قاضی صیب (قسط-5)۔

331

کیا انھیں اپنے بعد اولاد کے لیے کسی مختلف اور سخت طرز عمل کا اندیشہ تھا؟
کیا انھیں اپنے بعد اولاد کے لیے جماعت کی طرف سے کسی مختلف اور سخت طرز عمل کا اندیشہ تھا؟ ان کے صاحبزادے آصف لقمان قاضی جو نوشہرہ میں ان کی نشست پر ان کے مضبوط جانشین ہیں، پہلے امیر ضلع بھی رہے مگر قاضی صاحب کی موجودگی میں نظم جماعت کے عتاب کا نشانہ بنے اور قاضی صاحب نے خاموشی سے بیٹے کی سبکدوشی برداشت کر لی۔
محترمہ سمیحہ راحیل قاضی صاحبِ فکر، صاحب الرائے اور بے پناہ صلاحیتیں رکھنے والی پاکیزہ روح ہے۔ وہ جماعت کی وومن کونسل کی سربراہ رہیں۔ قومی اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ جماعت کی خواتین میں شاید ہی کوئی ان جیسی متحرک، ووکل اور مدلل بات کرنے والی خاتون ہو،مگر وہ بھی اسمبلی کی رکنیت کے دوران تنقیدی تیروں کا نشانہ بنتی رہیں کہ قاضی صاحب کی بیٹی ہیں۔ ایک بار قومی ڈائجسٹ کے لیے انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا قاضی حسین احمد کی بیٹی ہونا اگر کریڈٹ نہیں تو ڈس کریڈٹ بھی نہیں۔ جماعتی مزاج یہ ہے کہ جونہی کوئی عوامی سطح پر مقبول ہونے لگتا ہے یا معاشرتی طور پر قبولیت کی سند پاتا ہے، اس کے لیے شدید تنقید اور مزاحمت شروع ہو جاتی ہے۔
آزادی رائے کی اجازت
یہی وجہ ہے کہ جماعت میں سیکڑوں باصلاحیت نوجوان ہونے کے باوجود شہرت، مقبولیت پانے والے یا میڈیا پر نمایاں ہونے والے نام گننے کے لیے انگلیوں کے پوروں کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
کہا جاتا ہے کہ جماعت میں رائے رکھنے کی آزادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی شوریٰ میں ایک لابی ہمیشہ ایسی رہی ہے جن کی صلاحیت جماعت کو منصورہ اور اضلاع میں ضلعی دفاتر کے اندر بند رکھنے میں ہی صرف ہوتی رہی ہے۔ جماعتی روایات اور سخت تربیت کے نام پر ان بزرگوں نے ہمیشہ پورے اخلاص سے گفتگو کی۔ ان کی قیادت ایف سی کالج لاہور کے ایک سابق پروفیسر کرتے رہے۔ لاہور جماعت کے ایک ڈاکٹر صاحب بھی اس کارخیر میں شریک رہے اور قاضی صاحب اور جماعت کے نوجوانوں کے لیے مشکلات کا باعث بنتے رہے۔یہ بات ضرور حیرت کی ہے کہ شوریٰ کے اجلاس کے دوران ہونے والی گفتگوئیں عام اراکین تک کیوں اور کیسے پہنچتی اور دوسروں کی دل آزاری کا باعث بنتی رہی ہیں۔ایک بات جو سمجھنے کی ہے کہ شوریٰ اور اراکین شوریٰ کو اپنی حیثیت کا نئے سرے سے ادراک کرانا چاہیے۔ یہ مشاورت کا ادارہ ہے۔ حکمرانی یا احتساب کا نہیں۔ امیر صاحب ان کے ماتحت نہیں ہیں۔ ان کے مشورے اور آسانی کے لیے شوریٰ اور آسانی کے لیے شوریٰ کا حصہ ہیں۔ مشورہ دینے والا جب ہر صورت اپنی بات منوانے کی کوشش کرے تو خرابی کے دروازے تو ضرور کھلیں گے۔
