(اسلامی نطامت تعلیم (رضوانہ قائد

572

اسلامی نظامتِ تعلیم (آئی این ٹی) کی جانب سے منعقدہ سیمینار میں اس کی ڈائریکٹر شیبا طاہر کے ذریعے اعزازی شرکت کی دعوت ملی۔ انتہائی مصروفیت کے باعث علم سے قریبی دوستی کے باوجود بھی فوری طور پر تو معذرت ہی کرنا پڑی، مگر کچھ میزبان کی محبت اور کچھ بارش کی رحمت کہ پروگرام کی تاریخ ایک ہفتہ بڑھا دی گئی اور ہمارے لیے اس میں شرکت نسبتاً آسان ہوگئی۔
الحمدلِلّٰہ، چھٹی کے دن وقتِ مقررہ صبح 11 بجے ہم فاران کلب میں موجود تھے۔ میزبان کی جانب سے پسِ حجاب مُسکراتی آنکھوں کے ساتھ پُرتپاک استقبال نے فوراً ہی اجنبیت دور کر دی۔
سیمینارگاہ اپنے آغاز سے ہی اہلِ علم کی محفل کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ہال سے ملحق برآمدے کو پروگرام کی مناسبت سے نہایت عمدگی کے ساتھ آراستہ کیا گیا تھا۔ استقبالیہ پر ہشاش بشاش خواتین خوش آمدید کے لیے موجود تھیں۔ کچھ ہی فاصلے پر سیمینار میں مدعو کیے جانے والے اداروں کے الگ الگ استقبالیے موجود تھے۔ ہر ایک پر ان کے تعارفی مواد (کتابچے و دیگر مطبوعات) کے ساتھ بریفِنگ کے لیے سہولت کار بھی موجود تھے۔
سیمینار ہال میں داخل ہوتے ہی علم پروَر ماحول کا فخریہ احساس ہوا۔ اسٹیج تازہ پھولوں اور تعارفی پوسٹرز کے ساتھ نفاست سے سجایا گیا تھا۔ مہمانوں کی نشست گاہ کا انتظام بھی قابلِ تعریف تھا۔ اسٹیج کے تعارفی پوسٹر پر موجود شعر سیمینار کی قدر و قیمت کو واضح کرنے کے لیے خوب تھا:
کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اسلامی نظامتِ تعلیم ( آئی این ٹی ) نجی شعبے میں تعلیمی اداروں میں ملک گیر نیٹ ورک ہے۔ ان کے مقاصد میں تربیتِ اساتذہ، معیاری تعلیم کا فروغ اور اسکول انتظامیہ کے لیے مشاورتی خدمات کی فراہمی شامل ہیں۔
منعقدہ سیمینار بعنوان ’’تعلیمی اداروں میں سُنتِ نبویؐ پر عمل‘‘ آئی این ٹی کی ان ہی تعلیمی خدمات کا مرکزی سطح پر ایک تعارفی پروگرام تھا۔ اس سیمینار میں اسکول قائدین (سربراہان / سرپرست)، منتظمین اور ماہرینِ تعلیم کو مذکورہ موضوع کے تحت اپنے تجربات پر تبادلۂ خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ سامعین میں مختلف اسکولوں سے تعلق رکھنے والی مُعلّمات اور بچوں کی مائیں شامل تھیں۔ سیمینار کا بنیادی مقصد تعلیمی اداروں میں سُنّتِ نبویؐ کی روشنی میں صحت مند ماحول اور تعمیرِ کردار کا فروغ تھا۔ نیز، تجربات کے تبادلے کے ذریعے باہمی استفادے اور پیش قدمی کے مواقع فراہم کرنا بھی اس کا حصہ تھا۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔ میزبان نے آئی این ٹی اور منعقدہ سیمینار کا مختصر تعارف پیش کیا۔ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصے میں اسکولوں کے سربراہان نے اپنے اداروں میں انتظام و انصرام اور تدریس میں سُنت طریقوں کی ترویج سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ دوسرے حصے میں تعلیمی تحقیقی اداروں کے سربراہان اور ماہرینِ تعلیم نے متعلقہ موضوع پر اپنی سرگرمیوں کا جائزہ پیش کیا۔
