تحریک پاکستان میں

412

 تحریک پاکستان کی ایک بڑی اور فعال شخصیت پروفیسر امیر حسن صدیقی کے بارے میں یہ قوم کا المیہ ہے کہ بہت کم لوگ اُن کی شخصیت اور خدمات سے واقف ہیں۔ نوجوان نسل تو شاید بالکل ہی بے گانہ ہو اور نئی نسل ہی کیا پرانے لوگوں میں سے بھی کتنے ایسے ہیں جو ان سے کماحقہ واقف ہوں گے۔ سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر امیر کی شخصیت اور تحریک پاکستان میں ان کے کردار کے بہت سے گوشے ہم پر بھی یہ کتاب پڑھ کر ہی آشکار ہوئے اس کے لیے محترمہ شاہین حبیب پوری قوم کے شکریے کی مستحق ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کی تصنیف و تالیف کے لیے بڑی تحقیق اور جستجو سے کام لیا ہے۔
تحریک پاکستان کے زعماء کے نام سامنے آتے رہتے ہیں لیکن اس فہرست میں شاید ہی کبھی امیر حسن کا نام آیا ہو۔ اپنے محسنوں کو بھلا دینا کچھ اچھی روایت نہیں ہے۔ کتاب کی اشاعت پر الجلیس پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز کے محترم جلیس سلاسل بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ ایسی کتابیں دنیاوی نفع نہیں دیتیں ان کی اشاعت کے لیے جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاہین حبیب گورنمنٹ سرسید کالج کی سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور کیمیا (کیمسٹری) پڑھاتی رہی ہیں۔ سائنس کے ایک مشکل مضمون کی استاد کی تحریک پاکستان کے نامور افراد میں یہ دلچسپی یقیناًکیمیا گری ہے اور یہ شاید ان کے والد حبیب الحسن صدیقی سے منتقل ہوئی ہے جو خود بھی تحریک پاکستان میں شریک اور قائد اعظم کے رفقائے کار میں سے تھے۔
ڈاکٹر امیر حسن کے بارے میں اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ ان کا لڑکپن سے نوجوانی اور نوجوانی سے انتہائے جوانی تک کا سفر قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان میں گزرا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواں سال طالب علموں میں قائداعظم کے پرجوش پیروکاروں میں بہت نمایاں تھے۔ قائداعظم جب بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دورے پر آئے تو طالب علم امیر حسن صدیقی کو سب سے پہلے ذاتی طور پر اطلاع دی۔
اس کتاب کے پیش لفظ میں قائداعظم کے سابق اعزازی سیکرٹری اور قائد کے حوالے سے ایک معتبر کتاب کے مصنف سید شریف الدین پیرزادہ نے لکھا ہے کہ ’’تحریک پاکستان کے روشن ستاروں میں ایک ستارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سپوت ماہر تعلیم‘ اسلامی تاریخ کے اہم ترین اسکالر اور تعلیمی امور میں قائد اعظم کے معتمد ترین ساتھی ڈاکٹر امیر حسن صدیقی بھی ہیں۔‘‘ شریف الدین پیرزادہ کی یہ گواہی اس لیے زیادہ معتبر ہے کہ ڈاکٹر امیر سے ان کے ذاتی مراسم بھی تھے۔ اتنے اہم آدمی کے عمومی تعارف کے لیے کوئی مربوط کاوش نہیں کی گئی۔ اب پروفیسر شاہین حبیب نے ایک قابل قدر کتاب تصنیف کی ہے جو یقیناًڈاکٹر امیر حسن صدیقی کے تعارف میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔
ڈاکٹر امیر حسن صدیقی 1901ء میں بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کی شخصیت کی تعمیر علی گڑھ یونیورسٹی میں ہوئی جہاں وہ طلبہ تنظیم کے عہدیدار بھی رہے۔ اسلامی تاریخ پر ان کی کئی کتابیں موجود ہیں۔ قیام پاکستان سے چار برس پہلے 1943 میں سندھ مسلم کالج کراچی نے ان کی خدمات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کرلیں۔ انہیں سندھ مسلم کالج کا پرنسپل بنانے کی تجویز کو قائداعظم کی تائید بھی حاصل تھی کیونکہ اس وقت تک سندھ میں مسلمانوں کا کوئی جداگانہ کالج نہیں تھا۔ وہ جامعہ کراچی میں تاریخ اسلام کے صدر شعبہ بھی رہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو جب سقوط مشرقی پاکستان کی خبر ریڈیو پر نشر ہوئی تو ڈاکٹر امیر حسن شدتِ غم سے انتقال کر گئے۔ اس سے مرحوم کی پاکستان سے محبت اور جذباتی وابستگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اولڈ بوائز کی کراچی میں تنظیم سازی بھی ڈاکٹر امیر حسن نے کی۔ یوں تو فروغ تعلیم کے میدان میں ڈاکٹر صاحب کی بے شمار خدمات ہیں لیکن ایک نمایاں کارنامہ صدر کراچی میں ایک متحرک علمی ادارے جمعیت الفلاح پاکستان کا قیام بھی ہے جہاں سے ایک بین البراعظمی انگریزی میگزین ’’دی مسلم وائس‘‘ بھی جاری کیا گیا‘ جو اسلام کا فلاحی پیغام دنیا میں عام کرنے کا فریضہ سر انجام دیتا تھا۔ اسلامیہ کالج کے افتتاح کے موقع پر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر پاکستان میں ڈاکٹر امیر حسن صدیقی جیسے دس ماہرین تعلیم اور اے ایم قریشی (بانی اسلامیہ کالج) جیسے تعلیم گاہوں کے معمار پیدا ہوجائیں تو پاکستان میں کوئی جاہل نہیں رہے گا۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی اے‘ ایل ایل بی کرکے ڈاکٹر صاحب آکسفورڈ یونیورسٹی چلے گئے جہاں سے آنرز کرنے کے بعد تاریخ میں پی ایچ ڈی کیا۔ تاریخ اسلام پر ان کی 10 کتابیں ہیں‘ اتنی بڑی شخصیت سے لاعلمی افسوس ناک ہے۔ ہم ایک بار پھر محترمہ شاہین حبیب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
کتاب سلیقے سے شائع کی گئی ہے گو کہ کچھ غیر ضروری چیزیں بھی شامل کردی گئی ہیں۔ قائداعظم کی کئی رنگین تصاویر کتاب میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اندر کے صفحات میں بھی اہم تصاویر شامل ہیں۔ 288 صفحات میں سے 48 رنگین ہیں۔ قیمت درج نہیں ہے ویسے بھی اس قسم کی کتابوں کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی۔ کہیں کہیں کمپوزنگ اور زبان کی غلطیاں رہ گئی ہیں۔

حصہ