قاضی صاحب کو جمعیت کے نوجوانوں سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کا اظہار بھی کرتے اور خصوصی شفقت بھی۔ جواباً ان کو بھی وہ محبت ملی جس کا کبھی کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ’’ہم بیٹے کس کے، قاضی کے‘‘ جیسا والہانہ نعرہ اسی محبت کا جواب تھا۔ جمعیت نے میاں طفیل صاحب کا زمانہ بھی دیکھا۔ جنرل ضیا کی حمایت نہ کرنے اور ریفرنڈم پر جماعت پالیسی کی مخالفت کے باعث عملاً کافی دوریاں واقع ہو گئی تھیں۔ قاضی صاحب کے آنے کے بعد جمعیت دفعتاً ہر اول دستہ بن گئی۔ مگر ۱۹۹۳ء کے انتخاب میں اسلامک فرنٹ کی ناکامی کے بعد جمعیت کے لڑکوں میں بہت بے چینی تھی۔ ایک بار جمعیت کے اجتماع ارکان میں قاضی صاحب کا پروگرام تھا۔ تب کے ناظم اعلیٰ نے ماحول کی حرارت محسوس کر کے بطور خاص تاکید کی کہ روئے زمین پر ہمارے لیے وہ سب سے محترم ہستی ہیں۔ سوالات کی اجازت ہے مگر تحریری طور پر، احترام اور آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔
قاضی صاحب نے آتے ہی ماحول کی گھٹن کو محسوس کیا اور کہا کہ میں آج خطاب نہیں کروں گا بلکہ اپنے بچوں کے سوالات کے جواب دوں گا۔ وقت کی کوئی قلت نہیں ہے، آپ سوال کریں گے میں جواب دوں گا اور ان شاء اللہ اپنے عزیزوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا۔ سوال آپ کھڑے ہو کر براہ راست کریں۔ اس کے فوراً بعد سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بعض سوال سخت ہی نہ تھے، انداز بیان بھی گستاخی کی حدوں کو چھونے لگا تھا۔ یہاں تک کہ سننے والے بھی سوال کرنے والے کو ناراضی کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ قاضی صاحب کا کمال یہ تھا کہ نہ ماتھے پہ شکن آئی نہ لفظ سخت ہوئے۔ تین گھنٹے کے بعد حالت یہ تھی کہ شاید ہی کوئی رکن ایسا ہو جس نے بڑھ کر والہانہ انداز میں پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے قائد کو گلے نہ لگایا ہو، ان سے ہاتھ نہ ملایا ہو۔
قاضی صاحب کے صاحبزادے آصف لقمان قاضی
کی گواہی بھی بے حد اہم ہے وہ بتا رہے تھے
’’قاضی صاحب ہمارے لیے صرف ایک شفیق باپ ہی نہیں تھے بلکہ وہ ہمارے عظیم قائد بھی تھے۔ وہ ہمارے مربی بھی تھے اور ہمارے رہنما بھی تھے۔ وہ آئینے کی طرف شفاف تھے۔ وہ جیسے گھر میں تھے، ویسے ہی باہر تھے اور جیسے باہر تھے اسی طرح گھر میں رہے۔ وہ ایک ہی چہرہ رکھتے تھے اور سب کے ساتھ ایک ہی چہرے سے ملتے تھے۔ انھوں نے پوری زندگی جس مقصد کے لیے وقف کی، اس پر وہ انتہائی حد تک مطمئن تھے اور یہی وجہ تھی کہ اپنے خاندان اور گھر والوں کو اس راستے پر گامزن کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے رہے۔ ان کی یہی محنتیں اور کاوشیں تھیں کہ آج ان کی اولاد اور پورا گھرانہ ان کے مشن کو لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قاضی صاحب خود بھی حقیقی معنوں میں نبی کریمﷺ کے سچے عاشق تھے اور وہ ہر ایک کو اسی رنگ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی اپنی اولاد بھی اس کا حقیقی نمونہ ہو اور اسی کوشش میں ہر وقت لگے رہتے تھے۔