’’اپنے اداروں میں سُنت طریقوں پر ہم کس طرح عمل کرتے ہیں؟‘‘ یہ تھا وہ مرکزی نکتۂ فکر، جس کے تحت مقررین نے دیے گئے قلیل وقت میں ملٹی میڈیا پریزینٹیشن کے مدد سے اپنی کاوشوں کو جامع انداز میں پیش کیا۔
ان اسکول سربراہان میں الفرقان اسکول کی عالیہ رحمان، ڈی ایم ایس اسکول کی رشیدہ فاروق، سِوِک اسکول کی حریم فاطمہ، ایس ایچ ایس اسکولنگ سسٹم کی فوزیہ آصف، بیکن لائٹ اکیڈمی کی یاسمین قاضی، ہیپی ہوم اسکول کی تہمینہ خالد اور ذِیل اسکول کی سُہیرا بابر شامل تھیں۔
ان مقررین کے مطابق موجودہ دور میں طاغوتی قوتیں نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ, اسلام اور مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ان چیلنجز کے مقابلے کے لیے سنت طریقوں پر عمل پیرا ہونا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کے تعلیمی اداروں میں ساتر لباس پر مشتمل یونیفارم ہیں، ابتدائی عمر سے بچوں کو اسلامی آداب، دعائیں اور قرآن ناظرہ سکھانے کا اہتمام ہے، آپس میں سلام کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام ہے، کھانے اور کھیل کے وقفوں میں آپس کے تعلقات کو سنت طریقوں سے بہتر بنایا جاتا ہے، جب کہ ویلنٹائن ڈے اور بسنت جیسے غیر اسلامی تہواروں کے فروغ کی روک تھام کی جاتی ہے۔ مخلوط تعلیم کے نقصانات سے بچنے اور حجاب کے فروغ کے لیے طلبا و طالبات کے لیے علیحدہ کمرۂ جماعت یا الگ عمارتیں ہیں۔ سات سال تک بچوں کو مستقل مشقوں کے ذریعے وضو اور مکمل نماز سکھائی جاتی ہے، ناظرہ قرآن کا اہتمام ہے، نَوعمر بچوں کو قرآن کی تفسیر بھی خصوصیت کے ساتھ سکھائی جاتی ہے۔ بچوں کی تدریس کے ساتھ تربیت کے احساس کو گہرا رکھنے کی غرض سے اساتذہ کی بھی اخلاقی تربیت کے لیے فہمِ دین کی کلاسز رکھی جاتی ہیں، پیرنٹ ٹیچر میٹنگ ( پی ٹی ایم ) کے ذریعے والدین خصوصاً ماؤں کو بھی بچوں کی تربیت کے عمل میں شریک رکھا جاتا ہے۔
سیمینار کا ایک حصہ ختم ہوتا ہے، مگر یکے بعد دیگرے دل چسپ تقاریر کے تسلسل نے سامعین کی دل چسپی کو قائم رکھا۔ اسی دوران حاضرین کے ذوقِ طبع کے لیے بہت ہی ذائقے دار کافی سمیت مختصر ناشتہ ان کی نشستوں پر ہی فراہم کیا گیا۔
سیمینار کے دوسرے حصے میں تعلیمی تحقیقی اداروں کے سربراہان کو دیے گئے موضوع کے تحت اپنی خدمات کا جائزہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔
ان سربراہان میں رِفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی کے ریسرچ فیلو ارشد بیگ، آفاق کے ضیاء الحسن قادری، ایجوکیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ( ای آر آئی ) کی صفوریٰ نعیم، گرین کریسنٹ ( سی ای آر ڈی ) کی سربراہ نگہت فاطمہ، آزاد تعلیم داں وِنگ کمانڈر جمشیدالرحمان شامل بھی تھے۔
