(ماں (حافط محمد ذیشان

277

میں وہ لفظ کہاں سے ڈھونڈ کرلاؤں،جو تیری شان میں ہوں ادا ماں میری محبت،تیری محبت کے سامنے شرمندہ سی لگنے لگتی ہے۔ماں بہت اونچی شان والی ہستی ہے ماں کی شان کا اندازہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سے لگا سکتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری والدہ حیات ہوتیں میں عشا کی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ماں کی آواز آتی کہ “محمد” میرے پاس آؤ تو میرا سر اگر سجدہ میں بہی ہوتا تو میں اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔ آج کل ہم سال میں ایک مرتبہ کارڈ اور پھول دے کر مدر ڈے سلیبریٹ کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی بہت بڑا کام کر لیا ہو۔ ماں باپ کی حقیقی محبت ادب و احترام ہی دنیا میں کامیابی و آخرت میں نجات کی ضمانت ہے ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ خدا وندکریم جب انسان سے اپنی محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے لیے ماں کو مثال بناتا ہے۔ ماں وہ ہے جس کوایک نظر پیار سے دیکھ لینے سے ہی ایک حج کا ثواب مل جاتا ہے۔ جب بچہ ماں کے پاس ہوتا ہے تو ہر غم سے دور ہوتا ہے۔ ماں خود بھوکی رہ لے گی مگر اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کہانا کہلائے گی۔
حضرت موسی’ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی’ سے پوچھا جنت میں میرے ساتھ کون ہو گا؟ اللہ تعالی نے فرمایا فلاں قصاب ہو گاآپ کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے وہاں دیکھا تو ایک قصاب گوشت بیچنے میں مصروف تھا اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا کپڑے میں لپیٹا اور گہر کی طرف روانہ ہو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بطور مہمان اس کے گہر چلے گئے گھر پہنچ کر اس قصائی نے گوشت پکایا پھر روٹی پکا کر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کیے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ جہاں ایک نہایت کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ قصاب نے اسے بمشکل سہارا دے کر اٹھایا اور ایک ایک لقمہ کر کے کھانا کھلایا اور اپنی ماں کا منہ صاف کیا۔ ماں نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جس سے قصاب مسکرایا۔ حضرت موسی’ علیہ السلام جو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا ۔ جس پر تو مسکرایا؟ قصاب بولا اجنبی! یہ عورت میری ماں ہے گھر پر آنے کے بعد سب سے پہلے ماں کے کام کرتا ہوں جس سے وہ خوش ہو کر مجھے دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رکھے گا جس پر میں مسکرا دیتا ہوں میں کہاں اور موسیٰ کلیم اللہ کہاں۔ماں ایک مہتاب کی مانند ہے ماں کبھی کسی کو بدعا نہیں دیتی۔ جس نے ماں کا دل دکھایا اس کو اس کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔
ماں کتنی ٹھنڈک ہے تیرے نام کے ان حرفوں میں
لب پہ آتے ہی تپتی دھوپ بھی گھنی چھاؤں لگنے لگتی ہے
تیرا سایہ رہے مجھ پر میری زندگی کی آخری حد تک
ماں تجھے اک دن نہ دیکھوں تو زندگی بْری لگنے لگتی ہے
اے میری پیاری ماں تْو کیا جانے تیری دعا میں کیا اثر ہے
اِدھر تو ہاتھ اٹھائے، اْدھر ہر مشکل مجھےآساں لگنے لگتی ہے
ایک تجھے راضی رکھنے سے میرا دامن بھرگیا خوشیوں سے
تیری محبت کے سامنے دنیا کی ہرمحبت جھوٹی لگنے لگتی ہے
جوہومیرے بس میں نثار کردوں میں جہاں بھر کی نعمتیں
دنیا کی ہر نعمت تیرے رتجگوں سامنے ہیچ لگنے لگتی ہے
ماں تْو کہتی ہے میں تیری ہستی کا مان ہوں،غرورہوں
یہ سوچ کے مجھے یہ زندگی کچھ اور بھی اچھی لگنے لگتی ہے

حصہ