میں آج بھی سوچتا ہوں تو تشکر سے سر جھک جاتا ہے کہ قاضی صاحب نے بچپن سے ہماری تربیت ان خطوط پر کی، جن پر وہ نبی کریمﷺ کے ایک سچے امتی کو دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے تو قاضی صاحب ہم سب بہن بھائیوں کو بٹھاتے۔ فارسی اور اردو کے خوبصورت اشعار سناتے اور پھر ان اشعار کا ترجمہ اور اس کی تفسیر کرتے۔ اس کے بعد ہم سے باری باری پوچھتے اور ہم ان کے سامنے وہ اشعار اور ان کا ترجمہ دہراتے اور قاضی صاحب اسے بڑے غور سے سنتے۔ اگر کہیں ہم سے غلطی ہو چکی ہوتی تو اس کی اصلاح کرتے۔ جس طرح قاضی صاحب نے اپنے والد مکرم سے گھرپر ہی بہت سے علوم سیکھ لیے تھے، اسی طرح ہم نے بھی قاضی صاحب سے بچپن میں بہت کچھ سیکھ لیا تھا
پریس کلب لاہور میں بے ساختہ جواب
پریس کلب لاہور میں اسلامک فرنٹ کا تعارفی پروگرام تھا۔ قاضی صاحب نے اپنے مخصوص پُر جوش انداز میں اسلامک فرنٹ کا تفصیلی تعارف کرایا۔ صحافی ہمیشہ سے بے لحاظ اور بے مروت ہوتے ہیں۔ سوالوں کا آغاز ہوا تو پہلا ہی سوال کسی میزائل کی طرح آیا۔ سوال کرنے والے کے لفظ اور جملے نامناسب حد تک ناگواری کے زہر میں بجھے ہوئے تھے۔ ’’ آپ کے پلّے ہے کیا؟ ووٹ کوئی دیتا نہیں۔ آپ کے ساتھ کوئی چلتا نہیں، آپ کا پرابلم کیا ہے پھر نئے نام سے آگئے ہیں۔‘‘ قاضی صاحب نے کیا محسوس کیا، کیسے ضبط کیا، بولے تو صرف اتنا:
’’اک عرضِ تغافل ہے، سو وہ اُن کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کی ۵؍ہزار روایات
ایسے مشورے جو حملہ نما اور حوصلہ شکن ہوتے ہیں، اندرون ملک سے ہی نہیں بیرون ملک سے بھی آتے تھے۔ ایک بار عرب دانشوروں کے ایک وفد نے مشورہ دیا کہ سیاست چھوڑ کر آپ کوملک بھر میں اسکول کھولنے چاہئیں۔ تعلیم اور اصلاح کا کام کرنا چاہیے، اس کی زیادہ فضیلت ہے۔ قاضی صاحب نے پورے سکون سے ان کی بات سنی اور بولے: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے ۵؍ہزار احادیث کی روایت ہم تک پہنچی ہے۔ حضرت عمرؓ اس معاملے میں پیچھے ہیں مگر کیا حضرت عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ اپنے کام، اس کے اثرات میں برابر ہیں؟‘‘ محفل پہ سناٹا چھا گیا۔ دوبارہ کسی نے اس موضوع پر بات آگے نہیں بڑھائی۔
پیپسی کولا والوں کی خدمت کے لیے نہیں