گرین کریسینٹ، ( سی ای آر ڈی ) کی نگہت فاطمہ نے اپنے ادارے کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے تحت 146 اسکول کام کرتے ہیں اور سی ای آر ڈی اس کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس ادارے کے تحت قرآن و سنت کے احکام کو مدِنظر رکھتے ہوئے اساتذہ اور طالب علموں کی تیاری کا کام کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹیچرز ٹریننگ ورکشاپس اور معاون کتابچے ڈیزائن کیے جاتے ہیں. انہوں نے ملٹی میڈیا کے ذریعے اپنا ایک لیسن پلان ( منصوبہ برادرس ) اور ایک کتاب کا ’’پیشِ لفظ‘‘ دکھایا۔ یہ ان کی تدریسی و تربیتی کوششوں کی اچھی عکاسی تھی۔
سوسائٹی فار ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر ( ایس ای ڈبلیو ) کے تحت چلنے والے بیٹھک اسکولز کی سربراہ معینہ گرامی نے اپنے ادارے کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 1996میں قائم ہونے والے بیٹھک اسکول اب 138 اسکولز کے نیٹ ورک پر مشتمل ہیں۔ ان کے کام کا مرکز معاشرے کے مشکل ترین طبقے کچی آبادی کے بچے ہیں۔ یہاں کے بچوں اور اساتذہ کی تعلیم و تربیت ان کے مخصوص ماحول کے پیشِ نظر کی جاتی ہے، چناں چہ یہاں ہفتۂ صفائی، وسائل بچاو، ہفتۂ کتب بینی، کمیونٹی آگہی اور تربیتِ معاشرت کے عنوانات کے تحت مختلف دل چسپ سرگرمیاں رکھی جاتی ہیں۔
آفاق کے ضیاء الحسن قادری نے اپنے ادارے کے تعارف کے ساتھ تدریس و تربیت کے حوالے سے خدمات کو پیش کیا۔ انہوں نے معلّم کے روّیے میں نرمی کے پہلو پر سُنت طریقوں اور احادیث کے ذریعے خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی۔ ان کے بقول اگر شاگرد سے غلطی سرزد ہو جائے تو استاد کو نرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ استاد کے امتحان کا وقت ہوتا ہے کہ سزا دینا اہم نہیں، سزا کا مقصد اہم ہے۔
آزاد تعلیم داں ریٹائرڈ ونگ کمانڈر جمشیدالرحمان نے اپنی طویل پیشہ ورانہ زندگی کا حاصل رکھتے ہوئے? بڑے تکنیکی انداز میں موضوع کا احاطہ کیا۔ انہوں نے آخرت کی جواب دہی کی بنیاد پر تعلیم کے ضمن میں چار اہم امور بیان کیے: اخلاص و دیانت داری، رزقِ حلال، نرم رویّوں کی ترویج اور اللّٰہ کے بندوں کی حیثیت سے اسی کی مدد پر یقینِ کامل۔
رِفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی کے ریسرچ فیلو ارشد بیگ نے تعلیم ایک ایسا مکمل پیکیج قرار دیا، جس کی مختلف جِہتیں ہیں: تزکیہ، تربیت، تدریس، تادیب وغیرہ۔ فکر و عمل سے ہر طرح کی ’’گندگی‘‘ کو دور کر کے ’’ عمدگی‘‘ سے بھردینا ہی اصل تعلیم ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم فقط خواندگی ہے۔ ڈگریوں کا حصول ہی تعلیم کا حاصل سمجھ لیا گیا ہے تو پھر ہمارے شان دار ماضی میں بکریاں چَرانے والے حکم راں کیسے بنے؟ ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، وہ اَلستْ بِرَبِکُم کے وعدے کے ساتھ اپنے رب کی پہچان لے کر دنیا میں آتا ہے۔ معلّم کا کام اس کی فطرت میں موجود نیکی و سچائی کو باہر نکال کر اُجاگر کرنا ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں: انسان کی عادت اگر امرِباطل پر پُختہ ہوجائے تو اُسے اُسی میں مزہ آئے گا اور اگر امرِحق پر یقینِ کامل ہوجائے تو اسے اسی میں مزہ آئے گا۔
