزہ سکرنڈ ٹائمز کراچی میں بطور صحافی منسلک رہے۔ ان کے قلم سے درج ذیل کتابیں نکلی ہیں: سندھ کی ریتیں رسمیں، قلم کہانی، باب الاسلام سندھ داناؤں کی نظر میں، تذکرہ منصورہ ہالہ۔
کتاب میں جو چشم کشا قیمتی مضامین شامل کیے گئے ہیں وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:
’’سندھ کی سیاست میں لسانی رجحان، محمد صلاح الدین شہید۔ کیا سندھی ایک الگ قوم ہیں، جسٹس (ر) قدیر الدین احمد۔ کراچی کو دارالحکومت بنانا، سندھ مسئلے کا حل، پیرپگارو۔۔۔ تحریر عبدالتواب شیخ۔ سندھ میں دھاریا کون سندھ، سندھو۔۔۔؟ مولانا ابوالجلال ندوی۔ سندھ پر رب کی نوازشات، عبدالتواب شیخ۔ سندھ میں فساد کون پھیلا رہا ہے، عبدالتواب شیخ۔ ذہنی کثافت، عبدالکریم ایڈووکیٹ۔ سندھ کی ثقافت تبدیل ہو رہی ہے، عبدالتواب شیخ۔
کتاب میں ان اصحاب کے انٹرویو بھی شامل کیے گئے ہیں:
سید بدیع الدین شاہ راشدی (مرحوم) شیخ العرب والعجم (جھنڈے والے)۔ مولانا جان محمد عباسی (مرحوم) امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ۔ جی ایم سید (مرحوم) معروف سیاست دان۔ ڈاکٹر ممتاز علی میمن، سابق امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ۔ سید امداد محمد شاہ (مرحوم) دانشور فرزند جی ایم سید۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید، جمعیت علماء اسلام۔ علامہ حسن ترابی اسلامی تحریک پاکستان (سندھ)
پروفیسر ڈاکٹر احسان الحق شعبہ عربی جامعہ کراچی کی وقیع رائے کتاب کے متعلق یہ ہے:
’’سندھ داناؤں کی نظر میں‘‘ محض شخصیات کی تاریخ نہیں بلکہ اس خطہ کی تاریخ کے تناظر میں ایک بھرپور جائزے کا نام بھی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ سندھ میں صدیوں سے عہد بہ عہد کون سی قومیں آباد ہوئیں اور تاریخ سندھ کا حصہ بنتی چلی گئیں۔ یہ کتاب آپ کو یہ بھی بتائے گی کہ تقسیم ہند کے بعد یہاں کیا کیا مسائل پیدا ہوئے اور ان کا حل کیا ہے۔ سندھ جو محبت و آشتی اور صوفی منش مزاج رکھنے والوں کا مسکن ہے اس کا محبت بھرا چہرہ داغدار کرنے کی کوشش کرنے والے قوم پرست آخر اپنی کوششوں میں کیوں کامیاب نہیں ہوئے! غرض یہ کہ عالمگیریت کے تناظر میں سندھ کا بیدار شعور اب نئی کروٹیں لے رہا ہے اور یہ شعور اسے مادی و روحانی اقدار کے بام عروج تک لے جائے گا اور تنگ نظری اور تعصبات کی سیاہ بدلیاں اپنی موت آپ مرجائیں گی۔‘‘
جی ایم سید کے انٹرویو سے ایک اقتباس
’’سوال: جام صادق اور موجودہ حکمران مظفر حسین شاہ کی حکمرانی میں کیا فرق ہے؟
جواب: جام صادق علی سیاست کرنا جانتے تھے اور وہ ہر داؤ پیچ سے واقف تھے۔ جام نے مخدوم (طالب المولیٰ) خاندان کو ایک کروڑ روپیہ سیاسی رشوت کے طور پر، اور ایک کروڑ ادبی بورڈ کے حوالے سے جس کے سرپرست مخدوم تھے، دے کر انہیں مخالفت سے باز رکھا، اور اسی طرح پیر پگاڑو کو بھی ایک کروڑ روپیہ دیا۔ جام صادق علی دلیر سیاست دان تھے، وہ میرے پاس اکثر آتے رہتے تھے، جب کہ مظفر حسین شاہ جن کے والد غلام حسین شاہ میرے پرسنل سیکریٹری ہیں، وہ میرے پاس تو کجا، سن (میرے گاؤں) کے روڈ سے گزرنے سے ہی ڈرتے ہیں، جب کہ آج تک جتنے حکمران ہوئے ہیں وہ مجھے مناتے اور پیش کش کرتے رہے ہیں۔ ویسے ایک واقعہ جو دلچسپی سے خالی نہیں آپ کو سناتا ہوں۔ رات کے ایک بجے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین میرے پاس اسپتال میں خفیہ طور پر ملنے آئے، تھوڑی دیر کے بعد جام صادق علی بھی آئے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے، اور پھر جام صادق علی نے دیکھتے ہی دیکھتے الطاف حسین کے پیروں کو ’’پیر صاحب‘‘ کہہ کر چھوا تو الطاف نے جام کے ہاتھ پکڑ کر چومے اور دونوں کے چہروں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ دونوں شیر و شکر ہوکر حکمرانی کرتے رہے اور ایک دوسرے کو ۔۔۔ بناتے رہے۔‘‘
اس اقتباس سے سندھ اور پاکستان کی اندرونی گندی سیاست کی مکروہ تصویر سامنے آتی ہے۔ اللہ معاف کرے۔
کتاب مجلّد ہے۔ سفید کاغذ پر طبع ہوئی ہے۔ لائقِ مطالعہ ہے۔
nn

حصہ