طیب شاہین پنجاب یونیورسٹی اور صوبہ پنجاب کے ناظم رہے۔ پڑے باکمال، تیز طرار اوربہادر ناظم ہوا کرتے تھے۔ تعلیم کے بعد وہ پیپسی کولا میں چلے گئے اور اپنی محنت اور لیاقت سے وہاں جنرل مینیجر بن گئے۔ بعدازآں امریکا چلے گئے۔ مزید پڑھائی کی اور بزنس کا تجزیہ کرنے والی پوزیشن پہ فائز ہو گئے۔ ایک بار وہ منصورہ آئے، ایوب منیر نے کہا، قاضی صاحب !طیب شاہین آئے ہیں، تب ان کو گئے کئی سال ہو چکے تھے۔ مسکرائے، اور بولے، پیپسی کولا والے۔۔۔ پھر کہا، ’’میں نے اپنے بیٹے پیپسی کولا والوں کی خدمت کے لیے تو تیار نہیں کیے تھے۔‘‘ یہی سوچ تھی کہ ان کو باصلاحیت نوجوانوں کی ایک ٹیم ہر جگہ دستیاب ہو جاتی تھی جن سے وہ محبت کرتے، ان کا خیال رکھتے اور وہ تحریک کا اثاثہ بنتے۔ موٹیویشن یا ترغیب کے لیے وہ قرآن، حدیث، اقبالؒ ، مولانا روم ؒ اور اپنی محبت کا استعمال کرنا جانتے تھے۔
مولانا طاہر القادری پر تنقید
قاضی صاحب کی وفات کے بعد وقتی طور پر تنقید کا محاذ خاموش ہے۔ تنقید اور بے وجہ تبصروں کے آسانی سے اپنائے جانے والے کلچر میں قاضی حسین احمد ایک مضبوط بند تھے۔ انگریزی ادبیات کے استاد اور مصنف پروفیسر محمد ایوب منیر نے بتایا کہ کئی سال قبل ایک محفل میں کسی نے مولانا طاہرالقادری کے خلاف بات کی۔ قاضی صاحب نے لمحہ بھر کی تاخیر گوارا کیے بنا پروفیسر سے پوچھا، ’’یہ آج کل پھول کے ایڈیٹرصاحب کہاں ہیں؟ یہ وہی پرچہ ہے نا جسے کسی زمانے میں امتیاز علی تاج نے شروع کیا تھا۔‘‘ انھوں نے نہ صرف بات پلٹ دی بلکہ محفل کے شرکا کو ناگوار گفتگو سے بچنے کے آداب سے بھی آگاہ کر دیا۔
اوریا مقبول جان کا پُل
معروف کالم نگار اوریا مقبول جان نے قاضی صاحب سے اپنے تعلق خاطر کا پل اقبالؒ کو قرار دیا۔ سید مودودیؒ نے اپنی تحریر میں اقبال ؒ کی ایک ایسی تصویر پیش کی جو صرف صاحب نظر شخص ہی دیکھ سکتا ہے۔ مجھے جماعت اسلامی کے بہت سارے زعما سے صحبت کا شرف حاصل رہا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے بعد اگر میں کسی شخص کو بصیرت اور صاحب نظری کے مقام پر دیکھتا ہوں تو قاضی صاحب تھے۔ علم و تقویٰ اپنی جگہ لیکن رسولﷺ کی جو حدیث ہے کہ ’’مومن کی فراست سے ڈرو اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔‘‘ وہ اس کی عملی تصویر تھے۔ مقام عرفان وہ چیز ہوتی ہے جہاں پہنچ کر حق الیقین کی حالت آ جاتی ہے جہاں پہنچ کر داعی کے لیے دعوت کا کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ تسبیح لے کر بیٹھ جاتا ہے کہ وہ یقین کی منزل پا چکا ہوتا ہے۔ لیکن میں نے مقام عرفان پر پہنچ کر سید مودودیؒ کے علاوہ کام کرتے ہوئے کسی اور کو نہیں دیکھا۔ دوسری بات قاضی صاحب کی تھی کہ اللہ نے آپ کو یقین کی منزل سے روشناس کر دیا تھا اور وہ دنیا کی اغراض سے بالا ہو کر اللہ کے یقین پر کام میں مصروف تھے۔ اس مقام پر پہنچ کر دعوت کا کام کرنا اصل میں پیغمبرانہ کام ہے۔ یہ قاضی صاحب کی ذات کے اندر موجود تھا۔

(جاری ہے)

حصہ