لہٰذا معلّم کو مُربّی بنا کر تادیب کا کام ہونا چاہیے، اس لحاظ سے ہمارے نظامِ تعلیم کو ازسرِنَو تعریف و توضیح کی ضرورت ہے۔
شیخ زاید اسلامک سینٹر فار ایجوکیشن کی سربراہ معروف ماہرِتعلیم جہاں آرا لُطفی نے اپنی جگہ اپنے ہونہار شاگرد بشیر احمد منصوری ایڈیٹر مجّلہ ’’بزمِ قرآن‘‘ کو اعزازی طور پر بھیجا تھا اور شاگرد نے استاد کا حکم کمال درجے سے پورا کرتے ہوئے تعلیمی سرگرمیوں کا سنتِ نبوی کی روشنی میں جائزہ پیش کیا۔
ایجوکیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ( ای آر آئی ) اور اس کے تحت سرگرمِ عمل عثمان پبلک اسکولز کی سربراہ صفوریٰ نعیم نے اپنے رُبع صدی کے تجربات نہایت جامعیت کے ساتھ پیش کیے، ان کے مطابق:
سورۂ احزاب کی آیت 45_ 46 (ترجمہ) :
“اے نبیؐ، ہم نے تم کو بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اللّٰہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر‘‘۔
اس آیت کی روشنی میں ہمارے مقاصد طے کیے گئے ہیں۔ اس کی روشنی میں آپؐ کا کردار، داعی کی حیثیت سے ہماری ضرورت ہے۔ بَلِغُوا عَنِی (پہنچاؤ مجھے …) کے تحت ہماری تمام تر مساعی کا محور و مرکز دراصل اُمّتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ ہے۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر سُنتِ نبویؐکے طریقوں پر ہی معلّم و متعلّم کی تیاری کا کام کیا جاتا ہے۔ پیرنٹ ٹیچر میٹنگز،, ٹیچر ٹریننگ ورکشاپس، نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں اور پاکستان کی نظریاتی ضرورتوں کو کماحقہ پورا کرتا ہوا تعلیمی نصاب بلاشُبہ ای آر آئی اور عثمان پبلک اسکول انتظامیہ کے قابلِ تقلیدِ فخریہ اقدامات ہیں.
ماسٹر ٹرینر طیبہ عاطف نے اپنی تقریر سے زیادہ دیگر مقررین کے تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے موضوع کو سمیٹتے ہوئے اس نوعیت کے فورم کو مزید مؤثر بنانے پر زور دیا۔ ان کے بقول انسانی ترقی الہامی ہدایات کے بغیر بے معٰنی ہے، لہٰذا تعلیمی اداروں میں سُنت پر عمل کی سرگرمیوں اور مشقوں کے ذریعے انسانی ترقی کا کام سرانجام دینا ہوگا۔.
سیمینار کے اختتام پر مہمانانِ خصوصی کو تعلیمی خدمات کے اعتراف میں تہنیتی شیلڈز پیش کی گئیں اور دُعا کی گئی۔
طے شدہ وقت پر عدم گرفت کی خامی کو آئندہ کی اصلاح پر ایک جانب کر دیا جائے تو بِلا شُبہ آئی این ٹی کا یہ سیمینار طالب علموں، تعلیمی اداروں، معلّمین اور سامعین (بچوں کی ماؤں) کے لیے تربیت کے ضمن میں ایک گراں قدر کوشش ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ اس کی برکت سے اُمتِ مسلّمہ کو نبویؐ کردار کے حامل قائدین نصیب فرمائیں، آمین!
nn

حصہ